خلیفۂ دوم ۔۔۔ حضرت عمر فاروقؓ
(DR.IZHAR AHMAD GULZAR, Faisalabad)
صدر ذی وقار ، محترم حاضرین رحمتہ
للعالمین ، شفیع المذنبین ، ہادی برحق ، نبی آخر الزماںﷺ کے بعد عدل و
انصاف کے معاملے میں جو شہرت سیدنا عمر فاروقؓ کے حصے میں آئی ، وہ اسلامی
تاریخ کا روشن باب ہے۔ حضرت فاروق اعظمؓ کا نظام حکمرانی عدل و انصاف کی
بالادستی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اس دور سے تا قیام قیامت
دُنیا کی راہ نمائی کرتا رہے گا اور اقوام عالم اس دور کی نظیر و مثال لانے
سے قاصر رہیں گے کہ امیر المومنین اور ایک عام مسلمان ایک قاضی کے سامنے
ایک ہی کٹہرے میں کھڑے ہیں ، حاکم وقت اونٹ کی مہار پکڑے چل رہا ہے اور
غلام اونٹ پر سوار ہے، عرب و عجم کا حکم راں رات کے اندھیرے میں اشیائے صرف
سے بھری بوری اپنے کندھے لادے ، ایک عورت اور بچوں کی بھوک کو پورا کرنے کے
لیے دوڑتا ہوا جا رہا ہے۔ سیدنا حضرت عمر فاروقؓ نے عدل و انصاف کا جو
نمونہ دُنیا کو دکھایا، وہ تاریخ میں ہمیشہ روشن رہے گا۔ امیر المومنین
سیدنا عمر فاروقؓ نے نہایت اعلیٰ عدالتی نظام قائم کیا جس میں امیر غریب ،
اپنے بیگانے ، مسلم و غیر مسلم ہر فرد کے ساتھ پورا پورا انصاف ہوتا تھا۔
انہوں نے ملک کے ہر حصے میں بڑے لائق ، ذہن، معاملہ فہم ، صاحب فراست ، دین
کے عالم اور اﷲ سے ڈرنے والے قاضی مقرر کیے اور ان کی بڑی بڑی تنخواہیں
مقرر کیں۔
حضرت عمر فاروق ؓ کے دور حکمرانی میں صوبوں یا ضلعوں کے حاکموں کو قاضی
مقرر کرنے کا پورا اختیار حاصل تھا، لیکن اکثر قاضیوں کو حضرت عمرؓ خود
مقرر فرماتے۔ یہ ایسے لوگ ہوتے تھے جن کے بارے میں حضرت عمرؓ خود کو پورا
اطمینان ہو کہ وہ علمی تبحر ، قابلیت ، پرہیز گاری اور دیانت داری، ہر لحاظ
سے قاضی بننے کے اہل ہیں۔ حضرت شیح بن حارثؓ تاریخ اسلام کے مشہور قاضی
گزرے ہیں۔ انہیں حضرت عمرؓ نے ہی کوفے کا قاضی مقرر کیا تھا، قاضی بننے سے
پہلے ان کے علم ، دانائی اور پرہیزگاری کی اتنی شہرت تھی کہ لوگ اپنے
جھگڑوں میں ان کو ثالث اور منصف بنایا کرتے تھے ، وہ جو فیصلہ کرتے لوگ اسے
بخوشی قبول کر لیتے۔
جناب والا! ایک دفعہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک شخص سے ایک گھوڑا اس شرط پر
خریدا کہ اگر یہ آزمائش میں پورا اُترا ، تو رکھ لوں گا ، یعنی گھوڑا ان
خوبیوں کا حامل ہو گا، جو وہ چاہتے ہیں تو رکھ لیں گے ، ورنہ واپس کر دیں
گے۔انہوں نے گھوڑا ایک سوار کو آزمائش کے لیے دیا، گھوڑا سواری میں چوٹ کھا
کر زخمی ہو گیا۔ حضرت عمرؓ نے اسے واپس کرنا چاہا ، لیکن بیچنے والے نے یہ
کہہ کر واپس لینے سے انکار کر دیا کہ میں نے زخمی گھوڑا آپ کے ہاتھ نہیں
بیچا تھا۔ جب اس بات پر اختلاف ہوا تو فیصلے کے لیے شریح بن حارثؓ کو مقرر
کیاگیا ، انہوں نے فیصلہ دیا۔ ’’امیر المومنین ، جو گھوڑا آپ نے خریدا ہے
اسے رکھ لیجیے یا جس حالت میں خریدا تھا، اسی حالت میں واپس کیجیے ، امتحان
لینے کا یہ مقصد نہیں کہ اسے عیب دار کر کے واپس کیا جائے۔ ‘‘ یہ فیصلہ
حضرت عمرؓ کے خلاف تھا، لیکن وہ اسے سن کر اتنا خوش ہوئے کہ حضرت شریح ؓ کو
کوفے کا قاضی مقرر کیا اور انہوں نے اپنے فرائض ایسی فراست اور قابلیت سے
دیے کہ بعد کے حکمرانوں نے بھی انہیں اس عہدے پر قائم رکھا اور وہ ساٹھ سال
قاضی کے عہدے پر رہے۔
جناب والا! عدل و انصاف سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے نظام حکمرانی کا سب سے
