پھر سے صفر
(aamer malik, Rawalpindi)
دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں ترقی کا
عمل شروع ہوتا ہے تو پھر مسلسل آگے ہی بڑھتا جاتا ہے، حکومت چاہے جو بھی ہو
وہ پہلے سے طے شدہ منصوبوں پر عمل کرتی ہیں ، ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے
کی جدوجہد کرتی ہیں، رواں منصوبوں کو مکمل کرتی ہیں اوروقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ اس میں جدت وبہتری لاتی رہتی ہیں جس کے نتیجے میں ملک و قوم ترقی کی
منازل طے کرتی جاتی ہیں۔ ایک ہمارا ملک ہے کہ اس کی ترقی ہر دور حکومت میں
ہوتی ہے لیکن جیسے ہی ایک حکومت اپنی مدت پوری کر لیتی ہے تو ساری کی ساری
ترقی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کبھی بھی ایسا
نہیں ہوا کہ نئی آنے والی حکومت نے پچھلی حکومت کی کوئی تعریف کی ہو یا اس
کے شروع کئیہوئے کاموں کو مکمل کیا ہو، بلکہ ہوتا یوں ہے کہ برسر اقتدار
حکمران ہر سال اپنی کارکردگی بیان کرتے ہیں کہ کیسے ان کی زیر نگرانی ملک
ترقی کر رہا ہے اور ملکی معیشت مضبوط ہو رہی ہے۔ لیکن جیسے ہی ان کا اقتدار
ختم ہوتا ہے اور نئے حکمران اقتدار سنبھالتے ہیں تو آتے ساتھ ہی سب سے پہلے
پچھلی حکومت کی ناقص کارکردگی کے بارے میں عوام کو بتاتے ہیں۔ اور یہ مشہور
زمانہ جملہ جو اب بچے بچے کو یاد ہے کہ خزانہ خالی ہو چکا ہے، ضرور دہراتے
ہیں۔ ایسے میں سمجھ نہیں آتی کہ کس پہ یقین کیا جائے۔ پہلی حکومت جن کاموں
پر اپنی تمام تر توانائیاں اور وسائل خرچ کر رہی ہوتی ہے نئی حکومت کی توجہ
کسی اور جانب ہوتی ہے۔ پہلی حکومت کی تر جیحات کچھ اور ہوتی ہیں اور نئی
آنے والیحکومت کی کچھ اور۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی کو بھی اس ملک کے مسائل
اور ترجیحات کا سرے سے علم ہی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی خاص منصوبہ بندی ہے
جس کے تحت کوئی کام ہو رہا ہو۔ اس لئے جیسے ہی ایک حکومت تبدیل ہوتی ہے
ترقی کا سارا سفر پھر سے صفر پہ آ جاتا ہے۔ نئی آنے والی حکومت پھر سے ملک
کو درپیش مسائل کا ذکر کرتی ہے اور عوام کو یقین دلاتی ہے کہ ان کی حکومت
ان تمام مسائل کا حل کر نے میں کوئی کسرروا نہیں رکھے گی۔ اور یوں نئی
حکومت اپنے دور حکومت کے ہر سال ترقی کے گن گاتی ہے اور آخر میں پھر وہی
خزانہ خالی۔ سمجھ نہیں آتی کہ چند سال پہلے جو خزانہ بھرا ہوا تھا اچانک
اسے کیا ہوا کہ سب کا سب خالی ہو گیا۔ چند سال پہلے جو معیشت ترقی کر رہی
تھی حکومت کے تبدیل ہوتے ہی کیسے لڑکھڑا گئی۔ پھر اگلی حکومت کو اپنی دور
حکومت میں خزانہ بھرنے اور ملکی معیشت کو استحکام دینے کے لئے پھر سے انتھک
محنت کرنا پڑتی ہے۔ یوں ہر دور حکومت میں چاہے اس کا دورانیہ جتنا بھی رہا
ہو، ہمارا قومی خزانہ کئی دفعہ بھرا اور خالی ہوا، ملک نے کئی دفعہ ترقی کی
اور پھر ڈھیر۔ ایسا کب تک چلتا رہے گا۔ کب تک عوام کو ترقی کے سبز باغ
دکھائے جائیں گے اور پھر ایسے ویران جنگل میں لا کر چھوڑ دیا جائے گا جہاں
نہ پانی، نہ بجلی، نہ گیس، نہ سکول، نہ ہسپتال۔ کیا ہی ایسا ممکن ہو کہ
تمام یاسی پارٹیاں اپنے اپنے جھنڈے تھوڑی دیر کے لئیایک طرف رکھ کر ایک
قومی پرچم تلے اکٹھجمع ہو جائیں اور کم از کم آئندہ آنے والے دس سالوں کے
لئے کوئی واضح حکمت عملی ترتیب دیں۔ اپنے اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر،
مل بیٹھ کر قومی ترجیحات طے کریں، ہر سال کے اہداف طے کریں اور ان اہداف کو
حاصل کرنے کے لئے ایک لائحہ عمل مرتب کریں اور ساتھہی یہ بھی طے کریں کہ ہم
سب پارٹیوں میں سے جس کی بھی حکومت ہووہ اس فریم ورک کے تحت کام کریں گے۔
حتمی طور پر طے شدہ ترجیحات، اہداف اور فریم ورک کا تبادلہ عوامی سطح پر
بھی کیا جائے تا کہ عوام حکومت کی کارکردگی کو خود جانچ سکیں کہ کس نے ان
کے لئے کتنا کام کیا ہے اور انہیں آئندہ الیکشن میں اپنے نمائندے چننے میں
بھی آسانی رہے۔ اگر ہم یہ ایک کام کرلیں اور پھر مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم
رہیں تو کوئی شک نہیں کہ ہم ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے تو نہیں کم از کم سب
کے ساتھ ضرور شامل ہو سکتے ہیں۔ ہماری سیاسی پارٹیاں ، ان کی قیادت اور
عوام مل کر اس ملک کے مستقبل کو شاندار بنا سکتے ہیں۔ الگ الگ جدو جہد کرنے
سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، سب کو مل کر ایک ساتھ چلنا پڑے گا۔ جب تک ایسا
نہیں ہو گا تب تک ہر دور حکومت میں ترقی ضرور ہو گی لیکن اگلا دور حکومت
شروع ہوتے ہی یہ تمام ترقی صفر پہ آجائے گی۔ چلیں اس بار اس روایت کو ختم
کرتے ہیں، موجودہ حکمرانوں کے پاس ترقی کے اس سفر کی شروعات کا سنہری موقع
ہے ، مسلم لیگ ن کی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی بار ہے کہ وہ اپنے دور حکومت
کے چوتھے سال میں ہیں۔ ان کے دور میں ترقی کے سفر کی ابتداء ہوئی ، ابھی
بھی ان کے دور حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے میں ایک سال سے زائد کا عرصہ
باقی ہے، یہ نہ ہو کہ ہم ایک بار پھر صفر پہ آجائیں، اس ترقی کو برقرار
رکھنا ہو گا۔ تمام سیاسی پارٹیوں کی شمولیت اور مشاورت سے کم از کم دس
سالوں پہ محیط ترقیاتی قومی فریم ورک بنانا ہو گا تا کہ ترقی کا یہ سفر
قائم و دائم رہے اور ہم بھی دیگر اقوام کی طرح ترقی کی دوڑ میں شامل ہو
سکیں۔ |
|