کنویں کا مینڈک
(Hidayatullah Akhtar, Gilgit)
ہفتہ رواں میں صوبائی اسمبلی جی
بی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے اخباری بیانات موضوع بحث رہے ۔سپیکر اور
ڈپٹی سپیکر کے بیانوں پر افرین کی صدائوں کے ساتھ ساتھ شکوک و شہبات کا بھی
اظہار کیا جاتا ہے کہ اندر سے سب ایک دوجے کا ہاتھ بٹانے کےپابند ہیں لیکن
ظاہراً چوہے بلی کا کھیل جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔ اور یہ چوہے بلی کا کھیل
آج سے نہیں بلکہ پچھلے ستر سالوں سے جاری ہے ۔اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے
تو بیروکریسی بارے ڈپٹی سپیکرز کا بیان کوئی نیا بیان نہیں لگتا۔رہی بات
سپیکر صوبائی اسمبلی جی بی کے بیان کی تو اس کا بیان بھی وہی ہے جو ڈپٹی
سپیکر نے جاری کیا ہے یعنی دونوں صاحبان اپنی لا چاری کا رونا رو رہے ہیں ۔
سپیکر کے بیان میں نیا پن اس لئے ہے کہ اس کے بیان میں مینڈک اور کنویں کا
ذکر ہے ۔ دل چاہتا ہے کہ آج ان مینڈکوں کے بارے ہی بات کی جائے جو کنویں
میں ٹررا رہے ہیں ۔سپیکرکا کہنا یہ ہے کہ ہم کنویں کے مینڈک ہیں ۔۔۔۔۔ہماری
آواز کوئی نہیں سنتا۔۔۔۔ہم تو اس بات پہ حیران ہیں کہ سپیکر کی آواز
سپیکر میں کوئی نہیں سنتا یہ کیسے ممکن ہے سپیکر کی تار میں کوئی فالٹ آیا
ہوگا اس کو چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ بات کنویں کی ہو رہی ہے تو ہم یہ سمجھتے
ہیں کہ کنویں کے مالک نے اپنے اس کنویں میں پا نی بھرنے میں بڑی بے احتیا
طی ی اور لا پرواہی سے کام لیا اور اس میں چشمے کا پانی بھرنے کے بجائے
عجلت میں چوپائوں کے جوہڑ کا پانی لگا دیا۔اور یہ کنواں بنے بھی کتنا عرصہ
ہوا ہے۔ یہی نا کہ ستر سال اور ان ستر سالوں میں اس گندے پانی میں رہنے
والے مینڈک مختلف فتوئوں کی روشنی میں کبھی کبھار اس کنویں کے پانی کو صاف
کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پانی ہے کہ صاف ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔کنویں
اور مینڈک کی کہانی میں تو کچھوے کا بھی نام آتا ہے پھر دریا اور ساغر کی
مچھلی کا بھی ذکرہے ۔کیا کبھی ان مینڈکوں نے مچھلی اور کچھوے کے بارے بھی
غور کیا ہے کہ کیچھوا کنویں میں کیسے جانے سے رہ گیا اور دریا کی مچھلی جو
غلطی سے کنویں میں گر گئی تھی کیسے کنویں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئی ۔اگر
یہ مینڈک اس بارے سوچتے تو شائد کنویں سے باہر نکلنے کی بھی کوشش ضرور کرتے
لیکن پچھلے ستر سالوں میں اس قسم کے آثار اس کنویں کے آس پاس بھی دیکھنے
میں نہیں آئے ہیں ۔اور اگر میں آپ کو دریا کی مچھلی اور کچھوے کی کہانی
اور مینڈک کے ساتھ ان کی گفتگو سنانے یا لکھنے بیٹھ جائوں تو قرطاس کے چار
سے آٹھ صفحات تو درکار ہونگے ہی ۔ اور اتنی لمبی لمبی کہانیاں کون پڑھے ہم
تو شارٹ کٹ مارنے کے عادی ہیں۔بس مختصرا لکھ دیتا ہوں کہ بگلے کی چونچ سے
چھٹکارہ پاکر کنویں میں گرنے والی مچھلی مینڈک کو دریا کی دنیا کے بارے بتا
