عدم برداشت اور سیاسی اکھاڑے
(Syed Amjad Hussain Bukhari, )
رب نواز ملک ایک نو آموز لکھاری ہے، اس کی
تحریریں بچوں کی تربیت کے گرد گھومتی ہیں ، جیسے اس کی تحریریں گھومتی ہیں
ایسے ہی اس کا دماغ بھی اکثر گھوما رہتا ہے، کل موصوف افطاری کے بعد مجھے
برداشت اور رواداری پر درس دینے بیٹھ گئے ، لیکن مجھے ان کا درس دینا قطعا
برادست نہیں ہو رہا تھا۔آزاد کشمیرمیں الیکشن کا اعلان ہوتے ہی مجھے تواتر
سے وہاں ہونے والے سیاسی بنیادوں پر جھگڑوں کی خبریں موصول ہورہی ہیں، میں
نے اپنے گذشتہ کالم میں وہاں کے جھگڑوں کا تذکرہ بھی کیا تھا، کشمیر میں
سیاسی جھگڑے راستہ بند کرنے سے ایک دوسرے کی گردنیں اتارنے تک ہوتے ہیں،
گذشتہ الیکشن میں بھی درجن بھر قیمتی جانیں ضائع ہوئی تھیں، حالیہ الیکشن
میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے اور الیکشن مہم شروع ہونے سے پہلے ہی جھگڑوں
کا آغاز قطعا نیک شگون نہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے خطرے
کی گھنٹی ہے۔ اس پر اگر بروقت قابو نہ پایا گیا توریاست کے عوام کے لئے
خطرات بڑھ جائیں گے۔ضلع حویلی میں گذشتہ روز نامعلوم افراد کی جانب سے فیصل
راٹھور کی تصاویر جانور کے گلے میں باندھ کر اسے بازار میں چھوڑا گیا جس کی
وجہ سے وہاں تصادم ہوگیا مگر پولیس اور علاقے کے بااثر افراد کی فوری
مداخلت کی وجہ سے معاملات قابو میں کر لئے گئے۔اسی طرح دیگر اضلاع میں بھی
اکثریتی برادریوں کی جانب سے اقلیتی برادریوں کا جینا حرام کیا جا رہا ہے،
سیاسی مخالفین کو پانی فراہم کرنے والی لائینیں کاٹ کر، راستے بند کر کے
اور مال مویشیوں پر پابندیاں لگا کر تنگ کیا جانا معمول بن چکا ہے، پانچ
سال تک باہم شیر و شکر رہنے والے قبائل ناجانے کیوں الیکشن کے دنوں میں دست
و گریباں ہو جاتے ہیں ؟ سمجھ سے بالا ہے کہ محض اسمبلی نلکے، تقرری اور
تبادلے کے لئے کیوں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا، گردنیں اتارنا اپنا معمول
بنا رہے ہیں؟ کس چیز کی بنیاد پر مخالفین کی کردار کشی اور تذلیل کو اپنا
شیوہ بنا رہے ہیں؟ حالیہ الیکشن کی انتخابی مہم کا بیشتر حصہ رمضان المبارک
کی بابرکت ساعتوں میں ہے۔ اس مہینے میں اﷲ سے رحمتیں سمیٹے کی بجائے کشمیر
کے عوام ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے اور دوسروں کی زندگیوں کو اجیرن بنانے
کے لئے منصوبہ سازی کر رہے ہیں ۔ سیاست میں اختلاف ہی جمہوریت کا حسن ہے
مگر یہ اختلاف کسی کی کردار کشی اور ذاتی عناد کی بنیاد نہیں بننا چاہیے۔
کشمیر کی اکثر آبادی پڑھے لکھے اور باشعور افراد پر مشتمل ہے ، لیکن ان
لوگوں کے درمیا ن ایسے جھگڑے اور باتیں یقینا قابل افسوس ہیں۔ شاید یہ رویہ
سیاست دانوں کی جانب سے عوام میں منتقل کیا گیا ہو کیوں کہ اکثر سیاستدانوں
کی جانب سے ایسے عناصر اور رویوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ جب کسی
بھی قوم کا سربراہ یا عوامی نمائندہ اپنے انتخابی جلسوں میں بیانگ دہل اپنی
زبان سے اپنے مخالفین کو غیر پارلیمانی القابات سے نوازے گا تو باقی قوم کا
کیا حشر ہوگا۔ آزاد کشمیر کے عوام کو بذات خود سنجیدہ ہو کر ایسے نمائندوں
کا بائیکاٹ کرنا چاہئے اور ایسے قائدین کو اپنے ووٹ کی طاقت سے شکست دینی
چاہیئے جو قوم کی سبکی اور تذلیل کا باعث بنتے ہیں ۔جس قائد کی زبان کی
شیرینی، دل کی مٹھاس اور عوام کی خدمت کا جذبہ دوسروں کے لئے قابل تقلید ہو
انہیں ہی اپنا نمائندہ بنا کر اسمبلی میں بھیجنا چاہیے۔ضرورت اس امر کی ہے
