ہمارے پیارے ملک پاکستان میں جو شخص
ایمانداری یا بہادری کا کام کرے تو اُسے ہی ذیادتی کا نشانہ بنایاجاتا ہے ،
جس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ کوئی ایسا بڑا کام کرے جسے عوام پسند کرتی ہو تو
حسد کرنے والے کچھ ایسے عناصر جن سے مذکورہ شخص کی بہادری نہیں دیکھی جاتی
سازشیں شروع کر دیتے ہیں جیسا کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے ڈاکٹر
عبدالقدیر خان کے لیئے مصائب کھڑے کیئے گئے وغیرہ وغیرہ ۔۔ جبکہ کرپشن کرنے
والے کرپٹ حکام برے کاموں کے باوجود عزت دار کہلاتے ہیں ۔ ایسی ہی ایک
کہانی پولیس سروس آف پاکستان(پی ایس پی ) گروپ کے تیرویں کامن سے تعلق
رکھنے والے ایک بہادر ، نڈر، ایماندار اور فرض شناس پولیس اَفسرسید اَختر
علی شاہ کی ہے جس نے پولیس میں آتے ہی ایسے کارنامے کیئے جن کی تاریخ سنہری
سے بھی لکھی جائے تو بھی کم ہے۔ خیبر پختونخواہ میں جب ایم ایم اے کا دور
حکومت تھا تو اِس دوران اُس دور کے وزیر اعلیٰ اکرم خان دُرانی کے آبائی
علاقے بنوں میں ہنگامے شروع ہو گئے اور وہاں سے ڈی آئی جی ، ڈی پی او ،
کمشنر اور ڈی سی او سمیت کئی افسران بھاگ کر پشاور آگئے، بنوں دوسرا
وزیرستان بن گیا تھا، لوٹ مار، اغواء برائے تاوان ، قتل و غارت وغیرہ جیسے
جرائم عام ہوگئے تھے، اُن حالات میں وزیر اعلیٰ نے بھی اپنے آبائی ضلع کو
جانا چھوڑ دیا تھا اور ایسے حالات میں صوبے میں تعینات تمام پولیس اَفسروں
نے بنوں میں ڈی آئی جی اور ڈی پی او تعینات ہونے سے انکار کر دیا تھا، کہ
اس دوران سید اختر علی شاہ نے بنوں میں بطورِ ڈی پی او تعینات ہونے کی حامی
بھری اور چند ماہ کے اندر بنوں کو جرائم پیشہ افراد سے صاف کر دیا ، مذکورہ
پولیس افسر کو اُن کی اعلیٰ کارکردگی پر پاکستان پولیس میڈل سے نوازا گیا ،
جس کے بعد سوات میں حالات خراب ہوئے تو اُس وقت بھی سوات میں کوئی پولیس
افسر جانے کو تیار نہیں تھا مگر اختر علی شاہ نے سینہ تان کر ڈی پی او سوات
کا چارج لیا اور وہاں پر دہشت گردوں سے جنگ لڑی یہاں تک کہ وہاں سے ایف سی
کے افسران تک بھاگ نکلے مگر اختر علی شاہ نے پاکستان آرمی کے مل کر سوات سے
دہشت گردوں کا صفایا کیا، جس کے بعد اُن کو قائد اعظم پولیس میڈل سے نوازا
گیا، اِس بہادری کے بعد اختر علی شاہ دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر آگئے تھے اور
جب مردان رینج اور مہمند ایجنسی میں اَمن و امان کے حالات خراب ہوئے تو بھی
صوبے کے سارے پولیس افسر مذکورہ رینج میں تعینات ہونے سے بچتے رہے کہ اس
دوران اے این پی کی حکومت کے پاس اختر علی شاہ کو مردان میں تعینات کرنے کے
علاوہ دوسرا آپشن نہیں تھا،جیسے ہی اختر علی شاہ کو ڈی آئی جی مردان تعینات
کیا گیا تو دہشت گردوں نے اُنہیں خوش آمدید کہا اور اُن پر خودکش حملہ ہوا
