چین کی معیشت پر نگاہ بد کیوں؟
(Falah Uddin Falahi, India)
آج کل متعدد ٹی وی نیوز چینل پر
امریکہ پنٹاگون کی خبر کے حوالے سے دیکھایا جا رہا ہے کہ چین اپنے دیرینہ
دوست پاکستان کے ساتھ مل کر اپنی عسکری قوت کو بڑھانے میں لگا ہے اور دونوں
ملکوں کی فوج مشترکہ ہتھیاروں کی خرید و فروخت میں شامل ہو کر مشترکہ طور
پر جنگی مشق تو کر ہی رہے ہیں ا س کے علاوہ وہ ہندستان کی سرزمین کو ہڑپنے
کی بھی کوشش کر رہے ہیں ۔یہ اور اس طرح کی متعدد خبریں موصول ہو رہی ہے اور
بارہا اس طرح کی خبریں اخباروں کی زینت بنتی ہیں ۔سمجھ سے بالا تر ہے کہ
جہاں ایک طرف چین مسلمانوں کی عرصہ حیات تنگ کرنے میں مصروف ہے وہیں کسی
مسلم ملک سے اس قدر دوستی کی خبریں کہ کسی ملک کے خلاف ملک سازش کرنے میں
مصروف عمل ہو سمجھ سے بالاتر واقعی ہے ۔لیکن ایک بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ
حکومت کی کارکردگی دیگر ممالک کے ساتھ کچھ اور ہوتے ہیں اور عملی طور پر
عوام کے ساتھ کچھ اور ہوتے ہیں یہ معاملہ تقریباً دنیا کے اکثر ممالک میں
پائے جاتے ہیں ۔لیکن چین نے بارہا اپنا دفاع کیا ہے کہ وہ کسی کے ساتھ ملک
کر کسی ملک کے خلاف کوئی سازش نہیں کر رہا ہے ۔یہ سب افواہ ہیں یا پھر چین
کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش ہے ۔ایسا لگتا بھی ہے چونکہ چین ایک ایسا ملک ہے
جو خود مختاری کے ساتھ ساتھ سائنس و ٹکنالوجی بہت آگے نکل گیا ہے اور یہی
بات دیگر ممالک کو اچھی نہیں لگ رہی ہے کہ وہ کیسے اس میدان میں بازی مار
لے ۔چین ہندوستان کا ایک ایسا پڑوسی ہے جہاں سب سے زیادہ چینی مال بر آمد
کیا جاتا ہے اور چین کو ہندوستان سے بہت فائدہ ہوتا ہے بلکہ ان کی معیشت کا
دارومدار ہندوستان سے کافی مضبوط ہے ۔اس لئے دیگر ممالک اس کے معیشت کی
بڑھتی ہوئی منڈی کو خراب کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں تاکہ اس کے تجارتی
تعلقات خراب ہوں اور اس کا فائدہ براہ راست ہمیں ملے اور چین کی معیشت تباہ
ہو جائے ۔اور یہ حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے چونکہ مغربی ممالک ہر طور سے دنیا
کے ممالک کو اپنا محتاج بنائے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی بادشاہت دنیا میں
قائم رہے اور معیشت کے اعتبار سے سب کا انحصار ان ہی پر ہو لیکن چین
خودمختار ہو کر دیگر ممالک میں سرمایا کاری کر رہا ہے یہ بات واقعی کسی کو
ہضم نہیں ہو رہی ہے اس لئے اس کے خلاف طرح طرح کی افواہیں پھیلا کر ورغلانے
کی کوشش کی جارہی ہے ۔
’’چین نے اپنی عسکری پالیسیوں کے حوالے سے امریکی محکمہ دفاع کی سالانہ
رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے امریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ دفاعی
پالیسیوں کے حوالے سے جان بوجھ کر چین کی خراب شبیہ پیش کر رہا ہے۔چین کا
کہنا ہے کہ امریکہ کے اس اقدام سے ’باہمی اعتماد بری طرح مجروح ہوا
ہے۔‘جمعے کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین جنوبی بحیرہ
چین کے متنازع پانیوں پر اپنے دعوے کو مضبوط بنانے کے لیے جارحانہ رویہ
