بھارت اور امریکہ کی قربت ۔۔انتشار کا فروغ

بھارت میں جب سے نریندر مودی وزیر اعظم بنے ہیں اس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہت اضافہ ہوا ہے۔بھارت کی وزارتِ خارجہ حالیہ چند برسوں سے کافی متحرک رہی ہے۔وہ دنیا کو بھارت کی ایک ایسی تصویر پیش کرنے کی کوشش میں رہی ہے کہ جس سے یہ تصور ابھرتاہو کہ بھارت اب ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔دفاعی اور نیوکلئیرشعبے میں اس نے اپنے وسائل کو بے دردی سے خرچ کیا ہے۔بھارت نے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے لیے عالمی قوانین اور ضابطوں کو بھی نظر انداز کیا ہے۔بھارت اپنے اندرونی اور داخلی معاملات کو پسِ پشت ڈال کر محض عالمی سیاست میں کردارادا کرنا چاہتا ہے۔پہلے وہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا خواب دیکھتا رہا مگر اس کے اپنے داخلی عدم استحکام کی بدولت عالمی قوتوں نے یہ خواب پورا نہ ہونے دیا۔اس میدان میں ناکامی کے بعد بھارت اب نیوکلئیر سپلائرز گروپ میں شامل ہونے کا خواہشمند ہے۔اس کی یہ خواہش تاحال پوری نہیں ہو سکی ہے۔ بھارت یہ بات بخوبی سمجھتا ہے کہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے اور این ایس جی میں شمولیت کے لیے اس کے لیے امریکی حمایت از حد ضروری ہے۔

امریکہ کی قربت حاصل کرنے کے لیے بھارت کے پاس اسکے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ امریکہ کو پاکستان سے دور کرے۔بھارتی لابی امریکی انتظامیہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہی کہ پاکستان نے خطے میں اس کے مفادات کے لیے خلوصِ نیت کے ساتھ کام نہیں کیا ہے اور افغانستان میں عدم استحکام کا بھی پاکستان ذمہ دار ہے۔بھارت نے افغانستان میں امن کے قیام کے لیے امریکہ کو اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کے فروغ اور تحفظ کے لیے بھارت اس کا اتحادی بن کر سامنے آیا ہے۔ان دو ملکوں کی قربت کی وجہ کچھ اور بھی ہے۔امریکہ چین کے بڑھتے ہوئے کاروباری اور تجارتی حجم سے پریشان ہے۔گوادر بندر گاہ کی تعمیر اور سی پیک منصوبہ اس کے لیے دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف جاری کامیاب آپریشن ضربِ عضب نے اس خطے کو امن کی راہ پر لا کر کھڑا کیا ہے۔جبکہ امریکہ یہاں اپنی موجودگی کے جواز کے لیے مکمل امن بھی نہیں چاہتا ہے ۔یہی وجہ کہ اسے خطے میں پاکستان کی نسبت کسی غیر سنجیدہ ملک کی دوستی کی ضرورت تھی لِہذااب یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے ہیں۔

بھارت اور امریکہ کی حالیہ قربت خطے کے حالات کو خرابی کی طرف لے کے جا رہی ہے۔افغانستان میں امریکہ نواز حکومت ہونے کے باعث اس کا جھکاؤ بھی اسی نئے اتحاد کی طرف ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب افغانستان کی سرحدی فورسز آئے روز پاکستانی فوجیوں پر فائرنگ کر رہی ہیں۔پاکستان کو ایک نئے محاذ پر الجھایا جا رہا ہے۔ایک غلطی پاکستان سے بھی ہوئی کہ حالیہ دنوں میں ا س نے ایران کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی نہیں دیکھائی جبکہ امریکہ اور بھارت اس کے بہت قریب آچکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس کی طرف سے بھی سرحد اب پاکستان کے لیے غیر محفوظ نظرآنے لگی ہے۔ ایل او سی اور بھارت کے ساتھ سرحد پر بھی مستقبل قریب میں فوجی حرکت دیکھنے کو مل سکتی ہے۔بھارت کا امریکی مدد کے طفیل تنہا سپر پاور بننے کا خواب پورے خطے کے امن کو تباہ کر سکتا ہے۔

امریکہ جو اب پاکستان سے دور ہو چکا ہے اسے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔اسے پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کو سمجھنا ہو گا۔اسے پاکستانی فوج کی استعدادِ کار کو بھی سمجھنا ہو گا۔اسے اس خطے میں ایک سنجیدہ دوست کی ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گی۔وہ پاکستان کے بغیر اس خطے میں کبھی بھی آسانی کے ساتھ نہیں رہ سکتا ہے اور اگر بھارت کسی مہم جوئی کے بارے میں سوچ رہا ہے توپاکستان کے پاس نیوکلئیر آپشن موجود ہے۔

امریکہ اور بھارت کو اپنے تعلقات استوار کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔بھارتی عوام کی اکثریت غربت اور افلاس کی چکی میں پس رہی ہے۔مایوسی کی بدولت وہاں علیحدگی کی تحریکوں میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔بھارت اپنے وسائل ہتھیاروں کی خریداری کی بجائے عوام کی فلاح پر خرچ کرے۔لوگوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے سے ہی اقوام عالم میں بھارت کی عزت بڑھے گی۔ امریکہ کو بھی اب اپنے اندرونی حالات کو دیکھنا ہو گا وہاں بھی اب دہشت گردی سر اٹھا رہی ہے۔دونوں ملکوں کو یہ بات یاد رکھنا ہو گی کہ ا نتشار اور بد امنی پھلانے سے نہ صرف ان کا اپنا وجود خطرے میں پڑ جائے گا بلکہ تاریخ میں بھی ان کا ذکر سیاہ حروف میں ہی ہو گا۔
 
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 55937 views i am columnist and write on national and international issues... View More