مگر وہ بال بال بچ گئے کہ مذکورہ خودکش حملے کی خبر ابھی پرانی نہیں ہوئی
تھی کہ اختر علی شاہ پر چند ماہ بعد مردان میں ہی دوسرا خودکش حملہ ہوا جس
میں دیگر پولیس اہلکار شہید ہوئے مگر اﷲ نے اختر علی شاہ کا دانا پانی ختم
نہ کیا جس کی وجہ سے وہ بچ نکلے۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر نے بتایا کہ محکمۂ
پولیس کی پوری تاریخ میں کوئی ایسا پولیس افسر نہیں جس کی سالانہ خفیہ
کارکردگی رپورٹ ہر وقت اچھی لکھی گئی ہو، کوئی ایسی خامی ہوتی ہے جس کا ذکر
پولیس افسر کی سالانہ خفیہ رپورٹ میں لکھا جاتا ہے مگر حیرانگی کی بات یہ
ہے کہ اب تک اختر علی شاہ کی تمام سالانہ خفیہ رپورٹس Excellent ہیں اور
محکمۂ پولیس کے لیئے اس سے بڑے اعزاز کی بات نہیں کہ ایک پولیس افسر نے تیس
سالہ سروس میں اتنی اچھی کارکردگی کی ۔ بطور ہوم سیکرٹری اختر علی شاہ نے
چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کو دو بارPresentations دیں جس پر دونوں
بار آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اختر علی شاہ کو شاباش دی اور اُن کیs
Presentation سے متاثر ہوئے ۔ اختر علی شاہ کی اعلیٰ کارکردگی دیگر افسران
سے ہضم نہیں ہو رہی تھی اور وہ اس تاک میں تھے کہ کسی طرح اُن کو نقصان
پہنچایا جائے،جب وہ صوبائی سیکرٹری داخلہ تھے تو اِس دوران پشاور میں آرمی
پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور ہوم سیکرٹری اختر علی شاہ نے اس
حملے کو میڈیا کے سامنے Security Lapse قرار دیا ، جس پر دُشمن افسروں نے
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو سازش کی کہ مذکورہ سیکرٹری داخلہ کے
بیان سے صوبائی حکومت کی بدنامی ہوئی اور عمران خان نے اختر علی شاہ کو
عہدے سے ہٹا دیا۔ اور دُشمن افسران کی کوششیں رنگ لائیں ۔ اس وقت اختر علی
شاہ وزیر اعلیٰ کی صوبائی معائنہ ٹیم کے سربراہ ہیں جو گریڈ بیس کے اَفسر
کا سول عہدہ ہے جہاں کبھی کسی پولیس افسر کو تعینات نہیں کیا گیا مگر اختر
علی شاہ کو گریڈ اکیس میں ہونے کے باوجود گریڈ بیس کے عہدے پر تعینات کیا
گیا ہے جو ایمانداری اور بہادری کی سب سے بڑی سزا ہے۔ خیبر پختونخواہ پولیس
کے سربراہ آئی جی ناصر خان دُرانی کی کاکردگی بہت بہتر ہے جس کی وجہ سے
محکمۂ پولیس نے اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کیا ہے مگر اب اگر صوبائی
حکومت ناصر خان دُرانی کی اسی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتی ہے تو وہ ناصر
دُرانی کے بعد اختر علی شاہ کا بطور آئی جی پولیس خیبر پختونخواہ انتخاب کر
سکتی ہے جس سے پولیس کی کارکردگی میں مذید بہتری آئے گی ۔ راقم نے اپنی
صحافتی زندگی میں کبھی کسی کی تعریف نہیں کی، ہمیشہ برائی کو سامنے لایا
مگر راقم آج پہلی بار کسی شخص کی ایمانداری سے متاثر ہو کر اُس کی داستان
تحریر کر رہا ہے۔
|