آج بروز اتوار بعد التراویح مدینہ منورہ میں حضرت قاری
بشیر مدرس الحرم النبوی الشریف کے یہاں ایک پرتکلف دعوت کا اہتمام تھا،جس
میں جامعۃ الرشید کے مفتی عبدالرحیم،مولانا محمد صادق،مولانا محمد عبد
الرحیم،نیٹ سیٹ کمپنی کےرفیع الدین فیصل وبرادران ِخورد،جمعیت تعلیم
القرآن کےانجم الطاف ،ڈاکٹر فریدشاہ (انڈس ہسپتال کراچی سے حال ہی میں جن
کا تقرر جامعہ طیبہ میں ہواہے) ودیگر احباب مدعو تھے۔
قاری بشیر سابق استاذ دارالعلوم کراچی گزشتہ تقریباً پچاس سال سے مسجد
نبویﷺ میں قراءاتِ عشرہ کے ایک مایہ ناز مدرس ہیں،حرمین شریفین کے موجودہ
بہت سے قراء وایمۂ کرام ان کے تلامذہ یا پھر تلامذۃ التلامذہ ہیں،راقم کو
بھی ان سے شرف تلمذکا فخر حاصل ہے،قریباً پینتیس ملکوں کے اسفار بھی کرچکے
ہیں،قاری صاحب اپنی ذات میں ایک مستقل درسگاہ اور مکتبۂ فکر ہیں،سعودی
عرب،حرمین اور اہلِ حرمین سےبے تحاشا محبت ان کی رگ وپے میں ہے،نظر لگ جانے
کے خوف سے ہر مہمان کوگھر پر نہیں لے جاتے،اس لئےمہمانوں کے لئے حرم کے
قریب ایک باقاعدہ دار الضیافہ کا انتظام کیا ہواہے،مہمان نوازی میں بھی
اپنی مثال آپ ہیں،جود وسخا جو اہل ِ مدینہ کی پہچان ہے،وہ صفت بحمد اللہ
ان میں نمایاں ہے،پوری انسانیت کی بھلائی بالخصوص اہلِ اسلام اوردینِ اسلام
کی سربلندی ان کی سوچ ہے،قرآنِ کریم تو وہ پڑھے اور سناکرے کوئی،ان کی ہر
بات میں دعوت کا پہلو نظر آتاہے،تبلیغی جماعت کے مولانا فاروق میمن مصافحے
کے لئے آگے بڑھے،تو فوراً قرآن اور اہل تبلیغ کے حوالے سے انہیں ایک
لیکچر سنادیا،ان سے فرمایا: جماعت میں قرآن کریم کی قراءت اور قرآن فہمی
پر زور دینے کی شدید ضرورت ہے،مولویوں کی بات آئی، تو کہنے لگے 95 فیصد کی
قراءت تو چھوڑیں ،فاتحہ بھی ٹھیک معیار پر نہیں ہے۔
کھانے کے بعد صرف ایک سوال کیاکہ مسلمانوں کے حالیہ انحطاط کی وجوہات کیا
ہیں؟سب نے اپنے اپنے انداز سے بات کی ،لیکن قاری صاحب نے سب کو اَن کمپلیٹ
قرار دیا،ہم سے پوچھا،تو عرض کیا، عربی زبان وادب سے دوری،کیونکہ:
ماہرچہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم۔إلا حدیثِ یار کہ تکرار می کنیم
اس کی کچھ تصویب فرمائی،بعد میں فون پر بتایا کہ آپ والے جواب کی مکمل
تأیید کرتاہوں،اورآپ نے کالا جبہ زیبِ تن کیا ہوتاہے،تو کل آپ کے لے یکدم
سفید جبے کابھی کہاہے،یہ سب ان کی طرف سے ذرہ نوازی ہے ورنہ ‘‘من آنم کہ
من دانم’’۔بہرحال مفتی عبد الرحیم صاحب نے آگے بڑھکر عرض کیا: حضرت آپ ہی
فرمائیں،جواباً ارشادکیاکہ تین چیزوں نے امت کا ستیاس ناس کیا
ہواہے،(1)حرام وحلال کی عدم تفریق،(2) قرآن کریم کی صحیح تلاوت،سمجھ اور
اس پرعمل سے دوری ،(3) آپس میں ایسے اختلافات کہ دین کی سربلندی کے بجائے
اپنے اپنے فرقے کی دعوت اور مخالف نقطۂ نظر رکھنے والے کی کلّی تغلیط۔اب
اس پستی کا علاج یہ ہے کہ مسلمان ہر معاملے میں حلال کو ترجیح دیں،ورنہ
حرام لقمے کا نطفہ یقیناً حرام ہی ہوگا، اس طرح ہماری نسلیں برباد ہوجائیں
گی،گھروں میں لڑائیاں اور کاروبار میں بے برکتی عام ہوجائی گی،یہ بڑا سنگین
مسئلہ ہے، اسے بڑے اہتمام کے ساتھ لینا ہوگا۔
قرآن کریم پوری انسانیت کو راہِ راست پر لاسکتاہے،آج انسانیت کو امن
وسکون چاہئیے جو قرآن کریم میں ہے،اسے ہم ہی نے پس پشت ڈالا ہوا ہے، قیامت
کے دن اللہ کا حبیبﷺ ہماری یہ شکایت بارگاہِ إلٰہی میں کریں گے،تومجھے
بتایاجائے کہ کیا یہ امت کے حق میں مناسب ہوگا!!!!
