ایک بڑی مقبول زمانہ حکایت ہے ایک طو طا
اور طوطی محو پرواز رازونیاز میں مگن دنیا و مافیہا سے بے خبر لمبی اڑانیں
بھر رہے تھے کہ اسی اثناء میں آفتاب نے اپنے پَر سمیٹنے شروع کئے تو جوڑے
کو اجالا تاریکی میں بدلتا دیکھ کر خیال آیا کہ دن تو بیت گیا اب تو شام
بھی ڈھلنے کو ہے اندھیری رات کھلا آسمان او رگھر سے دور گو یا جوڑا متفکرات
میں گِرگیا کہ اس دردکا درمان کیسے کیا جائے طے یہ پا یا پرواز ترک کر کے
شب بھر کیلئے کہیں کوئی جائے پناہ تلاش کی جائے خاصی تگ و دو کے بعد ایک
ویران بیابان گاؤں نظر آیا اور پھر وہی عارضی جائے مسکن قرار پایا۔ڈیر ے
ڈالتے ہی طوطی نے روایتِ نسوانی پر عمل کرتے ہوئے طوطے پر پہلے سوال داغ
دیا کہ یہ گاؤں غرق کیسے ہوا اس کی رونقیں شادابیاں اور چہک ماند کیسے پڑیں
۔طو طا دن بھر کے سفر کی وجہ سے تھکن سے چو ر تھا کچھ دیر سوچ کر روایتی سا
جواب دے دیا کہ میری کم فہمی اور بصیر ت کے مطابق الوؤں کی وجہ سے گاؤں کی
یہ حالت ہوئی ۔ جس وقت طو طا اور طوطی گاؤں کی شکستہ حالی پر تبصرہ فرما
رہے تھے عین اسی وقت ایک الو وہاں سے گزر رہا تھا اس نے طوطے کی بات سنی تو
وہاں رک گیا اور مخاطب ہوا کہ آپ اس گاؤں میں مسافر لگتے ہیں ۔لمبے سفر کی
وجہ سے تھکاوٹ کے اثرات بھی آپکے چہرے سے عیاں ہیں میرا گھر قریب ہے کیا یہ
بہتر نہ ہو گا س ویرانے میں رات گزارنے کی بجائے آج رات آپ میرے مہمان بن
جاؤ۔ میرے ساتھ ڈنر کر و رات آرام کیساتھ بسر کرو اور صبح ہوتے ہی اگلی
منزل پر روانہ ہو جانا ۔ الو کی محبت اور عاجزی سے بھر پور دعوت جوڑا رد نہ
کر سکا اور الو کا مہمان بن گیا۔الو جو ڑے کو اپنے آشیانے پر لے گیا ۔
شاندار ضیافت کی تینوں نے اکٹھے کھانا کھا یا اور آرام دہ بستر پر رات
گزاری ۔ صبح جب طوطے اورطوطی نے بہترین مہمان نوازی پر الو کا شکر یہ ادا
کرتے ہوئے اجازت چاہی تو الو نے مسکرا کر طوطے کی طرف دیکھا اور بولا میر ی
طرف سے اجازت ہے آپ جاسکتے ہیں ، لیکن طو طی نہیں جائے گی ۔یہ سنتے ہی طوطا
ہکا بکا رہ گیا۔ طوطے نے حواس پر قابو پاتے ہوئے پو چھا ، مگر کیوں اُلو بو
لا اس لئے کہ طوطی میر ی بیوی ہے اور میں اپنی بیو ی کو تمھارے ساتھ جانے
کی اجازت نہیں دے سکتا ۔ طو طا چِلا یا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ تم الو ہو
اور ہم طوطے ہیں ایک طوطی اُلو کی بیوی کیسے ہو سکتی ہے ۔ اُلو نے اطمینان
سے جواب دیا کہ تمھارے کہنے یا نہ کہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا تم مانو یا نہ
مانو طوطی میر ی بیوی ہے اور میں اپنی بیوی کو تمھارے ساتھ ہر گز نہیں بھیج
سکتا ۔دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تو اُلو نے طوطے کے سامنے ایک
تجویز رکھی کہ ہم عدالت چلتے ہیں عدالت جو بھی فیصلہ کر ے وہ ہمیں قبول ہو
گا ۔ اُلو کی تجویز طو طا اور طوطی مان گئے اور بادل نخواستہ قاضی کی عدالت
میں پیش ہو گئے ۔ طوطے نے قاضی کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے طوطی
کو اپنی بیوی قرار دیا ۔ قاضی نے اُلو کی طرف دیکھا اُلو بیان دینے کیلئے
