فلسفۂ زکوٰۃ کے باوجود مسلم سماج میں فقیروں اور غریبوں کی تعداد زیادہ کیوں؟
(Ata Ur Rehman Noori, India)
دورِ فاروقی میں ہرمسلمان مالکِ نصاب تھااور ہم چودہ صدیوں بعد بھی غریب،مفلس اور قلاش کیوں؟
مسلمان اگرمعاشرے میں موجودپانچ وجوہات کودورکریں گے تو یمن والاخوشحال زمانہ پھرآسکتاہے |
|
آقا علیہ السلام نے اسلام کی اشاعت ایسے
نازک وقت میں شروع کی جب چہار جانب کفر وشرک کا بسیراتھا۔خاک دان گیتی پر
کوئی رب کا نام لیوانہیں تھا۔فاران کی چوٹی سے جب پیغمبر اسلامﷺنے دین ِحق
کی طرف لوگوں کو بلایاتو عالم یہ ہوگیاکہ کل تک جو لوگ حضور ﷺکو ’’صادق
الامین‘‘کہتے تھے اب وہی لوگ فقرے کَستے۔کل تک جو لوگ اپنی ہتھیلیوں پر
اپنے سرکا نذرانہ لیے حاضر رہتے اب وہی لوگ جان لینے کے درپے ہوگئے،کل تک
جو لوگ آقا ﷺکی شیریں گفتگوسننے کے متمنی رہتے اب وہی لوگ دور بھاگ رہے تھے
،جن کی راہوں میں پھولوں کی سیج سجائی جانی چاہیے تھی اس رسول مکرمﷺکے
راستے میں کانٹے بچھا دیئے جاتے،کوئی پھبتی کَستا،کوئی نازیباکلمات
کہتا،کوئی کچرا پھینک دیتا،کوئی سجدے میں اونٹ کی اوجھڑی گردن پر رکھ
دیتااور کوئی جسم رسولﷺپر پتھر برساتا۔غرضیکہ اسلام کے ابتدائی ایام میں
مسلمانوں کا یہ عالم تھا کہ ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے،کبھی تپتی
ہوئی ریت پرگھسیٹاجاتا،کبھی چٹائی میں لپیٹ کر مرچی کی دھونی دی جاتی ۔
ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم اپنے مسلمان ہونے تک کا اعلان نہیں کر سکتے
تھے،بھوک سے بلبلاتے،پیٹ پر پتھر باندھتے،کبھی در ختوں کے پتوں اور کبھی
درختوں کی چھالوں پر اکتفا کرتے،تین سالوں تک شعب ابی طالب میں سوشل
بائیکاٹ کادرد برداشت کیا،جہاد بھی کیا توتلواروں سے نہیں بلکہ کھجوروں کی
شاخوں اورخشک چھالوں سے۔مگر پھر رحمت الٰہی چھم چھم کرتی اپنے بندوں پر
برسنے لگی،صبر کے دن کا خاتمہ ہوا،امتحان ِ خداوندی میں صابر وشاکر رہ کر
کامیاب وکامران ہوئے، رفتہ رفتہ راہِ حق کے مسافر کشاں کشاں چلے آئے،جوق در
جوق،قبیلہ در قبیلہ۔اور اسلام کی باد بہاری سے اکناف عالم فیضیا ب ہوا۔جس
مکہ سے ہجرت کی تھی اب اسی مکہ میں فاتحانہ شان وشوکت سے داخل
ہوئے۔قیصروکسریٰ میں اسلام کا پرچم بلند ہوا۔ خوشحالی کاعالم یہ تھاکہ دور
ِفاروقی میں خلیفۃ المسلمین نے تمام گورنروں کے نام اعلان نامہ جاری کیا کہ
امسال کی زکوٰۃبیت المال بھیجنے کی بجائے اپنے علاقے کے مستحقین پر خرچ
کرو۔باوجود اس کہ گورنرِ یمن مع سازوسامان کے مدینۂ منورہ میں حاضر
ہوئے،دربارِ فاروقی کا بُلاوا آیا ، کیا آپ تک اعلان نامہ نہیں پہنچا ؟،جی
ہاں بروقت پہنچا،پھر حکم عدولی کا سبب؟عرض کیا: یمن سے نکلا اسلامی مرکز تک
پہنچ گیا مگراسلامی مملکت میں ایک بھی مسلمان زکوٰۃ کا مستحق نظر نہیں
آیا۔ہر کوئی مالک نصاب اور صاحبِ ثروت ہے۔(الحمدﷲ)
سوچنے کا مقام یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس پیٹ بھرنے کے لیے اناج نہیں تھا وہ
لوگ اتنے کم عرصے میں خود کفیل کیسے ہوگئے؟حضورﷺنے جب ہجرت کی تھی وہ زمانہ
مفلسی اور کسمپرسی کاتھا،مدینۂ منورہ میں ظاہری طور پر حضورﷺدس سال بقید ِحیات
رہے،دوسال دو ماہ تک سیدناصدیق اکبررضی اﷲ عنہ نے اُمورخلافت انجام
دیئے۔یعنی کے صرف تیرہ چودہ سالوں بعد ایسا خوشحال زمانہ آگیاکہ یمن سے
مدینہ تک کاہرمسلمان مالکِ نصاب ہوگیاجبکہ یمن سے مدینہ کی مسافت
843؍کلومیٹرہے اور ہم چودہ صدیوں بعد بھی غریب،مفلس اور قلاش ہیں، کیوں ؟سبب
یہ ہے کہ انہوں نے خدائی قانون پر سختی کے ساتھ عمل کیاتھا۔انہوں نے ہر درد
