2013ء کے الیکشن سے قبل تمام تبصرہ
کار،تجزیہ کار،نجومی سب کی ایک ہی رائے تھی کہ 2013ء کا الیکشن ن لیگ اور
تحریک انصاف کے درمیان چھری کانٹے کا مقابلہ ہوگا. یہ بہت بڑا معرکہ ہوگا.
تحریک انصاف اس وقت انتہائی مضبوط پوزیشن میں موجود ہے. لہذا تحریک انصاف
کے جیتنے کے چانسسز 50% ہیں. تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان صاحب کو
بھی کچھ ایسی ہی خوش فہمیاں تھیں. مگر جب انتخابات ہوئے تو بہت بڑے مارجن
سے نواز لیگ نے کامیابی سمیٹ کر حکومت سنبھال لی. یوں نواز شریف صاحب تیسری
بار جمہوری حکومت میں وزیر اعظم بن گئے. یہ بات اپوزیشن خاص طورپر تحریک
انصاف کیلئے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں تھی. انہوں نے دعوی کیا کہ الیکشن
میں دھاندلی ہوئی. اب دوبارہ تحقیقات کرائی جائیں یا پھر دوبارہ سے ووٹ ہوں.
اور نواز شریف صاحب مستعفی ہوں. کچھ انہی مقاصد کیلئے انہوں نے دھرنے کا
اعلان کردیا. جس میں عوامی تحریک پارٹی منہاج القرآن کے سربراہ طاہر
القادری نے بھی شمولیت کا اعلان کردیا. میاں صاحب کو کرسی کے لالے پڑ گئے.
یہ دھرنا 126 روز تک رہا. خان صاحب میں اس دھرنے میں ایک ایسا نعرہ لگایا
جو ہر زبان زد عام ہوگیا.
وہ نعرہ ہے،
"گو نواز گو"
پاکستان کی سیاست میں اب تک کا یہ دوسرا بڑا نعرہ ہے. کیونکہ پہلے نمبر پہ
آج بھی پیپلز پارٹی کا نعرہ ہے،
"کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے"
جہاں ملک میں قائد اعظم کی تصویر والی کرنسی چل رہی تھی وہیں اس نعرے کے
بعد ہر جگہ گو نواز گو والے کاغذی نوٹ نظر آنے لگے جسے بعد میں بینکوں نے
بھی لینے سے انکار کردیا. اس دھرنے سے ملکی سیاست میں ہلچل سی مچ گئی. ہر
آنے والا لمحہ سب کیلئے سوال کن تھا کیونکہ کوئی نہیں جانتا تھا کب ملکی
حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے. یا پھر ماضی کی طرح فوج حکومت سنبھال لے. خان
صاحب بھی ضد پر ڈٹے رہے. اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے میاں صاحب کا استعفی
مانگتے. میاں صاحب بھی آخر میاں صاحب ہیں. سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی. یہ
بات تو سب مانتے ہیں کہ بھلے خان صاحب اپنے دور کے بہترین کھلاڑی رہے ہوں
وکٹیں اڑائی ہوں مگر سیاست میں میاں صاحب سے چھوٹے ہی ہیں. میاں صاحب بھی
میں نہ مانوں ہار کی پالیسی پر عمل کرتے رہے کہا جو بھی ہوجائے میں استعفی
نہیں دوں گا. پیپلز پارٹی نے بھی نواز شریف صاحب کی حمایت میں آواز اٹھائی
اور انکا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا کہ ہم استعفی کے حق میں نہیں تو کچھ نواز
شریف صاحب کو سہارا ملا. مگر پھر بھی عمران خان صاحب اپنی بات سے ذرا بھی
پیچھے نہ ہٹیں. ہٹتے بھی بھلا کیسے؟ کرسی کس کو پیاری نہیں ہوتی؟ وہ بھی تب
جب ملک پہ حکمرانی کرنے کی کرسی ہو.
