مہاراشٹر میں وزیر محصول ایکناتھ کھڑسے سے
استعفیٰ لے لیا گیا بظاہر یہ معمولی واقعہ ہے لیکن اس کے ذریعہ یرقانی
سیاست کے حامل سنگھ پریوار کی ذہنیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ بی جے پی
کا اصلی رنگ مہاراشٹر میں دیکھنے کو ملتا ہے اس لئے کہ اسی صوبے میں آرایس
ایس اور ہندو مہاسبھا کا جنم ہوا ہے۔ کہنے کو بی جے پی والے کہہ رہے ہیں کہ
ہم نے بدعنوانی کے سبب کھڑسے کی چھٹی کی ہے لیکن یہ تو ’’چت میں جیتا پٹ تم
ہارے‘‘ والی بات ہوئی ۔ پہلے تو یہ بلند بانگ دعویٰ کہ ہم بدعنوان نہیں ہیں۔
بتاو بدعنوانی کہاں ہے؟ اب جبکہ وہ سامنے آگئی تو کہہ رہے ہیں ہم اسے
برداشت نہیں کرتے اور اس پر سخت کارروائی کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا
صرف ایکناتھ کھڑسے بدعنوان ہیں اور باقی سارے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں ؟ اس
مفروضے کی تائید سیاست کی ابجد سے واقف شخص بھی نہیں کرسکتا اگر ایسا ہے تو
ایکناتھ ہی کوسیاسی طور پر اناتھ کیوں کیا گیا؟ اس سوال میں براہمنی کینہ
توزی کا رازاوراس کا جواب چانکیہ نیتی کا پردہ فاش کرتا ہے۔
سیاست کے گندے تالاب میں ساری مچھلیاں بدعنوان ہیں لیکن جب سے دیویندر
فردنویس نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی جن لوگوں کے خلاف بدعنوانی کے
الزامات منظر عام پر آئے وہ ہیں پنکجا منڈے ، ونود تاوڑے اور ایکناتھ
کھڑسے ۔کیا یہ محض اتفاق ہے کہ یہی تین لوگ وزیراعلیٰ کی کرسی کے دعویدار
تھے اور ان تینوں کا تعلق براہمن سماج سے نہیں ہے۔ ایکناتھ کھڑسےلیوا پاٹل
سماج سے تعلق رکھنے والے نہایت دبنگحزب اختلاف کے رہنما تھے اور انہوں نے
بی جے پی کی کامیابی میں بہت ہی اہم کردار ادا کیا اس لئے وہ بجا طور پر
وزارت اعلیٰ کے حقدار تھے ۔ جب مرکزی رہنماوں نے دیویندر فردنویس کا نام
آگے کیا تو وہ ناراض ہوکر گھر میں بیٹھ گئے تھے اس لئے انہیں سمجھا منا کر
ارکان اسمبلی کے اجلاس میں لایا گیا اور سب سے اہم وزارت یعنی محصول سمیت
ایک درجن محکمہ دئیے گئے ۔ اس کے باوجود وہ بولے وزیراعلیٰ جو بھی سب سے
زیادہ طاقتور اور معمر رہنما میں ہی ہوں ۔
ایکناتھ کھڑسے کے علاوہ پنکجا منڈے بھی وزارت اعلیٰ کی دعویدار تھیں اس لئے
کہ ان کے والد گوپی ناتھ منڈے کو مہاراشٹر بی جے پی کا معمار سمجھا جاتا ہے
۔ گوپی ناتھ منڈے کی موت کے بعد پنکجا نے کئی بی جے پی رہنماوں سے ملنا تک
گوارہ نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد جب گوپی ناتھ کی نشست پرپنکجا کو ٹکٹ دیا
گیا تو وہ مودی جی سے بھی زیادہ ووٹ کے فرق سے کامیاب ہوئیں اور تبھی سے
