انسانیت کے علمبردارعبدالستار ایدھی الوداع
(Syed Anwer Mahmood, Karachi)
آیئے ملکر انسانیت کے علمبردارعبدالستار ایدھی کو الوداع کریں اور دعا کریں کہ ایدھی فاؤنڈیشن اسی طرح انسانیت کی خدمت کرتی رہے جس طرح سے وہ ایدھی صاحب کی قیادت میں کرتی رہی ہے۔ اللہ تعالی عبدالستار ایدھی مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور اُنکے لواحقین اورچاہنے والوں کو صبر عطافرمائے، آمین۔ |
|
|
انسانیت کے علمبردارعبدالستار ایدھی |
|
انسانیت کے
علمبردارعبدالستارایدھی بروز جمہ آٹھ جولائی 2016 انتقال کرگئے، پوری قوم
اُن کےلیے غمگسار ہے۔ وہ 1928ء کو بھارت کے شہر گجرات میں بانٹوا نامی گاؤں
میں پیدا ہوئے۔ بانٹوا میں زیادہ تر افراد کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا اور
ذریعہ معاش کاروبار تھا۔ چار بھائی اور دو بہنیں تھیں لیکن سب سے چھوٹے
بھائی عزیز کے علاوہ سب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ والدین کی تربیت کے باعث بچپن
سے ہی سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے لیکن خاطر خواہ تعلیم حاصل
نہ کر سکے۔ کہتے تھے کہ وہ شرارتوں کے باعث تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ رمضان
اور عیدین کے مواقع پر اُنکی والدہ اور دیگر میمن خواتین کھانے پینے کی
چیزوں کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ تیار کرتیں جنہیں غریبوں میں تقسیم کرنے کی ذمہ
داری بھی انہیں ہی سونپی جاتی ۔ انہوں نے بتایا کہ والدہ کی تربیت کے باعث
اکثر وہ بانٹوا کے گلی کوچوں میں گھومتے رہتے اور اگر کوئی معذور یا اپاہج
نظر آ جاتا تو اس کی مدد کرتے۔
عزت اور ذلت دینے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے، مگر یہ عزت اور ذلت ہمیں
ہمارئے اعمال کے بدلے میں ملتی ہے۔ یہ 1986ء کی بات ہے اس وقت پاکستان میں
صرف سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی ہوا کرتا تھا۔ پی ٹی وی ہر سال ایوارڈ کی
ایک تقریب کیا کرتا تھا۔ پی ٹی وی پر آخری ایوارڈ کی تقریب بھی 1986ء میں
ہوئی تھی۔ اسلام آباد کمپلیکس میں ہزاروں لوگ موجود تھے، بڑی بڑی شخصیات اس
تقریب میں موجود تھیں۔ انور مقصود اس تقریب کے کمپیر تھے۔ تقریب کے دوران
انور مقصودمختلف شخصیات کو جن میں وزرا بھی تھےاسٹیج پر بلاتے اور کمپلیکس
میں بیٹھے ہوئے لوگ اُن کی آمد پر تالیاں بجاتے۔ یہ پروگرام براہ راست
دکھایا جارہا تھا۔ پروگرام کے آخر میں انور مقصود نے ایک شخصیت سے اسٹیج
پر آنے کی درخواست کی، اعلان کا ہونا تھا کہ وہاں موجود ہر شخص کھڑا ہوگیا
اور تقریبا دس منٹ تک وہاں موجود لوگ اُس شخص کے احترام میں کھڑئے
ہوکرتالیاں بجاتے رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اُس وقت تک اتنی عزت کسی شخصیت
کو نہیں ملی تھی اور نہ آج تک ملی ہے۔ وہ عظیم شخصیت محترم عبدالستار ایدھی
تھے۔
پاکستان بننے کے بعد اُنکے والد نے کہا کہ ہمیں بہتر مستقبل کیلئے پاکستان
چلے جانا چاہیے اور اُنہوں نے برادری کے بہت سے لوگوں کو اس بات پر آمادہ
کیا ۔ چھ ستمبر 1947 کو میمن برادری کے چار ہزار افراد کے ساتھ پاکستان
کےلیے روانہ ہوئے، اس دوران پانچ روز تک سوکھی روٹی کھا کر گذارہ کرنا پڑا
اور کشتیوں میں بیٹھ کر براستہ بحرہ عرب کراچی کے ساحل پر پہنچے ۔اس وقت ان
کی عمر بائیس سال تھی ۔ کچھ عرصہ ملیر میں رہنے کے بعد اُن کے والد نے
جوڑیا بازار کے ساتھ چھاپہ گلی میں ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر لے لیا ۔میٹھادر
میں ایک 13 سو روپے کا ٹکڑا لیا جو ابھی ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی کے نام پر
ہے جبکہ ان کے نام صرف چھاپہ گلی کا ایک مکان ہے جس سے ان کے والدین کا
جنازہ اٹھایا گیا تھا۔ بچپن سے ایمبولینس چلاناان کا شوق تھا کیونکہ اس سے