آگے بڑھا ، اس نے حلف اٹھا یا میں جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا سچ کے سوا اور
کچھ نہیں کہوں گا ، اس کے بعد اس اُلو نے قاضی کے روبرو طوطی کو اپنی بیو ی
ثابت کر نے کیلئے دلا ئل دینے شروع کئے ، اُلو کے جواب میں طوطے نے اپنے
جوابی دلائل دینے شروع کر دیئے بدقسمتی سے اُلو کے دلائل طوطے کے مقابلے
میں زیادہ جاندار اور مؤ ثر ثابت ہو ئے ۔ چنا نچہ جج نے دلا ئل کی روشنی
میں اُلو کے حق میں فیصلہ دیکر عدالت بر خاست کردی ۔ طو طا اس نا انصافی
اور ظلم پر مبنی فیصلے پر رو تا اور چلاتا رہا انصاف کی دہائی دیتا رہا مگر
اس کی بات سننے والا کوئی نہ تھا نا کام ونامراد جب طو طا اکیلا جانے لگا ۔
تو اُلو نے اسے آواز دی ، بھائی اکیلے کہاں جاتے ہو اپنی بیوی کو تو ساتھ
لیتے جاؤ ، طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ، اب کیوں میرے
زخموں پہ نمک پا شی کرتے ہو یہ اب میری بیوی کہاں رہی عدالت نے تو اسے
تمھاری بیوی قرارد یدیا ، اُلو نے طوطے کی بات سن کر زور دار قہقہ لگا یا
اور بو لا ، میر ے بھائی یہ سب ڈرامہ تھا میں تمھیں عدالت اس لئے لا یا تھا
کہ میں تمھیں اس گاؤں کہ اجڑنے کی اصل وجہ بتا سکوں ، جس ملک میں انصاف
نہیں ہو گا اور جس ملک کے قاضی بے ایمان عدالتیں کر پشن کی آماجگاہ اور چیف
جسٹس سیاسی دباؤ پر فیصلے کرتے ہوں انصاف کی حکمرانی نہ ہو تو وہ ملک
معاشرے بردباد ہو جاتے ہیں یادرکھو بھائی معاشرے گاؤں اور ملک اُلووں کی
نحوست کی وجہ سے نہیں اجڑتے بلکہ نا انصافی کی وجہ سے اجڑ جاتے ہیں نحوست
اُلووں میں نہیں ہو تی نحوست ظلم بربریت اور جبر میں ہوتی ہے ۔ طوطی تمھاری
بیوی ہے تم اسے لے جاؤ میر امقصود تمھیں صرف حقیقت سے روشناس کروانا تھا ۔میں
نے جب یہ قصہ پڑھا اور وطن عزیز میں انصاف کی حکمرانی کا تقابل کرنے بیٹھا
تو17 جون 2014 ء آج سے دو سال پہلے کے وہ دلخراش مناظر میری آنکھوں کے
سامنے کسی فلم کی طرح چلنے لگے جب ایک بوڑھا ضیعف العمر بزرگ گوشہ ء درود
وہ مقد س مقام جہاں سید دو عالم ﷺپر ہر لمحہ ہر گھڑی اور ہر ساعت درود و
سلام پڑھا جا تا ہے اس متبر ک گوشہ میں بیٹھے ہوئے باریش بزرگ کو گھسیٹتے
ہوئے باہر لایا جا تا ہے اور پھر ٹھڈوں ڈنڈوں کی بارش کردی جاتی ہے ۔ اس
بزرگ کے سَر اور ماتھے سے خون کے فوارے پھوٹتے ہیں مگر ریاست کے رکھوالوں
کو رحم نہیں ا ٓتا ۔ پھر وہ القادریہ کے گیٹ پر مستورات ارض وطن کی بیٹیاں
اس قوم کی مائیں بہنیں اپنے قائد کے گھر کا پہر ہ دے رہی تھیں کہ کوئی
بدطینت بد فطرت ادھر نہ حملہ کرے ۔ مگر اسلا مہ جمہوریہ پاکستان کے
رکھوالوں کیلئے وہ بیرئر اس قدر خطرہ تھے اس قدر سیکورٹی رسک اور اور
نوگوایر یا بنے ہوئے تھے کہ ان نہتی خالی ہاتھ پردہ دارماؤں بہنوں کے چہروں
پر گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا ۔ یہ کیسا قانون ہے یہ کیسا آئین ہے اور
یہ کیسی ریاست ہے عورتوں کے چہروں پر گولیاں ماریں گئیں ۔ نوجوانوں اور
طلباء کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ۔صرف وجہ وہ چند ایک بیر ئر جو سالہا سال
سے لگے ہوئے ہیں یہ پنجاب حکومت کیسے بیرئر ہٹانے گئی کہ خواتین کی عصمت کو