اپناتے ہوئے وہاں مصنوعی جزائر کی تعمیر میں تیزی لایا ہے۔رپورٹ میں یہ بھی
کہا گیا ہے کہ چین رواں برس ان جزائر پر قابلِ ذکر عسکری تعمیرات کر سکتا
ہے جن میں مواصلات اور نگرانی کے نظام بھی شامل ہیں۔چین کی وزارتِ دفاع کے
ترجمان یانگ یوجن نے اتوار کو اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ
چین سے لاحق عسکری خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہے جبکہ چین کی عسکری
پالیسی کی نوعیت دفاعی ہے۔چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا کے مطابق
وزارتِ دفاع کے ترجمان نے امریکی رپورٹ پر شدید ’عدم اطمینان‘ کا اظہار کیا
اور کہا کہ اس سے دونوں ممالک کے باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے۔یانگ یوجن
کا کہنا تھا کہ امریکی رپورٹ میں نہ صرف چین میں عسکری معاملات میں عدم
شفافیت اور اس سے لاحق عسکری خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے بلکہ اس
میں مشرقی اور جنوبی بحیرہچین میں چین کی سرگرمیوں کو بھی ’غیر منصفانہ‘
انداز میں پیش کیا گیا ہے۔وزارتِ دفاع کے ترجمان نے کہا ہے کہ چین کی قومی
دفاعی پالیسی اپنی نوعیت کے اعتبار سے دفاعی ہے اور اس کی سرگرمیوں کا مقصد
چین کی سالمیت اور علاقائی خودمختاری کا تحفظ اور وہاں پرامن ترقیاتی
سرگرمیوں کو یقینی بنانا ہے۔چین نے یہ بھی کہا ہے کہ ’یہ امریکہ ہی ہے جو
علاقے میں اپنے جنگی جہاز اور فوجی بحری جہاز بھیج کر اپنی فوجی قوت دکھاتا
رہتا ہے۔‘خیال رہے کہ پینٹاگون کی رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ
چین کی جانب سے جنوبی بحیرہ چین میں جاری سرگرمیوں کے نتیجے میں اسے متنازع
پانیوں میں ’سول اور عسکری اڈے‘ مل سکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق چین نے دو برس
کے عرصے میں سمندر میں 3200 ایکڑ کا علاقہ حاصل کر لیا ہے اور مصنوعی جزائر
کی تعمیر کا بیشتر عمل گذشتہ برس اکتوبر تک مکمل ہوگیا تھا جس کے بعد توجہ
وہاں تعمیراتی سرگرمیوں پر ہے جن میں تین ہزار میٹر طویل ہوائی پٹی بھی
شامل ہے جس پر جدید جنگی طیارے بھی اتر سکتے ہیں۔خیال رہے کہ چین بحیرہ
جنوبی چین کے پورے خطے پر اپنا حق جتاتا ہے جو دیگر ایشیائی ممالک ویتنام
اور فلپائن کے دعوؤں سے متصادم ہے۔ان ممالک کا الزام ہے کہ چین نے اس علاقے
میں مصنوعی جزیرہ تیار کرنے کے لیے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور اسے عسکری
مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔چین کا کہنا ہے کہ اس کا سمندر میں
مصنوعی جزیرے اور اس پر تعمیرات کا مقصد شہریوں کے لیے سہولیات پیدا کرنا
ہے لیکن دوسرے ممالک اس کی ان کوششوں کو فوجی مقاصد کے تناظر میں دیکھ رہے
ہیں‘‘۔(مذکورہ معلومات بی بی سی اردو سے ماخوذ ہے )اس طرح کسی بھی ملک کے
داخلی اور خارجی معاملات کو غلط نظریہ سے دیکھنا مناسب نہیں ہے اس سے کسی
ملک کی شبیہ خراب ہوتی ہے جس کا اثر براہ راست ان کی معیشت پر پڑتی ہے اس
لئے اس طرح کی افواہ سے پرہیز کرنا لازمی ہے ۔ |
|