بہت اچھے کام ہوتے ہیں ۔
عبدالستارایدھی نے1951ء میں اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور
اسی دکان میں ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی جنہوں نے اُن کو
طبی امداد کی بنیادات سکھائیں۔ ایدھی نے ہمیشہ سادہ طرز زندگی کو اپنایا
اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر مدد
کو پہنچ سکیں۔ 1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس
پر ایدھی نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے
لگوائےاورمفت مدافعتی ادویہ فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے اُنکی دل کھول کر مدد
کی۔ امدادی رقم اتنی زیادہ تھی کہ انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں
ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لیے سینٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے
سکول کھول لیا، اور یہی ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز تھا۔
آنے والوں سالوں میں ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں تک بھی پھیلتی
گئی۔ فلو کی وبا کے بعد ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو کافی بڑی رقم کی
امداد دی جس سے انہوں نے ایک ایمبولینس خریدی جس کو وہ خود چلاتے تھے۔
ایدھی فاؤنڈیشن رجسٹرڈ نہیں، تاہم اس حوالے سے حیدر آباد کی ایک عدالت میں
دو صفحات پر مشتمل ڈکلریشن کیلئے ایک درخواست جمع کروائی گئی تھی جو گجراتی
میں تحریرکی گئی اور اس میں اپنے مقاصد سے آگاہ کیا گیاتھا۔ عدالت نے
ڈکلریشن دے دی۔ دنیا کے بارہ بڑے شہروں میں ایدھی سینٹرز ہیں۔ پاکستان میں
ہی 375 سینٹرز ہیں۔ سیاچین سے لیکر نگر پارکر تک ایدھی کی سولہ سو
ایمبولینسز کام کر رہی ہیں۔ 1997ء گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق ایدھی
فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس ہے۔
سات ہزار ملازمین کا روز گار اس ادارے سے وابستہ ہے ۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے
کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے،
لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور سکول کھولے ہیں۔ اسکے
علاوہ یہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔ ایدھی مراکز
کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز کے باہر بچہ گاڑی کا اہتمام ہے
تا کہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کر جا
سکے۔ اس بچے کو ایدھی فاونڈشن اپنے یتیم خانہ میں پناہ دیتی ہے اور اُسکو
مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
ایدھی صاحب ایمبولینس کے ذریعے مریضوں کو گھر سے اسپتال اور اسپتال سے گھر
منتقل کرتے تھے۔ ریڈکراس اور سین جون بھی گئے اور ان کے لائیو ممبر بھی
بنے۔ اس دوران ادارے کو پیسے مل بھی رہے تھے اور مستحقین میں ان کی تقسیم
بھی جاری تھی۔ قربانی پر لوگ جانوروں کی کھالیں بھی جمع کروا رہے تھے۔35 ،
35 ہزار کھالیں جمع ہوگئیں۔ رمضان المبارک میں فطرہ بھی دیا جا رہا تھا،
لہذا انسانیت کی خدمت دن بدن بڑھتی گئی ۔ عبدالستارایدھی کو کافی ایوارڈز
ملے جس میں شیخ زیدبن سلطان ایوارڈ بھی شامل ہے جس کی مالیت دس لاکھ روپے
ہے۔ تمام ایوارڈ ز کی مالیت تقریبا 32 کروڑ روپے ہے۔ ذاتی جائیداد میں
میٹھادر والا مکان جو شروع میں تیرہ سو روپے کا خریدا گیا تھا وہ بلقیس
ایدھی کے نام پر ہے جبکہ چھاپہ گلی والا چھوٹا سا مکان جس سے والدین اور
بہن بھائی کا جنازہ اٹھا تھا ان کے نام پر ہے ۔ ایدھی ٹرسٹ کے اخراجات گھر
سے بالکل الگ ہیں اورٹرسٹ کا ایک پیسہ بھی وہ ذاتی طور پر استعمال نہیں
کرتے تھے۔ گھر کے خرچے کیلئے، پہلے دکانیں تھیں وہاں سے بھی کرایہ آتا تھا،
اگر اخراجات سے کچھ پیسہ بچتا ہے تو وہ بھی ایدھی ٹرسٹ میں ڈال دیا جاتا ہے
۔