کچھ ایسے بھی لمحے آئے جب لگا اب واقعی عمران خان صاحب استعفی لیکر ہی رہیں
گے کیونکہ جس طرح عمران خان صاحب کی آواز پر ہمارے غریب طبقہ نے لبیک کہا
یہ میاں صاحب کیلئے ایک جھٹکا ہی تھا مگر میاں صاحب ٹھہرے مظبوط دل کے مالک
یہ جھٹکا بھی آسانی سے برداشت کرلیا. عمران خان صاحب کچھ حوصلہ ہوا ہی تھا
کہ ملکی حالات نے انہیں ہتھیار ڈالنے پہ مجبور کردیا. اس دھرنے اور میاں
صاحب اور خان صاحب کے درمیان کی
"توں توں،میں میں"
نے عوام کے ذہنوں میں ایک عجیب سی بیزاریت پیدا کردی. خان صاحب کے دھرنا
بھائی طاہر قادری صاحب نے بھی کئی مقامات پر خان صاحب سے لا تعلقی کا اظہار
کیا. اوربالآخر قادری صاحب حکومت سے اندر اندر مک مکاؤ کرکے پیسہ لیکر پھر
سے کینیڈا چلے گئے. یوں تحریک انصاف مجموعی طورپر کافی کمزور ہوگئی. تحریک
انصاف کو کمزور سے کمزور تر کرنے کیلئے تحریک انصاف کے اندر ہی کچھ اپنے
لوگ وار کرنے لگے. پھر خان صاحب کی شادی اور شادی کے بعد طلاق کی خبر نے ن
لیگ کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ڈبونے کا کام کیا. اگر چہ
اس دھرنے سے حکومت کی کچھ خامیاں پتہ چلیں مگر اسکا فائدہ بھی تیسری جماعت
نے اٹھایا. عمران خان صاحب بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے مگر جب پاناما لیکس منظر
عام پر آئی اور اس میں نواز شریف صاحب کے خاندان کا نام آیا تو مانو اس خبر
سے خان صاحب کا منوں خون بڑھ گیا.
جو پارٹی صرف دھرنا پارٹی کے نام سے ہی مشہور ہوکر رہ گئی تھی وہ شیر کے
سامنے ببر شیر بن کے آئی. یہ وار حالانکہ پوری دنیا کے آف شور کمپنیوں کے
مالکان پر ہوا تھا مگر پاکستان میں اسکا سب سے بڑا فائدہ اپوزیشن کو ہوا.
یہ خبر میاں صاحب کیلئے ہارٹ اٹیک ثابت ہوئی جسکا علاج ڈھونڈنے میاں صاحب
لندن میں زرداری صاحب کے پاس گئے زرداری صاحب کی جانب سے کچھ خاص خیر خواہی
نہ ملی، گھی سیدھی انگلی سے نکلتا نہ دکھا تو میاں صاحب نے پاناما لیکس کا
معاملہ دبانے کیلئے پہلے خان صاحب کی طرح جلسہ سیاست شروع کی پھر بھی بات
نہ بنی تو خود کی ہی جان کے ساتھ رسک لیا. اپوزیشن کو ٹی. او. آرز میں
الجھا کر خود لندن دل کا بائی پاس کرانے چل دیے. اور ملک اﷲ کے حوالے.