وزارت اعلیٰ کی گدیّ کے خواب دیکھنے لگیں ۔ انتخابی نتائج کے بعد دیویندر
فردنویس کے نام کا اعلان کیا گیا تو ناراض ہوکر پنکجا نے کہا تھا سرکاری
وزیراعلیٰ جو بھی ہو عوامی وزیراعلیٰ میں ہوں ۔ ان دونوں کے علاوہ ونود
تاوڑے کا نام زیر غور تھا جن کا تعلق مراٹھا سماج سے ہے۔وہ ماضی میں ودھان
پریشد کے اندر بی جے پی رہنما کی ذمہ داری ادا کرچکے تھے لیکن ان تینوں کو
کنارے کر کے سنگھ کے منظور نظر براہمن دیویندر کا انتخاب ہوا۔جنہوں نے
اقتدار سنبھالتے ہی مخالفین کے بخیے ادھیڑناشروع کردیا۔
بی جے پی کی مہاراشٹر میں جو صورتحال وہی مرکز میں بھی ہے اتفاق سے اس
ریاست سے تعلق رکھنے والے تینوں وزراء کا تعلق براہمن سماج سے ہے۔ ابتداء
میں نتن گڈکری اور پرکاش جاویڈیکر کے علاوہ گوپی ناتھ منڈے کو بھی وزیر
بنایا گیا تھا لیکن منڈے کے حادثاتی انتقال کے بعد ان کی جگہ شیوسینا سے
لاکر رمیش پربھو کو وزیر ریلوے بنایا گیاجن کا تعلق گوڑ سارسوت براہمن سماج
سے ہے ۔اس طرح گویا مہاراشٹر کی حدتک تو پیشوائی لوٹ آئی ہے پیشوائی میں
براہمن مراٹھوں کو اپنی فوج میں شامل کرکےلڑاتے رہےہیں اور فتوحات کا سہرہ
اپنے سر باندھ کر حکومت کرتے رہے ہیں ۔
آزادی کے بعد یہ ہوا کہ مراٹھوں نے کانگریس کی مدد سے اپنے آپ کو خود
کفیل بنالیا اوردیہی علاقوں میں شکر کے کارخانوں کی جال بچھاکر حکومت کرنے
لگے۔ اس زمانے میںدیہاتوں اور چھوٹے شہروں کے اندردیگر پسماندہ ذاتوں کے
لوگ پی ڈبلیو پی کے جھنڈے تلے منظم ہوگئے تھے مگر ممبئی اور پونا جیسے بڑے
شہروں میں سی پی آئی کا زور تھا ۔ ریپبلکن پارٹی کے نام پر دلت بھی منظم
تھےمگربراہمن اور مسلمان تقسیم تھے ۔ کچھ براہمن آرایس ایس کی جن سنگھ اور
کچھ سی پی آئی کے ساتھ تھے ۔مسلمان کہیں کانگریس تو کہیں پی ڈبلیوپی کے
ساتھ تھے۔ براہمنوں کی تقسیم نظریات کی بنیاد پر تھی مگر مسلمان چونکہ ان
سارے نظریات کو اسلام کے خلاف سمجھتے تھے اس لئےان کی وفاداری افراد کے
اخلاق وکردارکی بنیاد پرتھی ۔ فسطائی جماعتوں کے طاقتور ہوجانے کے بعد
مسلمانوں نے ایسے بدکرداررہنماوں کی بھی حمایت شروع کردی جو بی جے پی یا
شیوسینا کو ہرانے کی سکت رکھتے تھے۔
اس زمانے میں بائیں بازو کی جماعتیں سب سے بڑی حزب اختلاف تھیں اور سنگھ
پریوار کو کوئی پوچھتا نہیں تھا۔ مہاراشٹر کانگریس کا گڑھ تھا اور ایمرجنسی
کے بعد جبکہ کانگریس کی حالت خستہ ہوگئی تھی مہاراشٹر کا قلعہ محفوظ تھا ۔
یہ صورتحال ۱۹۹۰ میں بدلی جب شیوسینا اور بی جے پی کے اتحاد نے پہلی بار
۹۴ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس گئی گزری حالت میں بھی بائیں بازو کی