سہامگر نظام مصطفی ﷺکے نفاذ کے لیے کمر بستہ رہے۔مگر آج ہم ․․․․․․․اپنے ہی
کچھار میں مجبورومحصور،سب کچھ رکھ کر قلاش،بے کس،بے بس،بے سہارے،بے
چارے،قسمت کے مارے۔آخر کیوں؟؟انھوں نے اپنے آپ کو سنبھالا، منصوبہ بندطریقے
سے زندگی کی راہوں میں قدم بڑھایا،بے پناہ کاوشیں کیں اور ہم اس کے بالکل
برعکس۔آخر وجہ کیا ہے کہ آج ہم اکثریت میں ہونے کے باوجود ہمارے یہاں
فقیروں کی کثرت اورسطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد زیادہ
ہے؟اس کی متعدد وجوہات میں سے چند ایک وجہ یہ بھی ہے (۱) مالک نصاب صحیح
طور پر اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں نکالتے(۲)زکوٰۃنکالتے بھی ہیں تو مستحقین تک
ان کا حق نہیں پہنچا یاجاتا(۳)زکوٰۃ کی رقم چلّرکرکے اداکی جاتی ہے(۴) جو
لوگ زکوٰۃ لے رہے ہیں وہ درحقیقت زکوٰۃ کے مستحق ہیں ہی نہیں(۵)اور اگروہ
مستحق ہیں بھی تو اس کا استعمال صحیح مصرف میں نہیں کر رہے ہیں ۔
اسلام نے زکوٰۃ کا نظام اس لیے نافذ کیاکہ مستحقین تک مالداروں کے ذریعے ان
کا حق پہنچے اور وہ اس رقم کے ذریعے کاروبار کریں،خود کفیل بنیں اور چند
سالوں میں وہ بھی زکوٰۃ دینے والے بن جائیں۔یعنی اگر امسال ہزار لوگوں نے
زکوٰۃ نکالی اور اس مال پر ہزارلوگوں نے محنت کی تو آئندہ سال دوہزار لوگ
زکوٰۃ نکالیں گے،تیسرے سال چار ہزارلوگ اور اس طرح ہر سال زکوٰۃ نکالنے
والوں کی تعداد دُگنی ہوجائے گی اور ایک دن مسلم معاشرے سے غریبی کاخاتمہ
ہوجائے گا۔ان شآاﷲ۔یہی اسلام کا فلسفۂ زکوٰۃ ہے اور اسی میں ہماری کامیابی
کا راز مضمر ہے ۔مگر افسوس!ہمارے یہاں جو لوگ زکوٰۃ نکالتے بھی ہے تواس
قانون سے صَرفِ نظرکرتے ہوئے زکوٰۃ کی رقم کوچلّر بناکرتقسم کرتے ہیں ،اس
وجہ سے کوئی بھی مستحق بڑی رقم حاصل نہیں کرپاتا اور وہ اس قابل نہیں
ہوپاتاکہ سال بھر محنت کرکے آئندہ سال خود زکوٰۃ نکال سکے۔نتیجتاً پھر وہی
ہاتھ معاشرے میں زکوٰۃ لینے کے لیے گردش کرنے لگتے ہیں۔ساتھ ہی بہت سے ایسے
زکوٰۃ لینے والے بھی ہیں جو زکوٰۃ،صدقات اور خیرات کی رقم کوصحیح مصرف میں
لگانے کی بجائے سنیماگھروں،سیر وتفریح،شراب نوشی وغیرہ میں خرچ کردیتے
ہیں۔اب تو ایسے بھی اسٹینڈرڈ فقیر نظرآتے ہیں جو مذکورہ رقم جمع کر عمدہ
موٹر سائیکل،ریڈی میڈ کپڑے اور اینڈرائیڈ فون خرید کر فلسفۂ زکوٰۃ کی
دھجیاں بکھیردیتے ہیں۔جب تک دونوں طبقوں کی جانب سے اسلامی قانون پر عمل
نہیں کیا جائے گا یمن والاپُرامن اور خوشحال زمانہ دوبارہ نہیں آسکتا۔دولت
کی مثال پانی جیسی ہے اگر پانی بہتارہے تو صحت بخش اور تھم جائے تو وبائی
امراض کامنبع۔اسی طرح دولت سب کے ہاتھوں میں آتی جاتی رہے تو زمانہ پُرامن
رہے گا ورنہ چوری،ڈکیتی اور نت نئے جرائم معاشرے میں پروان چڑھیں گے۔ہونا
تو یہ چاہیے کہ اپنے مال کا صحیح حساب کیا جاتا اور مکمل زکوٰۃ نکالی جاتی
تاکہ مال کا میل بھی دور ہوجائے اور اس کی افزائش بھی ہو۔مگر لوگ طرح طرح
کے حیلے بہانے تلاش کرتے ہیں،کوئی زمین خریدتاہے تو کوئی اپنی اَٹکل سے رقم
بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ نتیجتاً کاروبار میں نقصان وخسارہ ہوتا ہے،آگ لگ
جاتی ہے یا چوری ہوجاتی ہے۔معاشی بحران اور تنگی گھیر لیتی ہے۔اگر کچھ نہ
بھی ہوتوقیامت کے دن کا دردناک عذاب تو ہونا ہی ہے۔مفتی صاحب اور مستحقین
کو تو بے وقوف بنایاجاسکتا ہے مگر اس رب سے کیسے بچ سکوگے جو ہمارے اعمال
کے ساتھ دل میں پیداہونے والے تصور وخیال سے بھی واقف ہے۔خداراخدارا!اسلام
کے نظام پر عمل کرو تاکہ قوم مسلم کا ہر فرد خوشحال زندگی گزارے۔ |
|