میں آج ان شخصیات کے چہرے سے نقاب اٹھاوں
گا۔جو اپنے آپ کو انسانیات کے ٹھیکیدار کہتے ہیں۔دیکھا جائے تو محکمہ صحت
کا ملازم ہونا بہت بڑے درجہ کی بات ہے جس میں صرف انسانیت کی خدمت کرنا
ہے۔یہ اﷲ پاک کا احسان ہے ۔کہ ان کو ایسے محکمہ صحت میں نوکری مل گئی۔ایک
انسان کی جان بچانا بھی ساری انسانیات کی جان بچانے کے برابرہے۔لیکن اس
محکمہ کو جتنا بجٹ ملتا ہے۔اس سے اس طرح کے سٹی ہسپتال اور بن جائے۔لیکن ان
دہشت گردوں نے اس ضلع جھنگ کے محکمہ صحت کو اس طرح سے لوٹا ہے۔اس طرح سے تو
وہ دہشت گرد بھی نہیں لوٹتے وہ صرف منافقانہ طریقہ سے آتے ہیں۔کئی جانوں کا
نقصان کیا اور چلے گئے ۔اور پھر روپوش ہوجاتے ہیں۔اور ان کے پیچھے بھی ان
کی طرح کے سفید پوش ہوتے ہیں۔جو پوراسال غریب عوام کی جانوں سے کھیلتے
ہیں۔محکمہ صحت ضلع جھنگ میں ایک دفتر ای ڈی او ہے ایک ڈی ایچ او اور ایک
زڈایچ اوہے اور آر ایچ سی سنٹر ہیں۔اور تین تحصیل ہیڈ کواٹر ہیں۔اگر ان کا
بجٹ اکھٹا کیا جائے۔تو کروڑں روپے کا بنتا ہے۔لیکن ڈی ایچ او اورتحصیل ہیڈ
کواٹراور آر ایچ سی سنٹروں کی حالت زار چیک کی جائے۔تو آپ کو پتا چل جائے
گا۔کہ کتنا بجٹ ہوا ہے۔اور کتنا بجٹ ان ڈاکٹروں اوران کے ہیڈ کلرکوں کے پیٹ
میں چلا گیا ہے۔لیکن جو محکمہ ان کی پوچھ گوچھ والا بنایا تھا۔انہوں نے کیا
کیا۔چھوٹے سنٹروں کو پوچھنا تھا ای ڈی او نے اور ان کو ان کی اوپر والی
طاقت نے پوچھنا تھا۔لیکن ان کو پوچھنے والا اور کون ہوگا۔کیا آپ کو معلوم
ہے کہ ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے والاکون ہے۔یا کوئی بھی نہیں۔یہ
سب نے ہی کہ دیا اﷲ پاک ہی ان سے پوچھے گا۔واقعی ایسی بات ہے ۔کیا واقعی ان
سے اﷲ پاک نے پوچھنا ہے۔تومیں پھر دعا کرتا ہوں ان سب سے پہلے اﷲ پاک آپ سے
پوچھے جن کو اﷲ پاک نے عزت عنایت فرمائی۔جس طرح سب کہتے ہیں ۔کہ اس کو اﷲ
پاک نے عزت بخشی ہے۔اگر اﷲ پاک نے آپ سے پوچھ لیاتو پھرآپ لوگ کیا کہو
گے۔اس کی عدالت میں توبے ایمان انصاف نہ کرنے اور حق کی بات نہ کرنے والوں
کی کوئی شفارش نہیں ہوتی۔کوئی رشوت نہیں ہوتی۔وہاں پر تو صرف ایمان رکھنے
والوں کی شفارش ہوتی ہے۔اورجس شخص نے اس دنیا میں گناہ کیا ہے۔ان کو اسی
دنیا میں دیکھنا پڑے گا۔جس طرح آئنے ہیں۔انسان اپنا چہرہ دیکھتا ہے۔اﷲ پاک
کی عدالت میں منافق اور غصب کی کوئی بخشش نہیں ہے۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے ۔کہ
ان کے نام سے پہلے حاجی صاحب کالقب آتا ہے۔جومحکمہ صحت کے دہشت گرد ہیں۔اور
اپنے آپ کو نہایت شریف سمجھتے ہیں۔اور ان کا کردارکیا ہے بعد میں آپ سے
بیان کرتا ہوں۔ان سے وہ تمام دولت واپس لی جائے۔اور انہوں نے جو ادارے تبا
ہ کر نے کا الزام ہے اوران کواس میں سخت سے سخت سزا دی جائے۔تاکہ اﷲ پاک آپ
سے خوش ہو جائے۔اور راضی ہوجائے۔جس سے اﷲ پاک راضی ہو جائیں ان کا رتبہ بہت
بلند ہو جاتا ہے۔ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے ۔کہ اس محکمہ کے ان حاجیوں
کے علاوہ مرید عباس اور ان کے شاگرد جو اس وقت آر ایچ سی سنٹراور تحصیل ہیڈ
کواٹرپر ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں۔ذارئع سے معلوم ہوا ہے ۔کہ اس طرح سے
ایک سٹی ہسپتال میں بھی کلرک ثناء اﷲ ہے۔مجھ کواس بات کی سمجھ نہیں آئی ۔۔کہ
صرف ایک سٹی ہسپتال کو 3کروڑ56لاکھ22ہزارکابجٹ مل جاتا ہے۔اور اس طرح سے
پہلے بھی 2کروڑ90لاکھ آیاہے۔2009سے لیکر 2014سے2015اور2016تک کا بجٹ اس سٹی