اپوزیشن نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا. آپس میں میل جول کرکے سب ایک
ہوگئے. عوامی تحریک پارٹی کے سربراہ بھی اچانک وطن واپس لوٹ آئے اور
احتجاجی دھرنا دینے کا اعلان کردیا. بروز جمعہ 17 جون کو جب لاہور مال روڈ
پر عوامی تحریک نے دھرنا دیا تو یہ کہہ کر ملتوی کر دیا کہ حکومت کو وارن
کررہے ہیں. اور دوسری جانب ساری پارٹیاں عید کے بعد ماہ اگست میں ایک بار
پھر دھرنا پارٹ ٹو پیش کرنے کی تیاریاں کیے بیٹھی ہیں. جس میں عمران خان
صاحب کے ساتھ ساتھ عوامی تحریک پارٹی،شیخ رشید صاحب،ق لیگ،کسی سرے سے پیپلز
پارٹی اور ایم کیو ایم بھی شامل ہیں.لوگ کہہ رہے ہیں اب کی بار یہ دھرنا
حکومت کو ہٹا کے ہی رہے گا ملککی تاریخ بدل جائے گی روایتی سیاست سے جان
چھوٹ جائے گی. احتساب ہوکے رہے گا ضرور کوئی بڑا دھماکہ ہی ہوگا. کچھ لوگ
تو یہ بھی کہہ رہے ہیں اب میاں نواز شریف صاحب وطن واپس ہی نہیں آئیں
گے.یعنی جتنے منہ اتنی باتیں.
مگر سچ کہوں تو اب کی بار بھی کوئی تبدیلی آتی نہیں دکھتی.
اول تو یہ اپوزیشن ایک ساتھ ہو ہی نہیں سکتی. کیونکہ میاں نواز شریف صاحب
نے اپوزیشن کا گٹھ جوڑ توڑنے کیلئے اپنا حکم کا اکا میدان میں پھینک دیا
ہے. ?اکٹر عاصم کی ویڈیو بیانات نے پیپلز پارٹ? کے سربراہ آصف زرداری پر
وار کیا ہے. بلاول کے خلاف بھی کئی بیانات آرہے ہیں. اب جب یہ بکھریں گے
اپنی کمزوری چھپانے کیلئے عوام کو یہ کہیں گے ہم نے حکومت کو ایک اور موقع
دیا ہم امن پسند ہیں تبھی ماحول خراب نہیں کرنا چاہتے. حقیقت تو یہ ہے خان
صاحب کے ساتھ کوئی بھی پارٹی نہیں. سب پارٹیاں اپنا الو سیدھا کرکے حکومت
سے مک مکا کرکے ساتھ چھوڑ دیتی ہیں. ماضی میں بھی یہی ہوا ہے اب بھی وہی
ہوگا. نواز شریف حکومت کا نہ احتساب ہوگا نہ ہی حکومت جائے گی. آرمی اور
حکومت ایک ساتھ ہی رہیں گے. ہوسکتا ہے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع
کردی جائے. مگر دھرنا پارٹ 1 یا پارٹ 2 سے حکومت کو کچھ بھی نہیں ہونا.
حکومت اپنا وقت پورا کرے گی اور ہوسکتا ہے آئندہ بھی ن لیگ کی ہی حکومت
آئے. کیونکہ کوئی اور پارٹی تو مضبوط دکھ نہیں رہی.
عمران خان صاحب یقینا ایک بہت اچھے انسان ہیں قوم کے ہیرو ہیں. مگر انکی
ذاتی اور سیاسی زندگی دونوں ایک ساتھ الجھ کے رہ گئی ہے جو انکے لیے نہایت
ہی نقصان دہ بنی ہوئی ہے. اگر خان صاحب اپنے فنانسر اور اپنی پارٹی کے نمک
حرام لوگوں کے شکنجے سے بچ نکلیں تو شاید ہوسکتا ہے آگے جا کے کہیں انہیں
حکومت ملے مگر اس وقت امید کا کوئی چراغ روشن دکھائی نہیں دیتا.
اگر حالات اسکے برعکس بھی ہوئے تو تب بھی کوئی تیسری جماعت ہی فائدہ اٹھائے
گی تحریک انصاف نہیں. وہ تیسری جماعت فوج بھی ہوسکتی ہے. کیونکہ ہمارے
حکمران تو اس لائق ہیں نہیں کہ ملک سنبھال سکیں. یہ ذمہ داری بھی پھر فوج
اپنے کندھوں پر لے لے گی.
یہ صرف میرا ذاتی اندیشہ ہے کوئی پیشین گوئی نہیں |