حسب توقع وزیر داخلہ کی جانب سے قومی
شناختی کارڈ کی دوبارہ تصدیق کا عمل پختون بیلٹ فاٹا سے شروع کردیا گیاہے ۔
ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سابق وزیر داخلہ
کے خلاف کاروائی ہوتی لیکن ہمیشہ کی طرح پختونوں کے خلاف ہی ایکشن لیا جا
رہا ہے۔ فاٹا کے بعد خیبر پختونخوا اور پھر بلوچستان میں قومی شناختی کارڈ
کی تصدیق کی جائے گی۔ یہ عجیب المیہ ہے کہ افغان شہری کو جعلی دستاویزات پر
قومی شناختی اور دیگر دستاویزات نادراکے کرپٹ عہدے دار فراہم کریں اور چند
لوگوں کی وجہ سے پوری پختون قوم کو لائن میں کھڑا کردیا جائے ۔ اسلام آباد
میں بیٹھے ہوئے ارسطو ، سقراط اور افلاطون کی ساری دانشوری کی تان اس بات
پر ٹوٹتی ہے کہ پختون قوم کو دنیا بھر میں دہشت گردوں کا سہولت کار ثابت
کیا جائے ۔ ملا اختر منصور کو پاکستانی دستاویزات کا جاری ہونا ، سرکاری
اداروں کی نا اہلی کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب سے
پہلے تصدیقی مرحلہ افغان مہاجرین کے کیمپوں سے شروع کیا جاتا ۔ افغانستان
سے جب مہاجرین پاکستان آئے تھے تو انھیں 300کیمپوں میں رکھا گیا تھا ۔ اب
ان کیمپوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ سینکڑوں کیمپ کے مہاجرین کہاں
چلے گئے ؟۔ان کی آبادیاں چاند پر نہیں بلکہ اسی ملک کے طول وعرض پر موجود
ہیں ، افغان مہاجرین اپنی روایات کے مطابق شہری علاقوں میں اجتماعی طور پر
رہتے ہیں ۔ وزارت داخلہ کو پہلے مرحلے میں نارا کے پاس رجسٹرڈ افغان
مہاجرین کی تصدیق کا عمل شروع کرنا چاہیے تھا کہ وہ کیمپ کے بجائے شہری
آبادی میں کیوں رہ رہے ہیں ۔ اس کے ساتھ افغان مہاجرین کیمپوں میں اور پھر
افغان آباد بستیوں میں ، جہاں مہاجرین پاکستانی دستاویزات حاصل کرکے
38سالوں سے رہ رہے ہیں ۔ لیکن ماضی کی روایتوں کو جاری رکھتے ہوئے سب سے
پہلے عام پختونوں کے شناختی کارڈ کے تصدیقی عمل سے پوری پاکستانی پختون قوم
کی وطن پرستی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا گیا ہے کہ کیا ، سندھ کی سرحد کے
ساتھ رہنے والوں میں بھارتی شہری نہیں ہوسکتے ، کیا ان کو کلین چیٹ دے دی
گئی ہے ۔ کیا بلوچستان میں، ازبک ، تاجک،یا ایرانی بلوچ نہیں ہوسکتے یا
بلوچستان میں بلوچستان کی علیحدگی کا نعرہ پشتونوں نے لگایا ہے کہ بلوچوں
کے کچھ قبائل نے ؟۔چالیس لاکھ افغان مہاجرین کا پاکستان میں موجود ہونا
ابھی کا واقعہ نہیں ہے ، لیکن اس کے باوجود پہلے مرحلے میں اڑھائی کروڑ
شناختی کارڈ کی تصدیق کا عمل صرف پختونوں کے لئے مختص کرنا پختون قومیت کے
خلاف سازش سمجھی جا رہی ہے۔وزارت داخلہ نے اس بات کی وضاحت نہیں کہ اگر کسی
پختون کا شناختی کارڈ نادرا کے دوبارہ تصدیق عمل میں تصدیق شدہ نہیں نکلتا
تو کیا اس کے پورے خاندان کو ڈی پورٹ کردیا جائے گا ۔ اگر ڈی پورٹ کیا جائے