کہ آزاد کشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوان اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سیاست دانوں
کا آلہ کار بننے کی بجائے معاشرے میں رواداری اور برداشت کے کلچر کے سفیر
بن جائیں۔مگر آزاد کشمیر کے نوجوانوں سے بھی مجھے شکوہ ہے کیوں کہ سوشل
میڈیا پر اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں جو توہین آمیز اور قابل نفرت مواد
ان کی جانب سے پھیلایا جا رہا ہے ا س کی بدترین مثال تاریخ عالم میں نہیں
ملتی۔ پیارے نوجوان دوستو! ہم نبی مہربان ﷺ کی امت سے ہیں ۔ جی ہاں اسی نبی
ؐ کی امت سے جو اپنے بدترین دشمنوں سے بھی محبت سے پیش آتے تھے۔جسے طائف
میں پتھر لگتے ہیں تو وہ دعائیں دیتے ہیں۔ جو امن و آشتی ، پیار و محبت اور
برادشت و رواداری کے داعی تھے، جنہوں نے اپنے اخلاق حسنہ نے اپنے دشمنوں کو
زیر کیا۔ پھر ہم نے کیوں برادری ازم کو اپنا خدا تسلیم کرلیا ہے؟ کیو ں ہم
اپنے پگڑی کی کلاہ اونچی کرنے کے لئے دوسروں کا سرجدا کرنے پر تلے ہوئے
ہیں؟ توڑئیے اس عناد و نفرت اور چپقلش کے بتوں کو اور اس ریاست کو امن و
سکون کا گہوارہ بنائیں ۔ ریاست جموں و کشمیر کے سیاست دانوں سے بھی التجا
ہے کہ خدارا ، اس دیس کے باسیوں میں نفرتوں کے بیج بو کر مسند اقتدار پر نہ
بیٹھیں ۔ بہرحال آزاد کشمیر کے ان انتخابات میں سوشل میڈیا صارفین اور
ہمارے سیاستدانوں کو اپنی زبانوں کو لگام دینا ہوگی۔ دلیل اور منطق کی
بنیاد پر اپنی مہم چلانا ہوگی۔ اپنا انتخابی منشور عوام کے سامنے پیش کرنا
ہوگا نہ کہ اپنے دل کے بغض کا پرچار۔ لوگوں پر پانی کی بندش، جانوروں کو
ستانا، انتقامی کارروائیاں اور راستوں کی بندش جیسے جاہلانہ اقدامات سے
گریز کرنا ہوگی۔ ذلت اور عزت اﷲ سبحان و تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، مسند
اقتدار میں بیٹھ کر انسانوں کو وہ عزت نصیب نہیں ہوتی جو اپنے کردار اور
رویے کی بنیاد پر لوگوں کے دلوں میں بس کر ہوتی ہے۔ان سطور کو تحریر کرتے
ہوئے مجھے انتخابات کے بعد کی انتقامی سیاست کا سوچ کر بھی خوف آرہا ہے، جب
جیت جانے والے امیدوار اور ان کی حمایتی اقتدار کے نشے میں دھت کر اپنے
مخالفین سے کرتے ہیں ، میں نے آج تک جن انتخابات کو بھی دیکھا ہے اگر ان کے
دوران کشمیر میں کی جانے والی انتقامی کارروائیوں کا تذکرہ کرنے بیٹھ جاؤں
تو شاید میری عمر ختم ہوجائے مگر انتقام کی داستان باقی رہے۔ بہرحال میری
تحریر کا مقصد خوف اور خدشات پھیلانا ہر گز نہیں ہے بلکہ حکام بالا ، عوام
اور قارئین تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ خدارا اپنے دین کا اور اپنے خاندان
کا تقدس قائم رکھیں ، الیکشن کا ڈرامہ تو چند ایام کا ہے، سیاست دانوں نے
شاید بعد میں پانچ سال آپ کو چہرہ نہیں دکھانا لیکن آپ نے اپنی ساری زندگی
اپنوں کے درمیان گزارنی ہے ، اپنے پیاروں کے بیچ، اپنے محبت کرنے والوں کے
ساتھ، اس لئے ان محبتوں میں نفرتوں کا زہر نہ گھولیں، اختلاف اور اظہار
رائے ضرور کریں مگر شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے کریں ، کیوں کہ تہذیب
یافتہ قوموں کا طریقہ کار یہی ہے اور یہی ہم سب کی زندگی کا مقصد بھی ہے،
اپنے دیس میں امید کے دئیے جلائیں ، خوشیوں کی شمعیں روشن کریں، اپنے علاقے
کی باسیوں کے درمیان پیار کی دیپ جلائیں۔ تاکہ ہم سب آئندہ آنے والی نسلوں
کے لئے ایک اچھا اور سدا بہار درخت لگا کر جائیں جس پر صبر، رواداری اور
برداشت کے پھل اگیں نہ کہ عدم برادشت، ظلم اور نفرت کے کانٹے اس کے گرد ہوں
۔ یہ الیکشن آپ کے لئے اور پوری قوم کے لئے امید کا پیغام ثابت ہو۔ |
|