نمایاں وصف ہے۔ ان کے پورے عہد حکمرانی میں عدل و انصاف سے ذرہ برابر تجاوز
نہیں ہوا۔ اس معاملے میں شاہ و گدا ، سب ہی کے لیے ایک ہی قانون تھا۔ ایک
دفعہ مصر کے گورنر حضرت عمر و بن العاصؓ کے صاحب زادے عبداﷲ نے ایک مصری
شخص کو بے وجہ مارا، وہ مدینہ منورہ حضرت عمرؓ کے پاس شکایت لے کر پہنچا ،
آپؓ نے فوراً عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ کو طلب کیا اور تحقیق کے بعد جب ثابت
ہوا کہ مصری کی شکایت درست ہے تو اسی مصری شخص سے حضرت عبداﷲ کو کوڑے
لگوائے ، اس موقع پر حضرت عمر و بن العاصؓبھی موجود تھے۔
شام کا ایک نام ور فرماں روا جبلہ بن ایہم غسانی مسلمان ہو گیا تھا، طواف
میں اس کی چادر کا کونہ ایک شخص کے پاؤں کے نیچے پڑ گیا، جبلہ نے اسے تھپڑ
مارا، اس شخص نے برابر کاجواب دیا، جبلہ نے حضرت عمرؓ سے شکایت کی۔ آپؓ نے
فرمایا، تم نے جیسا کیا ویسا پایا، جبلہ نے جوش سرداری و حکمرانی میں کہا’’
ہم وہ ہیں کہ ہم سے اگر کوئی شخص گستاخی سے پیش آئے تو وہ قتل کا سزاوار
ہے۔‘‘ حضرت عمرؓ نے فرمایا ، ہاں ، جاہلیت میں ایسا ہی تھا ، لیکن اسلام نے
پست و بلند کو ایک کر دیا ، جبلہ نے کہا، اگر اسلام ایسا مذہب ہے ، جس میں
صاحب رتبہ اور عام آدمی کا امتیاز نہیں تو میں اس سے باز آتا ہوں ، لیکن
حضرت عمرؓ نے اس کی مطلق پروا نہیں کی۔
صدر ِمحترم کسی بھی حکومت کے عدل و انصاف کے جانچنے کا سب سے بڑا معیار ہے
کہ غیر قوموں کے ساتھ اس کا طرز عمل کیا ہے اور اسے حکومت میں کیا حقوق
حاصل ہیں۔ اس معیار سے عمرؓ کا نظام حکمرانی عدل و انصاف کا بہترین نمونہ
تھا۔ عرب کی ہمسایہ دو حکومتیں تھیں، روم اور فارس ۔ یہی دونوں حکومتیں عہد
فاروقیؓ میں اسلام کے زیر نگیں ہوئیں۔ ان حکومتوں کا طرزِ عمل خود اپنی قوم
و رعایا کے ساتھ غلاموں سے بدتر تھا، تو دوسری ماتحت اقوام کا کیا ذکر ،
لیکن جب یہی قومیں اسلام کے ماتحت ہوئیں تو دفتعاً ان کی حالت بدل گئی اور
انہیں ہر طرح کے جائز حقوق اور آزادی عطا کی گئی۔
کسی قوم کے حقوق تین چیزوں سے متعلق ہوتے ہیں، جان ، مال اور مذہب ۔ ان کے
سوا اور جتنے حقوق ہیں، وہ سب ان ہی تین حقوق کے ماتحت آتے ہیں، سیدنا
فاروق اعظمؓ نے تمام مفتوحہ قوموں کے ان بنیادی حقوق کو محفوظ قرار دیا،
بیت المقدس کے عیسائیوں کو ازروئے معاہدہ جو حقوق دیے، وہ یہ تھے۔ ’’یہ وہ
امان ہے جو کدا کے غلام امیر المومنین عمرب نے اہل ایلیا کو دی۔ یہ امان
جان و مال ، گرجا، صلیب ، تندرست ، بیمار اور ان کے تمام اہل مذہب کے لیے
ہے، نہ ان کے گرجاؤں میں سکونت اختیار کی جائے گی ، نہ وہ ڈھائے جائیں گے ،
نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال
میں کچھ کمی کی جائے گی ، مذہب کے بارے میں ان پر جبرنہ کیا جائے گا ، نہ
ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ ‘‘
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ راستے سے گزر رہے تھے ،دیکھا ایک بوڑھا نابینا
بھیک مانگ رہا ہے۔ آپؓ نے اس کا شانہ پکڑ کر دریافت فرمایا ، تم کس مذہب سے
تعلق رکھتے ہو؟ اور بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں یہودی
ہوں ، معذوری و محتاجی اور جزیہ ادا کرنے کے لیے بھیک مانگ رہا ہوں۔ حضرت
عمرؓ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے آئے اور جو کچھ دینا تھا دے دیا اور