جماعتوں نے ترقی پذیر محاذ کے نام پر ۳۸ نشستوں پر کامیابی درج کرائی تھی
اور اس کا ووٹ تناسب ۲۰ فیصد تھا لیکن ۲۰ سال بعد ۲۰۰۹ میں یہ ہوگیا کہ یہ
محاذ سکڑ کر ۸ پر پہنچ گیا اور اس کے ووٹ کا تناسب گھٹ کر ۵ فیصد ہوگیا ۔
۲۰۱۴ کے انتخاب سے قبل بھارتیہ ریپبلکن کے رہنما پرکاش امبیڈکر نے ایک
تاریخی جملہ کہا اس بار ترقی پذیر محاذ اپنا آخری انتخاب لڑ رہا ہے اور وہ
صد فیصد درست نکلا۔ پی ڈبلیوپی کو ایک فیصد ووٹ اور ۳ تشستیں ملیں، ریپبلکن
کے دونوں دھڑوں کو بالترتیب ۶ء۰ اور ۹ء۰ فیصد ووٹ اور جملہ ۴ نشستوں پر
کامیابی ملی ۔کمیونسٹ پارٹی نے ۴ء۰ فیصد ووٹ حاصل کرکے ایک امیدوار کو
کامیاب کیا ۔ان تمام جماعتوں کے کل ووٹ ۳ فیصد سے کم ہوگئے تھے۔ اس انحطاط
کے خلاء میں سے بی جے پی کی کامیابی کی نمودار ہوئی ہے اس لئے اس کی وجہ
اہم ہے۔
۱۹۹۶ کےقومی انتخاب میں شیوسینا بی جے پی اتحادنے لوک سبھا کی ۳۲ نشستوں
پر کامیابی حاصل کرکے بھونچال مچا دیا ۔ دوسال بعد دوبارہ انتخابات ہوئے تو
ریپبلکن پارٹی کے چاروں دھڑے اور پی ڈبلیوپی نے کانگریس کے ساتھ اتحاد
کرلیا نیز ۳۸ نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی ۔اس کے بعد ۱۹۹۹ میں ان جماعتوں
نے پھر پینترا بدلا اور کانگریس اور بی جے پی کو ایک ہی سکے دو پہلو بتا کر
الگ سے انتخاب لڑا نتیجہ یہ ہوا کہ پھر ایک بار بی جے پی سینا اتحاد کو ۲۸
نشستیں مل گئیں۔ اس ابن الوقتی کے نتیجے میں ان جماعتوں کے اوپر سے عوام کا
اعتماد ختم ہوگیا اور وہ بی جے پی و سینا کی گود میں چلے گئے۔ اس دوران
ریپبلکن پارٹی ۴۰ دھڑوں میں تقسیم ہوگئی اور ایک کے بعد ایک پرکاش امبیڈکر
و آٹھولے نے بھی بی جے پی کے اتحاد میں شامل ہوکر اپنی مٹی پلید کرائی۔رام
داس آٹھولے آج بھی یرقانی جماعتوں کے ساتھ ہیں لیکن ان کی کوئی وقعت نہیں
ہے۔
مہاراشٹر کی سیاست میں سب سے بڑا نقالاب اس وقت آیا جب کانگریس نے
کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کا اثر زائل کرنے کی خاطر شیوسینا کی سرپرستی کی۔
یہ تجربہ بہت کامیاب رہا شہروں کے مزدور سی پی آئی سے کٹ کر اور دیہاتوں
کی پسماندہ ذاتیں پی ڈبلیو پی سے دور ہوکر شیوسینا کی جانب راغب ہونے لگیں۔
اس دوران اتفاق سے شیوسینا کو چھگن بھجبل کی جیسا پسماندہ مالی سماج کا تیز
طرار رہنما میسر آگیا جو سینا کو کوکن اور ممبئی سے نکال کر ناسک و دیگر
علاقوں میں لے گیا۔اس وقت ایسے مراٹھا رہنما جو کانگریس کا ٹکٹ حاصل کرنے
میں ناکام ہوجاتے تھے وہ بھی شیوسینا کا رخ کرتے تھے اور سینا بانہیں کھول
کر ان کا استقبال کرتی تھی۔