تار تار کردیا خدا کے گھر کوکشت و خون سے نہلا دیا ۔ اسی ماڈل ٹاؤن میں
میاں برادران کی رہائش گاہ پر اس سے کہیں زیادہ بیر ئر تب بی لگے ہو ئے ہیں
اور آج بھی لگے ہو ئے ہیں محلات کو جانے والی ایک پوری سرائے کو بیرئرلگا
کر بند کر دیا گیا ہے یہ کیساشاہانہ طریق ہے ۔ کہ ایک انٹر نیشنل
آرگنائزیشن کا ہیڈآفس جس کو شدید سیکورٹی خطرات لاحق ہو ں اس کے آگے لگے
ہوئے بیر ئر اچانک نو گو ایر یا بن گئے ۔ 17 جون کی خونی شام انسانی تاریخ
کی وہ شرمناک اورا لمناک داستان رقم ہو ئی کہ انسانیت بھی سو چے تو لرز
اٹھے ۔اور پھر وزیرا علیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے صوبائی وزراء رانا ثنا
اﷲ اوررا نا مشہود کے ہمراہ نم آنکھوں کیساتھ ٹیلی ویژن سکرین پر جلوہ
افروز ہوتے ہوئے فرمایا کہ اس سانحہ کا ذمہ دار اگر مجھے ٹھہرا یا گیا تو
بلا توقف میں اپنے عہدے سے الگ ہو کر خود کو احتساب کیلئے پیش کردونگا ۔
پھر چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب عوامی تحریک کی جانب سے واقعہ کا ذمہ
دار وزیراعلیٰ پنجاب صوبائی وزیر قانون اور اس وقت کے پنجاب بیوروکریسی کے
کرتا دھرتاتوقیر شاہ کا نام سامنے آیا ۔ مگران صاحبان اقتدار کے خلاف کوئی
کاروائی نہ ہو سکی بلکہ واقعہ کا ذمہ دار ڈاکٹر حسن محی الد ین حسین محی
الدین سمیت رحیق عباسی اور دیگر عوامی تحریک کے مرکزی رہنماؤں کو قرار دیا
گیا ۔ اس سانحے پر سیر حاصل بحث ہو چکی ۔مگر نتیجہ صفر ساری دنیا کو میڈیا
نے دکھا یا کہ ایک گُلو بٹ گاڑیوں کے شیشے توڑ رہا ہے ماڈل ٹاؤن میں موجود
اشیائے خوردو نوش کی دکانوں سے لوٹ مار کر رہا ہے ڈی پی اوتھپکی دے رہے ہیں
۔ مگر کاروائی نہ ہوئی ۔جب یہ سانحہ ہوا پنجاب اسمبلی کا اجلاس جاری تھا ۔
اپوزیشن لیڈرنے بار بار سپیکر کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کی کوشش کی مگر
شنوائی نہ ہو سکی ۔ ایک صوبائی وزیر کی قربانی دی گئی مگر موصوف چند ماہ
بعد دوبارہ مسند پر متمکن افروز ہوگئے ۔ حضرت علی ؓ کا فرمان ہے کہ کفر کا
نظام چل سکتا ہے مگر ظلم کا نہیں چل سکتا ۔ ماڈل ٹاؤن کے 14شہدا ء کا خون
آج بھی انصا ف کا منتظر ہے آج بھی خون ناحق کے وارث یہ صدا لگا ر ہے ہیں
کچھ تو کہو انصاف گرو کب ہو گی ہماری شنوائی
کھینچ کر عدل کی زنجیریں ہم ہاتھ لہو کر بیٹھے
مگر ہمارے انصاف گر غریب مظلوم عام آدمی کو انصاف دینے کی بجائے سیاسی
بیانات سے دیہاڑی لگا نے میں مصروف عمل ہیں یہ جج صاحبان خود انصاف کی راہ
میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں یاد رکھنا وہ ریاستیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں
جہاں انصاف کی حکمرانی نہیں ہوتی۔ آزاد عدلیہ اور ایوان اقتدار کے پُرتعیش
محفوظ قلعوں میں بیٹھنے والے ظالم حکمران آخر کب تک ظلم چھپانے کیلئے
بندربانٹ کرتے رہیں گے ایک نہ ایک دن یہ جواب تو دینا پڑے گا کیونکہ سوال
ہمیشہ رہبروں سے کیا جا تا ہے ۔ اورہر وقت کا حکمران ایک نہ ایک دن جواب د
ہ ضرور ہو تا ہے ۔
اس مٹی کی محبت میں ان آشفتہ سروں نے
وہ قرض بھی اتارے جو کبھی سر جاں ہی نہ تھے
|