اچکزئی کا بیان، خطرے کی علامت
(Roshan Khattak, Peshawar)
پختونخوا ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ
محمود خان اچکزئی نے افغانستان ٹا ٰئمز کو انٹر ویو دیتے ہو ئے کہا ہے کہ
خیبر پختونخوا فغانستان کا حصہ ہے اور افغان مہاجرین جب تک چا ہیں، بِلا
خوف و خطر خیبر پختونخوا میں رہ سکتے ہیں۔پاک افغان سرحدی تنازعہ کے سوال
پر محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ بہتر ہے کہ پاکستان اور افغانستان آپس
میں مل کر یہ مسئلہ حل کریں ورنہ چین اور امریکہ دو ہفتے میں یہ مسئلہ حل
کر لیں گے۔،، محمود خان اچکزئی کے اس بیان پر الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا
اور سوشل میڈیا پر کافی شور مچا اور اچکزئی صاحب کو سخت تنقید کا نشانہ
بنایا گیا ۔،ہونا بھی چا ہیئے تھا کیونکہ یہ کو ئی معمولی بات نہ تھی ۔بے
شک تمام پشتون بنیادی طور پر افغان ہی ہیں اگر اچکزئی صاحب پشتون قوم کو
افغان کہتے تو کو ئی مضائقہ نہیں تھا مگر خیبر پختونخوا کو افغانستان کا
حصہ قرار دینا نہایت تشویشناک بات ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ڈیو رنڈ لائن
کو عالمی طور پر بین الاقوامی سرحد تسلیم کیا جا چکا ہے اور پاکستان کے قوم
پرست جماعتوں نے بھی پاکستان کے موجودہ وجود کو تسلیم کیا ہے۔اندریں حالات
اس قسم کے بیان کا مقصد کیا ہے؟ اس بیان کے پسِ پردہ کیا مضمرات پو شیدہ ہو
سکتے ہیں ؟ کیونکہ اس قسم کے بیانات دئیے نہیں جاتے بلکہ دِلوائے جاتے ہیں
اور عموما ایسے بیانات کسی منصوبے کاحصہ ہو تے ہیں اور یہ تب منظرِ عام پر
آتے ہیں ،جب تالاب میں پتھر پھینکنا مقصود ہو ۔
1971 میں سقوطِ ڈھاکہ سے پہلے ہم نے شیخ مجیب الرحمن، مولانا بھاشا نی جیسے
لوگوں کے زبانی اسی قسم کے بیا نات سنے تھے،جس سے علیحد گی کی بو آتی تھی ۔اس
وقت کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ پاکستان دو ٹکڑے ہوگا اور
مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنے گا مگر پھر آخر وہی ہوا جس کی منصوبہ بندی
ہمارے دشمن ملک بھارت نے کی تھی ،پاکستان کا نقشہ ہی بدل گیا۔ ایسے منصوبہ
کے لئے عموما ان لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے جو نظریاتی طور پر اس پلان
کا حصہ آسانی سے بن سکے۔محمود خان اچکزئی ، عبدالصمد خان اچکزئی کے فرزند
ہیں، جو سیاسی طور پر عبدلغفارخان(باچاخان) کے دستِ راست تھے ،اگر
عبدالغفار خان کو سرحدی گاندھی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے تو عبدالصمدخان
کو بلوچ گاندھی کے نام سے یاد کیا جاتاہے، دونوں کانگرس کے ممبرز تھے ،
عبدالصمد خان اچکزئی نے انگریزوں سے پشتونوں کی آزادی کے لئے کافی جد و جہد
بھی کی تھی۔انہوں نے اپنے چھیا سٹھ سالہ زندگی میں پینتیس سال جیل میں
گزارے تھے۔
ان دو بڑے لیڈروں یعنی عبدالغفار خان اور عبداصمد خان کا نظریہ اظہر من
الشمش ہے کہ وہ افغانستان کو افغان قوم کا وطن سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ
خان عبدالغفارخان نے پاکستان کی بجائے افغانستان میں دفن ہو نے کو ترجیح دی
اورآج ان کا مزاربھی افغانستان میں ہے۔
محمود خان اچکزئی کے دل و دماغ میں بھی شاید اپنے والد مرحوم کا نظریہ رچا
بسا ہے اور وہ خیبر پختونخوا کو اسی لئے افغانستان کا حصہ قرار دے رہے ہوں
مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اسی نظریہ کو دشمن کسی سازش کا حصہ بنا کر اپنے
مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرے۔
اﷲ نہ کرے کہ دشمن کی کوئی چال کامیاب ہو جائے مگر ایک بات جسے تسلیم کئے
بغیر چارہ نہیں ، وہ یہ ہے کہ دنیا کا نقشہ کبھی مستحکم نہیں رہا ۔ دور
کیوں جائیں اگر ہم صرف برِ صغیر کے نقشہ پر ہی نظر ڈالیں تو صرف سو سال کے
قلیل عرصہ میں اس میں کئی مرتبہ تبدیلیاں آئیں پاکستان بنا، بھارت بنا،
بنگلہ دیش نقشے پر نمودار ہوا، گویا ثبات تغیر کو ہے اس زمانے میں، بوجوہ
دشمن اپنے دشمن ملک کے خلاف منصوبے بناتا رہتا ہے اور موقعہ کی تاک میں
رہتا ہے۔ بد قسمتی سے ہماری خارجہ پالیسی اس وقت نہایت کمزور ہے۔ملک کا کو
ئی وزیرِ خارجہ نہیں،ملک کا وزیرِ اعظم ملک سے باہر ہے اگر ملک میں موجود
بھی ہو، تو اس کے پاس ایسا ویژن نہیں جو دور دھندلکوں میں بننے والے سازشوں
کو دیکھ سکے انہیں تو ’’را ‘‘ بھی نظر نہیں آتا۔انہیں تو پاک چین اقتصادی
راہداری کو اپنے گھر کی لو نڈی بنا کر ،خیبر پختونخوا کے عوام کو اس گیم
چینجر منصوبے سے محروم رکھ کر ‘ وہ احساسِ محرومی بھی نظر نہیں آتا جو کسی
بھی قوم کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہو تا ہے۔
پاکستان کا ایک عام محبِ وطن شہری بھی دیکھ رہا ہے کہ وطنِ عزیز کے خلاف
نئے جال بنے جا رہے ہیں، گھناؤنی سازشیں ہو رہی ہیں عین ممکن ہے کہ امریکہ،
بھارت مِل کر ہمارے ہمسایہ ممالک اور ہمارے اندرونِ ملک کے بعض عناصر کو
ورغلا پھسلا کر کوئی گیم کھیل رہا ہو،کیو نکہ پاکستانی فوج اور ایٹمی طاقت
ان کے آنکھوں میں کانٹے کی طرح چھب رہا ہے۔اندریں حالات محمود خان اچکزئی
کا بیان کسی بڑے خطرے کی علامت ہو سکتی ہے۔لہذا میں پاکستان کی سلامتی کا
حلف لینے والے بہادر افواج سے یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ الرٹ رہو، کیوں کہ
بقولِ شاعر․․․․․․․․: وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تیری بر بادیوں کے مشورے ہیں آسما نوں میں |
|