بی جے پی نےاسی دور میں شیوسینا کے ساتھ اتحاد کیا لیکن صرف سینا پر انحصار
کرنے کے بجائے ایک نئی حکمت عملی وضع کی ۔ اس نے اپنے براہمنی چہرے پر
پسماندہ مکھوٹا چڑھا لیا۔ تینوں اہم عہدوں صوبائی صدر، ودھان سبھا اور
ودھان پریشد کی رہنمائی مختلف پسماندہ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے انا
ڈانگے،این ایس پھراندے اور گوپی ناتھ منڈے کے حوالے کردی ۔ اتفاق سے دلت
سماج سے تعلق رکھنے والے پانڈورنگ پھنڈکر بھی اس پریوار میں شامل ہوگئےاور
اس طرح بی جے پی بہوجن سماج میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے لگی ۔ سنگھ پریوار نے
نظریہ کو بالائے طاق رکھ کر ذات پات کی سیاست کا آغاز کیا۔ جس زمانے میں
بی جے پی ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت سماج میں پیر پساررہی تھی دوسری
جماعتیں آپسی سر پھٹول یا وراثت کی جنگ میں ملوث تھیں ۔ نئے خون کو پارٹی
میں شامل کرنے کے بجائے بزرگ حضرات اپنی بوسیدہ سیاست پر تکیہ کئے بیٹھے
تھے۔ مراٹھے گو کہ دوجماعتوں میں منقسم تھے مگر وہ دونوں جماعتیں اقتدار کی
خاطرمتحد ہو گئی تھیں لیکن ۲۰۱۴ کے انتخاب میں بی جے پی نے این سی پی کو
بلیک میل کرکے کانگریس سے الگ کرلیا اور خود شیوسینا سے دامن جھٹک کر اپنے
بل بوتے پر انتخاب لڑا۔
۲۰۱۴ کے صوبائی انتخاب میں جب بی جے پی نے شیوسینا کے بغیر تقریباً اکثریت
حاصل کرلی تو این سی پی کی مدد سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے دکھا دیا کہ اب
وہ شیوسینا سے بے نیاز ہوچکی ہے۔ اس لئے وہ اپنے اصلی رنگ میں آگئی اور
پسماندہ سماج کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر ایک براہمن کو وزیراعلیٰ بنادیا
بعد میں شیوسینا کورسوا کرکے اپنی حکومت میں شامل کیا۔ کھڑسے ، منڈے اور
تاوڑے کوبے اثر کرنے کا جوعمل شروع ہوا تھا وہ اب جاری و ساری ہے اس حکمت
عملی میں دیویندر فردنویس کو پہلی کامیابی مل چکی ہے ایکناتھ کھڑسے ابھی تو
گھر گئے ہیں ممکن آگے چل کر جیل بھی جائیں۔ ۔ بی جے پی مہاراشٹر کی جو
تاریخ ویب سائٹ پر رقم ہے اس میں پھراندے اور ڈانگے کا نام و نشان نہیں ہے
انہیں کاغذی رومال کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا گیا اسی طرح ممکن ہےآگے
چل کر تاوڑے اور منڈے کو بھی بھلا دیا جائے ۔
مہاراشٹر مںج بی جے پی کا صدر اب بھی پسماندہ ذات کےراؤ صاحب دانوے ہیں جن
کی ہمدردی کھڑسے کے ساتھ ہے۔ کھڑسے کے جبری استعفیٰ سے قبل جالنہ کےمیں
دانوے نے صاٖ ف کہا تھا کہ کھڑسے نے کوئی غلطی نہیں ان سے کوئی بے اعتدالی
سرزد نہیں ہوئی ۔ ان کے خلاف سارے الزامات بے بنیاد ہیں۔ جماعت (یعنی بی جے
