کالا دھن آگیا صاحب!

ہندوستان میں جو حالات ہیں وہ جگ ظاہرہیں، مہنگائی، بدعنوانی، عدم رواداری کا شباب ہے، یہ مونگ اور مسور کی دال کا محاورہ مبنی بر صداقت ہورہا ہے، ہر شخص میں اتنی سکت نہیں کہوہ اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکے، نہ جانے کتنے افراد بھوک کی شدت سے تڑپتے ہیں، راہ چلتے ہوئے جب کوئی معصوم ہاتھ پھیلاتا ہے اس کے پھیلے ہوئے ہاتھ میں ملک کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے، اس کے مایوس چہرے میں ہندوستان نظر آتا ہے،اس کی آنکھیں ملک کے منظر نامے کو دکھاتی ہیں، جہاں دال کا بھائوآسمان چھو رہاہے، پیاز آنسو بہا نے پر مجبور کر رہی ہے، عدم رواداری خوف زدہ کر رہی ہے، انسان عجیب و غریب کیفیت میں مبتلا ہے، درد وتکلیف اور کڑھنے کے سوا کیاکرے، اس کی سمجھ سے بالاتر ہے یا تھک ہار کر ٹوٹ جائے یا بکھرجائے اور کسی درخت پر جھولتا ہوا دکھائی دے یہی غم و اندوہ کا فسانہ اور موجودہ حالات کی تصویر کشی ہے، وہ شجر سایہ دار جس کے نیچے بیٹھ کر انسان اپنی تھکان سے نجات پاتا تھا اب وہ تھکان اتنی بڑھ گئی کہ اس سے نجات پانے کے لئے اسی درخت پر لاش بن کر جھولنا پڑتا ہے، بیوی کی وہ دل فریب ادائیں جو چند ایام میں ہی قلبی بے چینی کا طوفان اٹھا دیتیہیں، جس میں طغیانی ہوتی ہے اس وقت تک قرار میسر نہیں آتا تھا جب تک اس کی جھیل سی آنکھوں میں ڈوب نہ جائے، اس کے پرفریب چاند سے چہرہ کا دیدار نہ کرلے، معصوم بچوں کی محبت بھی اس کے پائوں میں بیڑی نہ ڈال سکی، جن کی کلکاریوں سے دل شاد ہوا جاتا تھا،آج وہ کلکاریاں بھی بے اثر ثابت ہوئیں، حالات کی چکی نے پیس کر رکھ دیا، جان عزیز سے ہاتھ دھونے پرمجبور آخر کب تک اور کہاںتک تکلیف کا بوجھ اٹھا کر خاردار راہوں سے گذرتا۔ اب جسم ہی نہیں حوصلے بھیتھک کر چور ہوچکے۔ یہ خیالی کیفیت نہیں بلکہ ہر آن یہ دھرتی اسی طرح کے واقعات کو اپنے سینہ پر جھیلتی ہے۔ تحقیقات کے مطابق 2014ء کا عالم یہ تھا کہ فی گھنٹہ 15افراد خودکشی کرلیا کرتے تھے اور اب اس سلسلے میں اضافہ ہوا ہے، جو ملک کے حالات کی عکاسی و ترجمانی کرتا ہے اور وہ ملک جو کبھی سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا آج وہاں 78000 ہزار بھکاری ہیں جوسڑکوں پر لوگوں کے طعنوں سے پیٹ بھرتے ہیں، ہر لمحہ انہیں ذلت مارتی ہے، تڑپاتی ہے، یہ ہے ملک کیترقی جس ملک میں اتنی تعداد بھیک مانگ رہی ہو وہاں تعلیمی ترقی کی بات کرنا دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے؟ ملک کے وزیر اعظم کو سیاحت سے فرصت ملے تو شاید کچھ بات بنے، وہ اپنے من کی بات تو کہتے رہتے ہیں، لوگوں کے من کی بات ان کی سماعتوں تک کیوں نہیںپہنچتی۔ وہ چنددن ہندوستان میںرہ کر لوگوں کے کرب کو دیکھیں تو صحیح، بدعنوانی کا یہ عالم ہے کہ وزیر خزانہ ہی شک کے دائرے میں ہیں اور ان پر الزامات کی بوچھار ہورہی ہے۔ اب جہاں خزانچی ہی متہم ہو تو ہر ذی شعور خزانہ کی کیفیت کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ جو وقت انہیں ہندوستان کی ترقی کے منصوبوں کو تیار کرنے میں خرچ کرنا تھا اس میں وہ اپنی جان میں مصروف ہیں، حالات کی بدتری اور ابتریاس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے؟ سیاسی کوچوں کی بے حسی نے ملک کو بسا اوقات ایسے حالات سے دوچار کیا ہے،تاریخ شاہد ہے جب ایسے حالات پیدا ہوئے کچھ افراد نے ہمت اور جواں مردی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے حالات سازگار کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کردیااور فراز کے اس شعر کے مصداق ٹھہرے ؎کبھی تو یوں ہوا ہے اس ریاض دہر میںایک پھول گلستاں کی آبرو بچا گیاگذشتہ حکومت میں بھی حالات خراب ہوئے تھے، مہنگائی نے سر اٹھایا تھا، بدعنوانی نے اپنا پھن پھیلانے کی کوشش کی تھی مگر اس پھن کو کچلنے کے لئے اٹھتے سر کو دبانے کے لئے ایک شخص اٹھا، سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کر حوصلوں کے ساتھ سارا ہندوستان سر ہوتا نظر آیا۔اس ملک کی خاطر، اپنی مٹی کی خاطرجان دائو پر لگادی، اس کی شکل دیکھتے ہی ذہن میں یہ شعر گردش کرنے لگتا ہے ؎یہ خاکِ وطن جاں اپنی ہےاور جاں تو سب کو پیاری ہےبھوک کی شدت کو برداشت کیا، جیل کی صعوبتوں کو جھیلا مگر جھکا نہیں، وہ ہندوستان کو ایک عمدہ نظام دینا چاہتا تھا، یہ نام ہے انا ہزارے کا جس کی تحریک کو دیکھ کر یہی گمان ہوتا ہے، اس کے ارادوں اور حوصلوں کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا تھا سارا ہندوستان اسی کا ترانہ گنگنا رہا تھا اور اس کی حمایت کی پورے ملک میں ہوا چل رہی تھی۔ بابارام دیو اس کے ساتھ ساتھ کالا دھن واپس لانے کا مطالبہ کر رہے تھے، ان لوگوں نے حکومت کے تیور ڈھیلے کردئیے تھے اور کانگریس حکومت گھٹنوں پر آگئی تھی۔ اگست 2011ء میں شروع ہوئی اس تحریک نے چند دنوں میں حکومت کو ہلاکر رکھ دیا، جو سیاسی بصیرت رکھنے والوں کی نظر میں بڑے سیاسی انقلاب کی تمہید قرار پایا، جوحقیقت بن کر 2014ء کے انتخاب میں ظاہر ہوا۔ ایسی تبدیلی رونما ہوئی جس نے آنکھوں کو خیرہ اور عقل کو متحیر کردیا۔ لوک پال بل تو نہیں آیا مگر بی جے پی آگئی۔ مودی کی تقریریں فضا میں گونجنی شروع ہوئیںاور وقت گذرتا رہا، وہ وعدے صرف وعدے ہی ثابت ہوئے۔ ٹوٹ جانا جن کامقدر ٹھہرا اور اگر کچھ بدلا تو یہ کہ پہلے وزیر اعظم کی تقریریں صرفہندوستان میں ہوتی تھیں اب ساری دنیامیں۔ حالات و واقعات کی اس تبدیلی اور ابتری کے خلاف اناہزارے یا بابا رام دیو کی آواز پھر کیوں نہیں؟ پھر سے لوک پال کے نفاذ اور کالا دھن واپسی کے لئے ملک گیر تحریکیں کیوں نہیں چلیں، ہر ہندوستانی کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپئے آگئے؟ کیا لوک پال بل پاس ہوگیا؟ کہاں ہیں انّا ہزارے ؟ آج ان کی خاموشی یہ ثبوت پیش کر رہی ہے کہ انا جی بی جے پی کا ایک سنجیدہ چہرہ تھا، جس کے ذریعہ ہندوستانیوں کو بیوقوف بنادیا گیا، اگر وہ سچے ہندوستانی ہیں تو انہوں نے ارون جیٹلیکے خلاف کیوں تحریک کا آغاز نہیں کیا؟ اگر وہ سچے ہندوستانی ہیں تو اخلاق کی موت پر ان کی زبان کیوں گنگ ہوگئی؟ کملیش تیواڑی کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرکے ہندوستانیفضا میں زہر گھولنے کی کوشش کی گئی، کہاں تھے وہ ؟ یہ سب بی جے پی کی سیاست کا حصہ ظاہر ہوئے۔ اس ڈیڑھ برس کے عرصہ میں ان کی خاموشی انہیں داغدار کر رہی ہے، وہ کارنامے جو انہوں نے سر انجام دئیے انہیں خوشامد کا لباس پہنارہی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس خاموشی کی کوئی وجہ کسی ذی شعور کے ذہن میں نہیں آتی۔ ایک شخص مہنگائیکے بڑھنے سے میدان میں نکل آتا ہے، بدعنوانی کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، جب کہ آج بھی یہ ساری چیزیں اور وہ شخص موجود ہے مگر خاموش اور دوسرا شخص بابا رام دیو، کون ان کے بہتے ہوئے آنسوئوں کو بھولاہے؟ جب رو رو کر ملک کی بدتری کو بیان کر رہے تھے اور حالات کے خلاف اٹھنے کے لئے اپنے بھگتوںکو حکم دے رہے تھے۔ آج کہاں ہیں؟ اپنی دوائوں کے اشتہار کے سوا کہیں نظر نہیں آتے۔ کیا اس عرصہ میںانہیں بدعنوانی نظر نہیں آئی؟ کالا دھن کا ان کا نعرہ کیا ہوا؟ مقصد کانگریس کی مخالفت، دل کو تکلیف پہنچانے والی بات یہ ہے کہ اپنے آپ کو ہندوستان کا خادم کہنے والے برائی کے خلاف اندھیرے میں مشعل حق لے کر نکلنے والے آج کیوں خاموش ہیں؟ اگر اس عرصہ میں دوبارہ تحریکیں چلتیں تو کیا حالات یہاں تک پہنچتے؟ کیامعصوم افراد کو درد و الم کا سامنا کرنا پڑتا؟ کیا بھوک سے بلبلاتا ان کا مقدر ہوتا۔ شاعر نے کہا ہے ؎امیر شہر ہم سے مت الجھفقیری بادشاہوں سے حکومت چھین لیتی ہےلیکن یہ مہرے تو شطرنج کی بازی میں اپنا کردار ادا کرکے رخصت ہوچکے،ابھی اناہزارے نے کہا تھا کہ مودی نے میرے خط کا جواب نہیں دیا، اب عدم رواداری پر صرف خط سے کام چلاتے ہیں اور میڈیا میں اس کا اظہار بھی جواب نہ آنے پر ہوتا ہے۔ انّا صاحب! اگر آپ بی جے پی کا چہرہ نہیں تو کالے دھن کے لئے تحریکچلائیے، آپ خاموش کیوں ہیں؟
rahat ali siddiqui
About the Author: rahat ali siddiqui Read More Articles by rahat ali siddiqui: 82 Articles with 84970 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.