مظفرنگر فساد: انصاف کے نام پر انتخاب کی تیاری

ہندوستان بڑے مشکل دور اور تکلیف دہ مراحل سے گذر رہا ہے، جہاں انسانکی حیثیت محض ایک ووٹ سے زیادہ متصور نہیں اور جمہوریت صرف زبان پر باقی رہ گئی، عمل میں اگر اسے تلاش کریں تو یہ بھوسے کے ڈھیر میں سوئیں ڈھونڈنے کے مترادف ہے، ہر آنے والا دن اور گذرنے والے شب وروز اس حقیقت سے پردہ اٹھا رہے ہیں اور موجودہ حالات کی ابتری و بدتری کی عکاسی کر رہے ہیں،انسانیت کی گھٹتی قدریں اور گرتے وقار کو نمایاں کر رہے ہیں۔ جہاں ہر قول و فعل مفاد پرستی کی دلیل ہوتا ہے عوامی حکومت میں عوام کا استحصال وہ درد ہے جسے ہر شخص محسوس کرتا ہے اور کبھی اس احساسکی شدت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ انسان اسے برداشت نہیں کرپاتا، ٹوٹ جاتا ہے، بکھر جاتا ہے، اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ پاتا، مگر سیاسی جماعتیں ایسے موقع کو نعمت غیر مترقبہگردانتی ہیں، اس ٹوٹے ہوئے فردکو اپنے لئے استعمال کرتی ہیں اور عام انسان کو حسین خواب دکھا کر اپنے حقمیں کرنے کی ناپاک کوشش کرتی ہیں،چاہے اس کے لئے انہیں کسی حدتک گذرنا پڑے، لاشوں کی خرید وفروخت ہویا انسانی کھوپڑیوں پر ان کا سیاسی محل تعمیر ہو، انہیں تو ہر حد پار کرکے اپنے سیاسی قلعہ کو بچانا ہے،یہی ہوا مظفرنگر فساد میں۔ 2014انتخاب کی تیاری ایسے منصوبہ بند طریقے سے کی گئی جو عام انسان کے خواب وخیال سے بھی باہر ہے۔ سماجوادی پارٹی نے بی جے پی کے لئے وہ فصل تیار کی جس کا پھل انہوں نے آنے والے انتخاب میں 72سیٹوں کی شکل میں کاٹااور بہت سے انسان اس منزل تک پہونچنے کے لئے استعمال کرلئے گئے جن کا مذہب نام ذات برادری کچھ بھی نہیں پوچھا گیا، ایک ایساجال بُناگیا جسے عام آدمی کاٹ نہ سکا اس میں الجھ کر اپنوں ہی نے اپنوں کے سر کاٹ دئے اور صدیوں کی محبت کی تاریخ ملیا میٹ ہوگئی اور وہ بھیانک ماحول تیار ہوا جو چاہت اور خواہش تھی سیاسی جماعتوں کی، 28اگست 2013کی واردات اتنی خطرناک صورت اختیار کرے گی کسی کے وہم و گمان میں یہ بات آسکتی ہے۔ ایک شخص کی موت کے بعد اگر انتظامیہ نے سخت رویہ اختیار کیا ہوتا تو کیا معاملہ اتنا آگے بڑھتا؟ اور کوال کی ایک چنگاری پورے مظفرنگر کو خاکستر کرنے کے لئے کافی ہوتی؟ 7ستمبر کو اگر پنچایت کی اجازت نہ دی جاتی تو کیا انجام اتنا خون ریز ہوتا؟ ایک ویڈیو کے ذریعہ لوگوں کے جذبات مشتعل نہ کئے جاتے تو کیا نوبت یہاں تک پہنچتی؟ کہ 7ستمبر کو ہی 10افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں مگر بی جے پی اور سماجوادی نے وہخطرناک کھیل کھیلا جس کی زد میں ہزاروں زندگیاں آئیں۔ 70کے قریب افرادکی جانیں گئیں، بہت سے افراد دسمبرکی سرد راتوں کو بغیر چھت کے گذارنے پر مجبور ہوئے مگر دونوں پارٹیاں اپنے ووٹ بینک کو محفوظ و مضبوط کرنے کی تدبیریں کرتی نظر آئیں۔ انسانیت سے انہیں کوئی سروکار ہو ایسا محسوس نہیں ہوا۔ سماجوادی نے مسلمانوں کی لاشوں پر اپنا محل بنانے کی ناپاک کوشش کی تو بی جے پی نے غیر مسلموں کو یہ احساس کرایا کہ اگر بی جے پی کو اپناؤگے تو ایسی ذلت خواری سے بچ جاؤگے جس کا انہیں بھرپورفائدہ ہوا اور لوگوں کے جذبات بھڑکا کر انہوں نے اپنا الو سیدھا کر لیا اگر کوئی اس حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کرے گا تو امت شاہ کی شاملی کی تقریر ذہن پر دستک دے گی اور اسے حق کا احساس کرائے گی جہاں انہوں نے زہر اگلتےہوئے کہا تھا یہ انتخاب ہمارے ابھیمان اور ہماری ناک کا ہے۔ جو الفاظ اس پورے فساد کی پالیسی اور وجوہات کو بے غبار کرتے ہیں۔ عام آدمی مرا، بے گھر ہواا جیل کی کال کوٹھری میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوا اور اس کھیل کے بادشاہ مزے لوٹتے رہے۔ سنگیت سوم جیسے لیڈران پر راسوکا تو لگی لیکن ہوا کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ہاں بس اتنا ہوا کہ انسانوں کو مذہب کے نام پر بانٹ دیا گیا، فرقہ پرستی کو تقویت دی گئی، فرقہ پرستوں کو مضبوط کردیا گیا، لوگ انصاف کے لئے تل تل مرتے رہے، مگر انہیں انصاف کے نام پر ٹھگا گیا اور کسی بھی بڑے لیڈر پر کوئی جرمثابت نہ ہوسکا۔ ڈھائی سال گذر چکے مگر مظفر نگر فساد کے زخم ابھی مندمل نہیں ہوئے، ابھی ان پر مرہم نہیں رکھا گیا بلکہ وشنو سہایہ کی رپورٹ آنے کے بعد اس بات کا احساس ہو گیا کہ ایک انتخاب کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا اور دوسرے انتخاب کے لئے پھر مرے ہوئے سانپ کا استعمال، دوسرے طریقہسے انصاف کے نام پر لوگوں کا بیوقوف بنایا گیا چونکہ یوپی انتخاب سامنے ہے اور سماجوادی کی جوحالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیںہے۔ اگر چہ ایم ایل سی انتخاب میں انہیں بڑی کامیابی ہاتھ لگی مگر یہ عوام کے جذبات واحساسات کی آئینہ دارنہیں ہے جس کا احساس پارٹی کو ہے وشنو سہایہ کی رپورٹ کے آنے کاوقت اور رپورٹ اس بات کو چودھویں کے چاند کی طرح واضح کردیتی ہے کہ اس رپورٹ کا منشاء کیا ہے؟ عجیب وغریب انداز کی اس رپورٹ میں اگرچہ اکھلیش حکومت پر کچھ سوال اٹھائے ہیں مگر وہ سوال بھی سماجوادی پارٹی کے حق میں ہیں جن سوالوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ الزامات بھی کبھی کتنے فائدہمند اور اچھے لگتے ہیں۔ الزامات ہیں کہ پارٹی نے مسلمانوں کا ساتھ دیا اور جاٹوں کے ساتھ غیروں کا رویہ اختیار کیا جو جھگڑے کا اہم سبب گردانا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پورے معاملہ کا ٹھیکرا صرف دو لوگوں کے سر پھوڑا گیا اور اُن ہی کے خلاف کاروائی کی سفارش کی گئی،اس کے علاوہ کسی کے خلاف کاروائی کی سفارش نہیں کی گئی جو اس رپورٹ کے مقصد کو عیاں کررہی ہے پھر سے وہی طریقہ کارمسلمانوں کو یہ باور کرانا ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ہمارا اٹھنے والا قدم تمہارے حق میں ہوتا ہے۔ لیکن عام افراد کو بھی اب ہوش کے کان لینے چاہئیں اور سیاسی جماعتوں کے ان حربوں سے واقف ہونا چاہئے کہ وہ شدید ترین نقصان کا شکار ہو جاتے ہیں مگر پھر ٹھوکر کھائےجاتے ہیں اور کوئی ٹھوکر ان کے لئے نشانِ راہ ثابت نہیں ہوپاتی۔ مفاد پرست سیاسی جماعتیں ان کا استعمال کرتی رہتی ہیں، مذہبی عظمتیں پامال کراتی ہیں اور انسان گرتا چلاجاتا ہے۔ مظفرنگر فساد ہم لوگوں کے لئے سبق ہونا چاہئے اور ہر مفاد پرست و موقع پرست کو ہمیں متحد ہو کر اس کی اوقات یاد دلانی چاہئے تاکہ ملک آنے والے وقت میں اس طرح کے حالات سے دوچار نہ ہو۔ اگر ایسا نہ ہوا تو بارہا ایسے حالات سامنے ہوںگے۔ فرقہ پرست ملک کو جلا کر اپنی روٹیاں سینکتے رہیں گے اور عام انسان نقصانسے دوچار ہوتا رہے گا آپسی رنجشیں بڑھتی رہیں گی۔ ایک خاص ذہنیت کی ملک پر اجارہ داری ہوگی اور جمہوریت کا جنازہ اٹھ جائے گا۔ یہ سب اسباب عوامل ہمیں جگانے کے لئے کافی ہیں۔ اب تو عام انسانوں کو جاگنا ہی ہوگا۔ مذہب، مسلک کے دائرے سے آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا۔ آج جیسے مظفرنگر فساد سے انتخاب کی تیاری کی اور فیصلہ سے دوسرے انتخاب کی اس طرح کل بھی ہوگا اور مسلسل ہوتا رہے گا اس لئے آج ہی کیوں نہ نکیل کسی جائے اور سچے ہندوستانیہونے کا ثبوت پیش کیاجائے۔پوری رپورٹ میں صرف دو افراد پر کاروائی کی سفارش اسی رپورٹ کی پول کھولنے کے لئے کافی ہے۔ یہ توخدا جانتا ہے کہ مظفرنگرفساد کے مظلوم افراد کو صحیح معنوں میں انصاف کب ملے گا مگر اکھیلش حکومت کا یہ تیر نشانے پر لگتا ہے یا نہیں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا!

rahat ali siddiqui
About the Author: rahat ali siddiqui Read More Articles by rahat ali siddiqui: 82 Articles with 85019 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.