پی کی صوبائی اکائی) ان کے ساتھ ہے اگر حکومت یا پارٹی کی اعلیٰ کمان
تحقیقات کرنا چاہتی ہےتو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن اس میں کھڑسے
کا کوئی خسارہ نہیں ہوگا۔یہ محض قیاس آرائی کہ رپورٹ (جو وزیراعلیٰ کے پاس
ہےوہ) کھڑسے کے خلاف ہے وہ ان کے حق میں مثبت بھی ہوسکتی ہے۔ دانوے کی لمبی
چوڑی حمایت کے برعکس فردنویس نے بس یہ کہا کہ میں حقائق پر مبنی رپورٹ امیت
شاہ کو دے چکا ہوں ۔ وہ دستاویز ایکناتھ کھڑسے کے حق میں مثبت تھی یا نہیں
اس کا فیصلہ ان پر ہونے والے اقدام نے کردیا ۔ اس حکومت کو کلین چٹ دینے
میں مہارت حاصل ہے یرقانی دہشت گرد تو درکنا روہ پٹھانکوٹ حملے میں پاکستان
تک کو کلین چٹ دے چکی ہے لیکن بیچارے کھڑسے محروم رہے۔
حکومت کے نشے میں بد مست بی جے پی رہنما اس حقیقت کو فراموش کرچکے ہیں کہ
ان کویہ اقتدار نہ تو اپنی صلاحیت کی بنیاد پر حاصل ہوا ہے اور نہ ہی عام
رائے دہندگان ان کے نظریات سے اتفاق کرتے ہیں بلکہ یہ تو ایک ذات پات کا
توڑ جوڑ تھا جس نےسرکار کا پھل ان کی گود میں لاکر ڈال دیا۔ جس پیڑ سے یہ
پھل ٹوٹ کر گرا ہے اس کی شجرکاری پسماندہ طبقات کےرہنماوں نے کی ہے ۔جن
باغبانوں کو کل یہ لوگ بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ لایا گیا تھا اگر انہیں
ذلیل کرکے بھگا دیا گیا توآگےچل کر یہ درخت سوکھ جائیگا اور اقتدار کے پھل
میں کیڑے پڑ جائیں گے۔ بی جے پی کے براہمنوں میں اگر ذرہ برابر بھی دور
اندیشی ہوگی تو کم ازکم وہ اس شاخ کو کاٹنے سے احتراز کریں گے جس پر بیٹھ
کر وہ وزارتوں کا پھل نوش فرمارہے ہیں۔ جس دن یہ شاخ ٹوٹ کر گرے گی وہ خود
بھی دھڑام سے زمین پر آجائیں گے۔
مہاراشٹر میں حکومت سازی کے بعد براہمنوں کی آنکھ پر پردہ پڑ گیا ہے ورنہ
سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان کی سیاست میں براہمن اور مسلمان ہی دو ایسی
اقلیتیں ہیں جو آنکھ کھول کر انتخاب لڑتی ہیں باقی سب تو بھیڑ بکریوں کی
مانند آنکھ بند کرکے اپنے رہنما کی پیروی کرتے ہیں۔ براہمن اور مسلمان
اپنا موقف اور حکمت عملی وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ۔ براہمن کبھی کانگریس
کے ساتھ ہوا کرتا تھا ، وہ بی جے پی میں بھی پیش پیش رہا اور وقت ضرورت
کمیونسٹوں کے علاوہ بہوجن سماج کے ساتھ بھی ہوجاتا ہے ۔ یہی حال مسلمانوں
کا ہے وہ کبھی کانگریس تو کبھی سماجوادی،کبھی کمیونسٹ تو کبھی بہوجن سماج
کے ساتھ ہولیتا ہے لیکن ان دونوں میں ایک فرق ہے ۔ براہمن اقتدار میں حصہ
داری کیلئے پارٹی تبدیل کرتا اور مسلمان بی جے پی کو شکست دینے کیلئے پالے