گا تو ایسے کس ملک میں ڈی پورٹ کیا جائے گا۔ یہاں تو نادرا کے کمالات یہ
ہیں کہ ایک خاندان کے 50افراد کے شناختی کارڈ موجود ہوتے ہیں لیکن اسی
خاندان میں ایک فرد کا شناختی کارڈ تعصب و لسانیت کی بنا پر بلاک کردیا
جاتا ہے ۔ تو کیا اس فرد کے پورے خاندان کے کارڈ ہونے کے باوجود وہ غیر
ملکی کہلائے جائیں گے یا ایک فرد کو ہی اس کے خاندان سے جدا کرکے ڈی پورٹ
کردیا جائے گا۔افغان قوم کی ظاہری شناخت ناممکن نہیں ہے ۔ ان کا لب و لہجہ،
رہن سہن پانچ ہزار سال سے تبدیل نہیں ہوا ۔ وزارت داخلہ کو اپنے نئے نئے
آئیڈیا زپختون قوم پر آزمانے کے بجائے زمینی حقائق کے مطابق قابل عمل بنانے
پر توجہ دینی چاہیے۔بھارت سے ہجرت کرنے والوں میں ایک بہت بڑی تعداد انڈین
خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹوں کی گرفتار ہوئی ہے ۔ اب تمام اُن خاندانوں کا
جنھوں نے بھارت سے پاکستان ہجرت کی تھی ، ان کی تصدیق کا عمل بھی دوبارہ
شروع ہونا چاہیے کہ واقعی یہ1947 یا1971کے مہاجر ہیں یا ان کے لبادے میں
بھارتی ایجنٹوں کی بڑی تعداد نے سرکاری ملازمتیں حاصل کرلیں ہیں ۔خیبر
پختونخوا اور فاٹا کے عوام اس بات پر حیران ہیں کہ انھیں ہی ہمیشہ مشق ستم
کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔افغانستان سے مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد کو
صرف خیبر پختونخوا میں آباد کرکے پہلے تو وہاں کے غریب عوام کے منہ سے
روزگار چھین لیا جاتا ہے ۔یہاں تک وہ مجبور ہوکر ملک کے دوسرے حصوں کی جانب
رخ کرتا ہے تو ایسے طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پاکستان میں
دہشت گردی کے ہاتھوں اتنے افراد ہلاک نہیں ہوئے جتنے کراچی اور اندرون سندھ
میں لسانیت کے نام پر پختونوں کا قتل عام کیا گیا۔راقم کو شناختی کارڈ کے
دوبارہ تصدیقی عمل سے انکار نہیں ، بلکہ پختون کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کرو
اکر محفوظ کرلیا جائے تاکہ مستقبل میں کسی بھی قسم کے واقعے پر اگرکسی کو
کوئی شک ہو تو محفوظ ڈی این اے سے چیک کرلیا جائے ۔دہشت گردی سے تباہ حال
عام پختون پریشان و حیران ہے کہ اب انھیں ان کی قومی شناخت کے حوالے سے
دوبارہ تصدیقی عمل میں کتنی مشکلات کو سہنا ہوگا ۔ خیبر پختونخوا اور فاٹا
کی عوام کی کھربوں روپوں کے جائیدادیں تباہ ہوئیں ، دو ہزار پولیس اہلکاروں
نے جام شہادت نوش کیا ۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا تھا جب دہشت گرد پختون
عوامی مقامات اور مساجد کو دھماکوں کا نشانہ نہیں بناتے تھے ۔ لیکن ستم
بالائے ستم یہ ہے کہ اب ان پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے کے لئے شناختی
کارڈ کی دوبارہ تصدیق کا عمل پختون بیلٹ سے شروع کرکے باقی قومیتوں کو کلین
چیٹ دے دی گئی ہے اور پختون قوم کی دوبارہ تصدیقی عمل سے پوری دنیا میں