بیت المال کے نگراں کو بلا کر حکم دیا’’ اس شخص کو اور اس قسم کے دیگر
لاچار غیر مسلم لوگوں کو تلاش کرو ، بخدا، ہم انصاف کرنے والے نہیں ہو سکتے
کہ ان کی جوانی کی کمائی( جزیہ) تو کھائیں اور پڑھاپے کے وقت انہیں بھیک
مانگنے کی ذلت میں مبتلا کر دیں ‘‘ بعدازاں حضرت عمرؓ نے اس شخص کا اور اس
طرح کے تمام نادار اہل کتاب کا جزیہ ساقط کر دیا۔
حاضرین کرام ہر ذی روح کی بنیادی ضروریات اور اس کے بنیادی حقوق کا تحفظ
سیدنا عمر فاروقؓ کے نظام حکمرانی کی بنیاد تھا کہ ان کی مملکت کی حدود
اربعہ میں رہنے والا ہر ذی روح بنیادی حقوق سے محروم نہ رہے ، چاہے وہ مسلم
ہو یا غیر مسلم ، یہاں تک کہ وہ جانوروں کے حقوق کے بھی محافظ تھے۔ سیدنا
حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مرتبہ شیر خوار بچے کو ماں کی گود میں روتے ہوئے
دیکھا ، تو اس کی ماں کو تاکید کی کہ بچے کو بہلائے۔ کچھ دیر بعد پھر ادھر
سے گزرے تو بچے کو پھر روتا پایا تو غصے میں اس کی ماں سے کہا تو بڑی بے
رحم ماں ہے۔ اس نے کہا تم کو اصل حقیقت نہیں معلوم بلاوجہ مجھے ڈانٹتے ہو۔
بات یہ ہے کہ عمرؓ نے حکم دیا ہے کہ جب تک بچے دودھ نہ چھوڑیں ، اس وقت تک
بیت المال سے ان کا وظیفہ مقرر نہ کیا جائے۔ میں اس وجہ سے اس کا دودھ
چھڑانا چاہتی ہوں ، لہٰذا یہ رو رہا ہے ۔ حضرت عمرؓ پر رقت طاری ہو گئی اور
فرمانے لگے اے عمر، تو نے کتنے بچوں کا خون کیا ہو گا اور اسی اعلان کرا
دیا کہ بچے جس دن پیدا ہوں تو اسی دن سے ان کے روزینے مقرر کر دیے جائیں۔
عہد فاروقی ؓ میں گم نام اور لاوارث بچوں کے حقوق کی ذمے داری بیت المال کے
ذمے ہوتی ، لہٰذا جب کوئی بچہ جس کا باپ نہ ہوتا یا جسے کسی راہ گزر پر ڈال
دیا جاتا تھا تو اسے امیر المومنین فاروق اعظمؓ کی خدمت میں لایا جاتا ، آپ
اس کے لیے سو درہم مقرر کر تے اور اس کی خوراک اور دوسرے مصارف کے لیے جتنے
مال کی ضرورت ہوتی ، مقرر کرتے ، اس کا مقرر کردہ سرپرست ہر ماہ وظیفہ آکر
لے جاتا۔ امیر المومنین ایسے بچوں کو سال کے سال جا کر دیکھتے اور ان کے حق
میں محسن سلوک کی ہدایت کرتے۔ فاروق اعظمؓ کا حکم تھا کہ مملکت میں جو بھی
نادار، غریب ، معذور اور اپاہج لوگ ہوں ، ان سب کے لیے سرکاری خزانے سے
وظیفے مقرر کیے جائیں۔
محترم سامعین سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے نظام حکمرانی کی سب سے بڑی خوبی یہ
تھی کہ عدل و انصاف کے ساتھ مملکت میں بسنے والے ہر باشندے کو سماجی تحفظ
حاصل تھا، کوئی بھی شخص بنیادی حقوق سے محروم نہ تھا۔ ہر ایک کو سماجی
کفالت حاصل تھی اور اس میں عربی، عجمی ، چھوٹے ، بڑے ، آزاد، غلام ، مرد ،
عورت ، شہری ، دیہاتی اور مسلم و غیر مسلم کی کوئی تمیز نہ تھی، غیر مسلموں
کی بھی بے دریغ امداد کی جاتی تھی۔
اگر ہم سیدنا فاروق اعظم ؓ کے نظام حکمرانی کا جائزہ بنیادی حقوق کے حوالے
سے لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ہی سب سے پہلے باقاعدہ بیت المال یعنی
محکمہ ٔ خزانہ قائم کیا ، عدالتیں قائم کیں اور قابل و دیانت دار قاضی مقرر
کیے ۔ اگر مسلم حکمراں دورِ فاروقیؓ کو عدل و انصاف اور بنیادی حقوق کے
تحفظ کے حوالے سے رول ماڈل بنا لیں تو آج مسلم دُنیا سے نہ صرف غربت و
افلاس ، ظلم و ستم اور پریشانیوں کا خاتمہ ہو گا، بلکہ ہم آگے بڑھ کر
دوسروں کی مدد کریں گے، قرضوں کے بوجھ سے آزاد ہوں گے۔
|
|