ایدھی فاونڈیشن نے صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی
ترقی کی ہے۔ اسلامی دنیا میں ایدھی فاؤنڈیشن ہر مصیبت اور مشکل وقت میں اہم
مدد فراہم کرتی ہے۔ جہاں امداد اور نگرانی ایدھی بذات خود متاثرہ ممالک میں
جا کر کرتے تھے۔ پاکستان کے علاوہ ایدھی فاونڈیشن نے جن ممالک میں کام میں
کام کیا ہے ان میں سے چند ممالک افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان،
ایتھوپیا اور قدرتی آفت سماٹرا اندامان کے زلزلہ (سونامی) سے متاثرہ ممالک
ہیں۔ 16 اگست 2006ء کو ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کے قیام کااعلان
کیا گیا۔ جس کے تحت دنیا کے امیریاغریب ہویا دنیا کا کوئی بھی ملک امریکہ،
یو کے، اسرائیل، شام، ایران، بھارت، بنگلہ دیش ہوں میں یہ ایمبولینس بطور
عطیہ دی جا رہی ہے اورانہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان ایمبولینس کو 5 سال
تک استعمال کرنے کے بعد فروخت کرکے اس کی رقم خیراتی کاموں میں استعمال
کریں۔ جبکہ ایدھی انٹرنیشنل ایمبولینس فاؤنڈیشن کی ایمبولینسیں دنیا بھرمیں
انسانوں کی جانیں بچائیں خواہ وہ لندن، نیویارک، ٹوکیو، تل ابیب، بیروت
اوردمشق ہوں۔
پاکستان میں انسانیت عبدالستار ایدھی سے شروع ہوتی ہے۔
88 سالہ
عبدالستار ایدھی نہیں جانتے تھے کہ پیسے کے پیچھے بھاگنا کیا ہوتا ہے، کبھی
کسی حکومت سے امداد نہیں لی، صرف عوامی تعاون سے 65، 66 سالوں سے ایک ایسا
رفاہی ادارہ چلا رہےتھے جس کا اب سالانہ خرچ تقریبا ایک ارب روپے ہے تاہم
آمدنی اس سے دوگنی ہے اور یہ ادارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہے ۔۔ سادہ اتنے
تھےکہ بتاتےتھے کہ ادارے میں امدادی رقم ڈبل آتی اور سنگل خرچ ہوتی ہے۔ نڈر
ایسے تھے کہ کوئی پروٹوکول نہیں، بدترین حالات میں بھی کوئی سیکیورٹی حصار
نہیں۔ بلوچستان گئے تو ڈاکو تائب ہوگئے، فنڈز دیئے ۔ شمالی وزیرستان گئے تو
طالبان نے بے لوث رہنما مان لیا اور ڈھیروں امداد دیکر بحفاظت روانہ کیا۔
کوئی خوف نہیں کوئی لگی لپٹی نہیں۔ ۔۔ اور سب سے بڑھ کر سراہے جانے کی کوئی
تمنا بھی نہیں تھی۔ پاکستان کے علاوہ اسلامی دنیا میں بھی عبدالستار ایدھی
نے ایک غیر خود غرض اور محترم شخص کے طور شہرت پائی تھی، شہرت اور عزت کے
باوجود انہوں نے اپنی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا، وہ سادہ روائتی پاکستانی
لباس پہنتے تھے، جو صرف ایک یا دو انکی ملکیت تھے، اسکے علاوہ انکی ملکیت
کھلے جوتوں کا ایک جوڑا تھا۔
آج ایدھی فاؤنڈیشن ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ عبدالستار ایدھی مستقبل کی طرف
دیکھتے ہوئےکہتے تھے کہ وہ پاکستان کے ہر 500 کلو میٹر پر ہسپتال تعمیر
کرنا چاہتے ہیں۔ا گرچہ اُنکو احترام کے طور پر مولانا کا لقب دیا گیا ہے
لیکن وہ ذاتی طور پر اس کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر
کہلوانا پسند کرتے تھے، کیونکہ انسانیت کی خدمات پر پاکستان میں انسٹیٹوٹ
آف بزنس ایڈمنسٹریشن نے اُنکو ڈاکٹری کی اعزازی سند دی تھی۔ وہ اس بات کو
بھی سخت ناپسند کرتے تھے جب لوگ اُنکی یا اُنکے کام کی تعریف کرتے
تھے۔1996ء میں انکی خودنوشت سوانح حیات شائع ہوئی۔ ایدھی بذات خود بغیر
چھٹی کیے طویل ترین عرصہ تک کام کرنے کے عالمی ریکارڈ کے حامل ہیں اور
ریکارڈ بننے کے بعد بھی ابھی تک انہوں نے چھٹی نہیں لی تھی۔ لیکن اب
عبدالستار ایدھی ہمیشہ کےلیے چھٹی پر چلے گے ہیں۔ آیئے ملکر انسانیت کے
علمبردارعبدالستار ایدھی کو الوداع کریں اور دعا کریں کہ ایدھی فاؤنڈیشن
اسی طرح انسانیت کی خدمت کرتی رہے جس طرح سے وہ ایدھی صاحب کی قیادت میں
کرتی رہی ہے۔ اللہ تعالی عبدالستار ایدھی مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور
اُنکے لواحقین اورچاہنے والوں کو صبر عطافرمائے، آمین۔ |
|