لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
امجد صابری کی کس سے دشمنی ہو سکتی ہے؟ جو
شخص ہر محفل میں مدحتِ رسولﷺ بیان کرتا تھا، جس کی گفتگو کا محور مدینہ
ہوتا تھا، جس سے کوئی بھی کچھ پڑھنے کی درخواست کرتا تو یقینا مدینے کا
منظر ہی سامنے آتاتھا۔ آج کل چونکہ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے اس
مناسبت سے ٹی وی چینلز پر افطاروسحر کی ٹرانسمیشن چلتی تھیں، اپنے مزاج اور
سرگرمی کے لحاظ سے وہ بھی ان پروگراموں کا لازمی حصہ تھے۔ ان کی شہادت کے
بعد جب ان کی یادیں تازہ کرنے کی باتیں ہورہی ہیں تو بتایا جارہا ہے کہ وہ
رمضان المبارک کا آخری عشرہ مدینہ میں گزارنے کے خواہشمند تھے، تاہم ٹی وی
چینل سے معاہدے کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر تھے۔ مگر انہیں معلوم نہیں تھا
کہ ٹی وی کے ساتھ کیا جانے والا معاہدہ بھی پورا ہوسکے گا یا نہیں۔ یوں وہ
چینل سے کیا جانے والا معاہدہ ادھورا چھوڑ کر جامِ شہادت پی کر عدم کو
سدھار گئے۔امجد صابری پاکستان کے ماتھے کا جھومر تھے، وہ جس ملک میں بھی
گئے پاکستان کا نام روشن کیا، جہاں بھی گئے اپنے مخصوص انداز کی قوالی سے
لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اگرچہ ان کی قوالی کی طرز ان کے والد کی
بنائی ہوئی تھی، شہرت کی بلندیوں پر تو یہ قوالیاں پہلے ہی تھیں، مگر ان کو
جدید دور کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے امجد نے خوب محنت کی اور وہ اپنے مشن
میں کامیاب رہے۔ اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے وہ میڈیا میں مکمل طور پر
’اِن‘ تھے۔ کونسا ٹی وی چینل ہے جس نے اپنے پروگراموں کی رونق بڑھانے کے
لئے انہیں مدعو نہ کیا ہو۔ بہت سے چینلز نے ان کے گھر جاکر ان کے فیملی
انٹرویو بھی کئے ہوئے تھے۔
کراچی کی ٹارگٹ کلنگ میں کسی سے دشمنیاں نہیں نکالی جارہیں، یہ تو ملک
دشمنی ہے، کراچی کا امن تباہ کرنے کی سازشیں ہیں، کراچی پاکستان کی معاشی
ترقی کا صدر دروازہ ہے، اگر اسے بند کردیا جائے یا اسے خراب کردیا جائے، تو
ترقی کیسے اندر داخل ہو سکے گی۔ اس واقعہ سے دوروز قبل ہی سندھ ہائی کورٹ
کے چیف جسٹس کے بیٹے کا اغوا بھی حکومتوں کے لئے لمحہ فکریہ تھا، ابھی
حکومتی مشینری اس اغوا پر اپنی سرگرمیوں کا آغاز ہی کررہی تھی، ابھی مغوی
کو تلاش کرنے والوں کے لئے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان ہی کررہی تھی کہ
دوسرا المناک واقعہ رونما ہوگیا۔ وفاقی حکومت نے مرحوم کے اہل خانہ کے لئے
ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے، جب کہ ان کے بچوں کی تعلیم کی ذمہ
داری بھی وفاقی حکومت نے خود ہی اٹھانے کا کہا ہے۔ اگرچہ اسے حکومت کا مثبت
اقدام قرار دیا جاسکتا ہے، مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر لوگوں کی جان
اور مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کب نبھائے گی، کراچی میں پولیس کی
ناکامی کے بعد رینجرز کے ذریعے آپریشن کے بھی اگرچہ بہتر نتائج برآمد ہو
رہے ہیں، مگر آخر کیا وجہ ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ نہیں ہورہا۔
کراچی میں قتل وغارت کا سلسلہ تین دہائیوں سے جاری ہے، کونسا طبقہ ہے جس کے
بڑے بڑے رہنما ٹارگٹ کلنگ کی بھینٹ نہیں چڑھے۔ مذہبی رہنما، قانون نافذ
کرنے والے اداروں کے اعلیٰ حکام، نمایاں بیوروکریٹس، غیر ملکی سفارتکار،
اہم عدالتی شخصیات، مخیر حضرات، انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے، تاجر ،
صنعتکار، صحافی اور سیاسی و سماجی شخصیات دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ
بنیں۔ کتنے چراغ گل ہوئے، کتنی تاریکی بڑھی، کتنا لاقانونیت میں اضافہ ہوا۔
روشنیوں کا شہر کس طرح ایک تاریک جنگل کا روپ دھار گیا، صنعت و تجارت کے
مرکز کو کس کی نظر لگ گئی کہ اس کا سکون تباہ ہوگیا۔ یہی کراچی تھا جس نے
پورے ملک کے تمام کلچر اپنے اندر سمو لیئے تھے، یہاں پختون برادری کا عمل
دخل بہت زیادہ ہے، یہاں بے شمار پنجابی روز گار کی تلاش میں آئے، سندھ کا
تو یہ شہر ٹھہرا، بلوچوں کا بھی یہاں بہت اثر ہے۔ مہاجروں کی تو اکثریت ہے۔
اس شہر کا تو دامن بہت وسیع تھا، اس کی بانہیں ہر کسی کے لئے کھلی تھیں۔ کب
امن بحال ہوگا، حکومتیں غیر سنجیدہ ہیں، یا وہ توجہ نہیں دیتیں، یا معاملہ
ان کے بس سے نکل چکا ہے، کچھ تو ہے، کہ معاملہ کنٹرول میں نہیں آرہا۔ یہاں
تو بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ خفیہ کیمرے بھی ناکارہ تھے۔ جو بھی تھا، جوبھی
ہوا، بہت برا ہوا۔ قیمتی لوگ جو بے ضرر ہی نہیں، لاکھوں لوگوں کے دلوں کی
دھڑکن تھے، غیر متنازع تھے، ظلم کا شکار ہوگئے۔ امجد صابری اپنا طویل روزہ
قیامت کے دن ہی افطار کریں گے، اور اپنی اس معروف قوالی کا مصداق ہونگے کہ
’’لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی․․․‘‘۔ |
|