بدلتا ہے ۔ دونوں اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب تو کبھی ناکام ہوجاتے ہیں
مثلاً اتر پردیش کے پچھلے صوبائی انتخاب میں مسلمان کامیاب رہے اور
پارلیمانی انتخاب میں براہمنوں کو کامیابی ملی ۔یہ شطرنج کا کھیل ہے جس میں
شہ اور مات ہوتی رہتی ہے۔
موجودہ سیاست میں مسلمان اقتدار سے اس لئے محروم رہتے ہیں کہ ان کے خلاف
منفی رحجانات کے سبب نہ وہ ہندتووادیوں کے ساتھ جاسکتے ہیں اور نہ
ہندوتوادی ان کے ساتھ آسکتے ہیں۔ جہاں ان کی موجودگی ٹھیک ٹھاک ہے اکثرو
بیشتروہ اپنے ہمنوا کو کامیاب کردیتے ہیں مثلاً اتر پردیش میں بہوجن سماج
پارٹی یا سماجوادی پارٹی ۔ براہمنوں کا یہ ہے کہ ان کی اپنی پارٹی تو بی جے
پی ہے لیکن جب اس کا اقتدار میں آنا مشکل ہوتا ہے تووہ اپنے مفاد کیلئے
کانگریس سے لے کر بہوجن سماج پارٹی تک کسی سےبھی ہاتھ ملا لیتے ہیں ۔ بی جے
پی پسماندہ ذاتوں کو کھڑسے یا منڈے جیسے رہنماوں کی مدد سےجھانسہ دے کر
اپنے ساتھ لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے لیکن مسلمان دھوکہ نہیں کھاتے اس لئے
وہ مسلمانوں سے خار کھاتی ہے۔
ایکناتھ کھڑسے کے ساتھ جو کچھ بی جے پی نے کیا وہی سلوکچھگن بھجبل کے ساتھ
شیوسینا اور این سی پی کرچکی ہے۔ چھگن بھجبل پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے
والے رہنما تھے انہوں نے شیوسینا کو ریاست گیر جماعت بنایا لیکن جب
وزیراعلیٰ بنانے کا موقع آیا تو بال ٹھاکرے نے منوہر جوشی جیسے براہمن کو
ان پر فوقیت دی ۔ وہ ناراض ہوکر این سی پی میں چلے گئے۔ جب این سی پی سب سے
بڑی جماعت بن کر ابھری تو چھگن بھجبل کیلئے وزیراعلیٰ بننے کا موقع تھا
لیکن شرد پوار نے پر کانگریس سے سودے بازی کرکے دومرکزی وزارتوں کےبدلے
مہاراشٹر میں وزارت اعلیٰ کی گدی بیچ دی۔ با لآخر جب بدعنوانی کے الزام
میں جیل جانے کا وقت آیا تواجیت پوار کےعوض بھجبل کی بلی چڑھا دی گئی۔ بی
جے پی نے جب نتین گڈکری کو قومی صدر بنایا اور انہوں نے گوپی ناتھ منڈے کی
جڑیں کاٹنا شروع کیں تو منڈے نے بیزار ہوکر بھجبل کے ساتھ مل پسماندہ طبقات
کا اتحاد قائم کرنے پر غور کیا تھا ان کا خیال تھا کہ جب تک پسماندہ طبقات
دیگرجماعتوں کے چنگل سے نکل کر اپنا محاذ نہیں بناتے اس وقت تک انہیں
دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی لعنت سے نجات نہیں ملے گی ۔کسی زمانے میں
جومنڈے نے سوچا تھا آج وہی کھڑسے بھی وہی سوچ رہے ہوں گے ۔ ویسے مثل مشہور
ہے اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت بقول شاعر؎
زیست کے ترازو میں
اک طرف سیاست ہے
اور دوسری جانب عمر بھر کا پچھتاوا
|