ہسپتال کو ملتا آیا ہے۔لیکن جو حالت پہلے2000ء میں تھے آج بھی وہی نظرآتی
ہیں۔آخر کار اس طرح سے تمام آرایچ سی سنٹراور بی ایچ یو اور ڈسپینسری کو
بھی بجٹ جاتا ہے لیکن ان کی حالت زار کچھ اسی طرح سے تمام محکمہ صحت تباہی
بربادی کا منظر پیش کررہے ہے۔کئی پریس رپوٹروں نے کرپشن کی نشاندہی کی لیکن
بے سود گئی ۔ ڈی ایچ او نے آر ایچ سی ۔بی ایچ یوسنٹر اورڈسپنسرزکو چیک کرنا
تھا۔ ای ڈی او ہیلتھ جھنگ نے آرایچ سی سنٹر۔بی ایچ یو۔ٹی ایچ کیو کو چیک
کرنا تھا۔ زڈ ایچ او نے اپنی ڈسپینسرزکو چیک کرنا تھا۔اور کئی محکمہ ہیں ان
کو چیک کرنے والے سب کے سب بے سود ہیں۔کسی نے بھی سچائی بیان نہیں کی یہاں
تک کہ کچھ ایسے ڈاکٹر حضرات ہیں۔جن کاکام صرف یہ تھا۔کہ میں ہر ایک کی
کرپشن کو راز میں رکھ جائے کسی کو نہ بتایا جائے۔جوکچھ عرصہ کے بعد محکمہ
چھوڑ جائیں گئے۔ہمارے جھنگ کے تمام ادارے تباہی اور بربادی کا منظر پیش کر
رہے ہیں۔میں نے بڑا عجیب قانون دیکھا ہے ۔کہ جو افسر دل کھول کر کرپشن کرئے
گا۔اس کو اعلی عہدے پرترقی دے دی جاتی ہیں۔میں ایک بار پھر وزیر اعلی پنجاب
اورتمام ارباب واختیار سے اپیل کرتا ہوں کہ ان کے خلاف سخت سے سخت قانونی
کاروائی کی جائے۔اور اس طرح کے جتنے بھی قانون شکن افراد ہے ان کے خلاف
کریک ڈاؤن کیا جائے۔کم ازکم کئی لوگ اور کئی انسانی جانوں کا نقصان تو نہیں
ہوگا۔مجھ کواس با ت کی سمجھ نہیں آتی۔کہ جب بھی ان افسران کے پاس جاؤ تو
صاحب کا فرمان ہوتا ہے کہ ثبوت لیکر آؤ ثبوت کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔میں اس
کی مثال پیش کرتا ہوں۔ایک انسان کو میں نے ایک لاکھ روپے دیتا ہوں۔کہ فلاں
چیز لیکر آنی ہے۔اگر وہ چیز نہیں لیکر آیاتو ثبوت کی کیا ضرورت ہے۔اس چیز
کو دیکھا جائے۔جو چیز ہم کو چاہیے کیا یہ وہی چیز ہے۔اگر تو ٹھیک نہیں ہے
تو اس کے اوپر اس کو سزا دی جائے۔ایک چیز کا پتہ ہونے کے باوجود اس جرم کو
چھپنے کے لیے مذکرات شروع ہوجائے۔اور جرم کرنے والا چھوٹ جاتاہے۔اس کے گواہ
اور جس کا نقصان ہوا ہوتا ہے۔اس کو سزا مل جاتی ہے ۔یہ ہمارا قانون ہے۔اگر
سزا جزا کا نظام جو میرے اﷲ پاک نے نفظ کیا ہے۔اس کو نہیں مانتا اور پھر
کہتے ہے۔ہم کس کو مانتے ہیں ہم صرف اس کو مانتے ہیں۔جو حرام کی دولت کمانا
جانتے ہو۔جن کو حلال حرام کی تمیز نہ رکھتے ہو اور چھوٹ بولنے والے کو اچھا
جانے ہم صرف اس کو اچھا جانتے ہیں۔یہ ہے ان لوگوں کی اصل تعزیب نہ جانتے
ہو۔یہ الفاظ ان لوگوں کے لیے ہے۔جن کو انسانیت کا احساس نہ ہوجن کو اپنے
پیارے ملک کا احساس نہ جوصرف خود کو پیار کرنا جانتے ہو۔اورجو
یارمارہو۔میرامحفوم تھا کہ میں آپ کو ان لوگوں کے بارے آگاہی دے دوں۔ہاں
یہاں آپ کو یہ بتاتا چلو کہ ان میں سے ایک ای ڈی او ہیلتھ آفس جھنگ کا
سپریڈینٹ عبدالغفار ہے۔یہ سپریڈینٹ کی سیٹ پر کیسے آیا۔آج تک کسی نے اس با
ت پرغور نہیں کیا۔جوعرصہ دراز سے یہاں تعینات ہے۔ڈی ایم او اورسابقہ ڈسی سی
او جھنگ نے ان کی کرپشن رپوٹ کرنے پر سیکرٹری ہیلتھ پنجا ب کی ڈسپوزل پر
لاہور بھیج دیا گیا۔جس میں سے یہ تین حاجی صاحب شامل تھے۔ان کے واپس آنے کا
کوئی چانس نہیں تھا۔لیکن ڈی سی او جھنگ نادر چٹھہ کے ٹرانسفر کے بعد یہ
دوبارہ ای ڈی او آفس جھنگ اور ڈی ایچ او آفس جھنگ واپس آگئے۔
زندگی میں اگر برا وقت نہ آتاتواپنوں میں چھپیے غیر
اور غیروں میں چھپیے اپنے کبھی ظاہر نہ ہوتے |