قرآن کے حروف، تلاوت،ترجمہ،تفسیر،لب ولہجہ سب پر کماحقہ توجہ دینے کی
ضرورت ہے،انہوں نے کہا کہ میں قسم کھاکر کہتاہوں کہ سعودی عرب کی کامیابی
تیل میں ہے نہ کسی اور چیز میں،ان کی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو
سینوں سے لگایا ہوا ہے،یہاں قرآن کے زمزمے ہیں،بادشاہ حافظ ِ قرآن
ہے،حرمین کی خدمتوں کی انتہاء ہے،اسی طرح اگر پورا عالم اسلام قرآن پر
توجہ دے،تو کوئی وجہ نہیں کہ سب کے سب مسلمان ہرجگہ معزز ومکرم ہوں،پاکستان
نے اپنے نصاب میں ناظرہ وترجمۂ قرآن کو لازم کر کے اچھا قدم اٹھایا
ہے،میری دعاء ہے کہ وہاں کی حکومت اس میں سرخ رو ہو۔
اختلافات کا مسئلہ اتنا گمبھیر ہوگیا ہے کہ تمام اسلامی اکائیاں باہمی گتھم
گتھا ہیں،سب دست بگریباں ہیں،یہاں تک کہ کچھ دھڑلے سے اپنے علاوہ سب کی
تکفیر کرتے ہیں،نفاق ،شقاق اور سوئے اخلاق کا بھی اس میں بڑا عمل دخل
ہے،ہمارے پاس ایک سچا پیغامِ اسلام موجود ہے ،جس کی پوری دنیا پیاسی
ہے،ہمارا نبیﷺ سب کے لئے رسول ِ رحمت ہیں،قرآن سارے عالم کے لئے کتابِ
ہدایت ہے،دنیا میں کچھ بھی تیار ہوتاہے،وہ لوگ ہمیں دیتے رہتے ہیں،ہمارے
پاس قرآن کی صورت میں اتنی بڑی نعمت ہے،ہم ‘‘ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں
گے’’ پر عمل پیرا ہیں ،باہمی جھگڑوں کی وجہ سے نہ خود اس پر توجہ دیتے ہیں،
نہ ہی اگلوں تک پہنچانے کے لئے نت نئے اسباب اختیار کرتے ہیں، گویاہم
مسلمان خودہی غیر مسلموں کے مشرف باسلام ہونے میں سب سے بڑی رکاؤٹ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امت کو تربیت کی ضرورت ہے، لوگ نصابوں کے بنانے پر لگے
ہوئے ہیں،ارے بھائی !دین ودنیا کے جونصاب فی زمانہ موجود ہیں ان میں معمولی
کمی بیشی کی اگر ضرورت ہے ،تو کی جائے،اصل میں نصاب کے بجائے تربیت پر زور
دیا جائے ،ہمارے یہاں سعودی عرب میں ‘‘وزارۃ التربیۃ والتعلیم’’کے نام سے
پتہ چلتاہے کہ تربیت پہلے ہونی چاہئیے،چلیں اگر پہلے نہ سہی تو کم از کم
تربیت وتعلیم ساتھ ساتھ ہونا از حد ضروری ہے،ہمارے اداروں میں بھی تمام
کلیات کا اہتمام کیاجاناچاہیئے،نیزانفارمیشن کے اس طوفانی دور میں ٹی وی
اور چینلز کا إجراء بھی ہو۔
قاری بشیر صاحب علامہ بنوری ،مفتی محمود، إمام الأدب العربی الشیخ ابوالحسن
علی الحسنی الندوی ،علامہ إحسان إلٰہی ظہیر شہیداور حضرت مولانا محمد یوسف
لدھیانوی شدی کے بڑے مداح ہیں،کہہ رہے تھے کہ پاک وہند کے علماء ان کے نقشِ
قدم پے چل کر عرب دنیا سے محبت کے تعلقات قائم کرسکتے ہیں،کہا کہ انہوں نے
ہمیشہ خلیج کے معاملات میں اہلِ خلیج کی حمایت وتایید کی،مفتی محمد تقی
عثمانی سے توانہیں بے پناہ محبت ہے۔
یہاں مدینہ منورہ میں ان کے علاوہ بھی کئی دوستوں نے دعوتوں،ہدایا وتحائف
اور مختلف انداز میں اپنی محبتوں کا إظہارکیا، جن میں شیخ ابوسلمان
المدنی،شیخ اصغر شاہ المدنی،مولانا محب اللہ خواجہ،شیخ خالد محمود
انصاری،شیخ عدنان خان اور حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب کے جملہ متعلقین ،اللہ
تعالٰی سب کو بہترین جزائے خیر نصیب فرمائے۔
|