انھیں مشکوک بنا دیا گیا ہے۔ وزرات داخلہ کو پہلے بلوچستان میں افغان
مہاجرین ، ہزارہ مہاجرین کے کیمپوں اور ان کی آبادیوں سے یہ عمل شروع کرنا
چاہیے تھا۔ غیر ملکی افراد کی شناخت کیلئے صرف پختون قوم کو منتخب کرنا ،
ایک جانبدارنہ فعل ہے ۔پاکستان میں موجود تمام قومیتوں کے شناختی کارڈ کے
عمل کو دوبارہ تصدیقی عمل سے گزارا جائے۔ مرحلہ وار ان علاقوں میں جہاں غیر
ملکی آباد ہیں ان کے علاقوں کا ڈیٹا اکھٹا کیا جائے اور فوج کی موجودگی میں
نادرا کی موبائل ٹیمیں گھر گھر جاکر اس عمل کو موثر بنائیں ۔ نادرا میں
دوبارہ تصدیقی عمل کیلئے پختونوں کو دوبارہ گھنٹوں گھنٹوں لائن میں کھڑا
کرکے انھیں ناکردہ گناہوں کی سزا نہ جا ئے۔خیبر پختونخوا اور فاٹا میں
پختونوں کی کھربوں روپے کی املاک تباہ ہوئی ہیں ، اقوام متحدہ سے ملنے والی
رقم کا دوسرے صوبوں سے کیا واسطہ ، دھماکے ہوئے تو پختون بیلٹ میں ،ہزاروں
جانیں گئیں تو پختون بیلٹ میں ،کھربوں کی املاک و کاروبار تباہ ہوئے تو
پختون بیلٹ میں ، تو پھر وفاق کس فارمولے کے تحت قومی مفادات کونسل میں
دہشت گردی سے متاثرہ صوبے کو اقوام متحدہ ، امریکہ سے ملنے والی رقوم میں
سے صرف ایک فیصد دے رہا ہے ۔عجیب دستور ہے کہ بندہ ایران سے واپسی پر
بلوچستان میں ہلاک ہوتا ہے اور تصدیقی عمل خبیر پختونخوا اور فاٹا سے شروع
کیا جارہا ہے۔سارا نزلہ بے بس قبائلیوں اور پختونوں پر ہی کیوں گرایا جا
رہا ہے ؟۔وفاقی وزیر داخلہ سنجیدہ آدمی ہیں ، انھیں غور و تدبر سے کام لینے
کی ضرورت ہے کہ بلوچستان میں بہت بڑی تعداد افغان ، اور افغان ہزارہ
مہاجرین کی موجود ہے ، بلوچستان کا صوبہ ایرانی اور بھارتی ایجنٹوں کا
مرکزی پوائنٹ ہے ، ہزارہ ، افغان مہاجرین کے ساتھ ایران سے آنے والے
لاتعداد غیر قانونی ایرانی بھی بلوچستان میں موجود ہیں ۔ سندھ، پنجاب میں
بھارتی سرحدوں سے را ایجنٹوں کی آمد و رفت بھی ڈھکی چھپی نہیں ۔گلگت ،
بلتستان میں بھی تمام فرشتے نہیں ہیں ۔کراچی خاص طور پر را کے ایجنٹوں سے
بھرا ہوا ہے ۔پھر پختون ہی کیوں ؟۔آپ تصدیقی عمل سب جگہ کریں ۔لیکن شفافیت
کا معیار کیا ہوگا؟۔ ْ یہی نادرا کے کرپٹ اہلکار ہونگے جنھوں نے جعلی
دستاویزات جاری کیں ،،یا نادرا اور وزرات داخلہ میں فرشتوں کو بھرتی کرلیا
گیاہے۔ ؟؟۔خدارا ایسا عمل کرنے سے گریز کریں کہ پاکستان میں بسنے والی
قومیتوں کو اپنی پاکستانی قومیت ہونے پر شک ہونے لگے ۔ انتہا پسندی ، دہشت
گردی کے خلاف قربانیاں دینے والوں کے زخم پر مرہم رکھیں ، انھیں مزید مت
ادھیڑیں۔پاکستانی پختون ، پاکستان سے مخلص ہے اس کے لئے سب سے زیادہ جانی و
مالی قربانی بھی پاکستانی پختون قوم نے دی ہے۔پاکستانی پختون قوم کی قدر
کیجئے۔انھیں مشق ستم نہ بنائیے۔پاکستان بنانے سے بچانے والوں کی قربانیاں
زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔کاش کوئی سمجھے !! |