چکی تو مینڈک نے یہی کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے بھلا کوئی دریا ہمارے کنویں سے
بھی بڑا ہو سکتا ہے۔ تم یا تو میرا مذاق اڑا رہی ہو یا تم نے ضرور کوئی
خواب دیکھا ہے۔ بھلا سوچنے کی بات ہے کہاں یہ لمبا چوڑا کنواں اور کہاں
تمہار ساگر یا دریا اب بے چاری مچھلی کیسے مینڈک کو سمجھاتی بس اس نے اتنا
کہا کہ مینڈک بھائی جب تم اس کنویں سے باہر نہیں نکلوگے تمھیں کیسے معلوم
ہوگا کہ یہ دنیا کتنی وسیع ہے اور مچھلی کو بھی اندازہ ہوا تھا کہ کنواں تو
بہت گہرا ہے اور وہ سوچ رہی تھی بگلے کی چونچ سے تو نکل آئی، مگر اس کنویں
سے کس طرح نکلوں گی۔اب مچھلی اس کنویں سے کیسے نکلی وہ بھی ایک کہانی ہے
لیکن ایک چیزضرور سوچنے کی کہ ہے کہ مچھلی کو اس کی سوچ نے ہی باہر نکالا ۔رہی
بات کیچوے اور مینڈک کہ تو اس بارے کنویں کے مینڈک اور کچھوے“ والی مشہور
چائنیز کہاوت تو آپ لوگوں نے سنی ہی ہوگی جس میں کیچوا مینڈک کو کنویں کی
اندھیری دنیا سے ہٹ کر سمندر کی دنیا کی کہانی سناتا ہے لیکن مینڈک اکڑتے
ہوئے کچھوے کو کہتا ہے کہ تم کیا جانو کنویں کی دنیا کا کیا جادو ہے۔ اندر
آو گے تو باہر جانے کا نام ہی نہ لو گے۔ کچھوا بیچارہ اندر جانے کی کوشش
کرتا ہے لیکن اپنے سخت خول کی وجہ سے نہیں جا سکتا، جبکہ مینڈک پھدکتے ہوئے
کنویں کی کائی میں دوبارہ گم ہوجاتا ہے اور وہیں ٹر ٹر کرتے ہوئے باقی
زندگی بسر کرتا ہے۔ کہانی اور سپیکر کے بیان میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے
اس لئے میں نے سپیکر کے بیان کو اس کہانی میں رنگنے کی کوشش کی ہے سپیکر کا
یہ کہنا کہ ہماری آواز کوئی نہیں سنتا بلکل بھی سچ نہیں لگتا۔ بہت پہلے ہی
مفاداتی ٹولے یا نمائندوں نے ہی تو ساغر کی دنیا چھوڑ کر خود ہی کنویں کی
دنیا کو منتخب کر لیا تھا اور اسے ہی سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ اس ساری کہانی
کا لب لباب یہی بنتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو ترقی کی راہ پر نہیں
ڈال سکتی جب تک آپ خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اب ان کو کون سمجھائے
کہ اس کے لئے کنویں سے نکل کر سمندر کی گہرائیوں میں اپنے آپ کو گم کرنا
پڑے گا۔ لیکن ان مینڈکوں کی اپنی ہی دنیا ہوتی ہے اور جی بی اسمبلی بھی
ایسی ہی مینڈکوں کی دنیا ہے ان میندکوں کا اپنا ہی ایک راگ ہے جس میں یہ
اتنے مگن ہیں کہ باہر بارش ہو، برف ہو، دن ہو یا رات ، سمندر ہوں یا پہاڑ
ان مینڈکوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ان کو اسی صوبائی اسمبلی کے
اندر ہی پروٹوکول بہت کچھ نظر آتا ہے ۔ اگر کبھی کوئی مینڈک بھولے سے کسی
ڈول میں باہر پہنچ بھی جائے تو یا تو واپس اندر ہی پھینک دیا جاتا ہے، یا
اسے باہر خشکی پہ ڈال کر ڈول والا اپنی راہ لیتا ہے۔ میں نے بھی ڈول میں ان
مینڈکوں کو باہر نکالنے کی کوشش کی ہے اب ان مینڈکوں کی مرضی ہے کہ یہ
کنویں کا مینڈک بن کر ہی جینا چاہتے ہیں یا کسی سمندر کی دنیا کا رخ کرتے
ہیں - |
|