محمد عارف انصاری
فخر قوم عبدالقیوم انصاریؒ ڈہری اون سون (بہار) سے آندھی کی طرح نمودار ہو
کر ہندوستان کی سیاست پرطوفان بن کر چھا گئے۔اس دوران انہیں نہ جانے کن کن
مراحل سے گزرنا پڑا۔یہاں تک کہ صغر سنی ہی میں قید و بند کی صعوبتیں بھی
جھیلنی پڑیں۔ سیاست میں قدم رکھتے ہی انہیں دنیاوی جاہ و حشمت،خاندانی عزت
و وقاراور عہدہ و منصب اور دولت و ثروت کی پشت پناہی رکھنے والے رہنماؤں کا
سامنا کرناپڑا۔مگر اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بنیاد پر ان سبھوں کو پیچھے
چھوڑتے ہوئے آگے نکل گئے اور اپنی ملی و قومی قیادت کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ان
کی قابل فخر قیادت میں انصاری برادری کے اندر عدیم المثال سماجی و سیاسی
بیداری پیداہوئی اور اس کا کھویا ہوا وقا رپھر سے حاصل ہوا۔اس سے ثابت ہوا
کہ صدیوں سے محروم و مظلوم انصاری برادری کو جس رہنماء کی تلاش تھی وہ یہی
تھے۔ان کی مدبرانہ قیادت ہی کا نتیجہ ہے کہ اسمبلیوں،کونسلوں اور پارلیا
مان یا ریاستی ومرکزی کابینہ میں مسلمانوں کی نمائندگی اس وقت تک مکمل نہیں
سمجھی جاتی تھی جب تک کہ اس میں انصاری برادری کی نمائندگی نہ ہو۔مگربڑے ہی
افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ آج ان کی آبائی ریاست بہارہی کی اسمبلی میں
اس برادری کی کوئی نمائندگی نہیں ہے اوروزارت تو بہت دور کی چیزہے۔ گزشتہ
کئی بار سے پارلیامانی انتخابات کے مواقع پرکوئی بھی سیاسی پارٹی اس برادری
کومنھ لگانے کی زحمت نہیں کرتی ،ٹکٹ اور امیدواری تو جیسے ان کے لئے خواب
بن کر رہ گئی ہے۔یوں توگزشتہ پارلیامانی انتخاب کے موقع پر جے ڈی یو نے
بہار قانون ساز کاؤنسل کے سابق ڈپٹی چیرمین سلیم پرویزکوچھپڑہ سے امیدوار
بنایا تھا،لیکن شاید جیتنے کے لئے نہیں،بلکہ سابق وزیر اعلیٰ محترمہ رابڑی
دیوی انتخاب ہار جائیں اور فی الواقع ہوا بھی ایساہی ،وہ ہار گئیں۔جناب
سلیم پرویز کواس کی قیمت کاؤنسل کے انتخاب میں ہار کی شکل میں چکانی
پڑی۔حالاں کہ موصوف نے نہ تو کبھی انصاری برادری کی سیاست کی ہے اور نہ اس
کی دعویداری۔یہ اور بات ہے کہ جے ڈی یو نے ایک تیر سے دو شکار کئے جو نشانے
پر لگا،جس سے اس برادری کا منھ بھی بند ہوا اور محترمہ رابڑی پارلیا مان کا
منھ دیکھنے سے رہ گئیں۔ایسا ہی کچھ گزشتہ بہار اسمبلی انتخاب کے موقع پر
بھی دیکھنے کو ملا۔کانگریس پارٹی نے بالمیکی نگر حلقہ سے ارشاد حسین کو ٹکٹ
دیا تو آر جے ڈی نے بھی صرف ایک ٹکٹ کانٹی حلقہ سے پرویز عالم کو دیا’جہاں
سے دونوں آزاد امیدوار کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔جبکہ جے ڈی یو نے اپنے واحد
انصاری ایم -ایل- اے ،داؤد انصاری کا ٹکٹ ہی کاٹ کر اس برادری کی اوقعات
دکھا دی۔یہاں تک کہ مختلف کمیشنوں، کمٹیوں اوربورڈ میں بھی اس برادری کو
تقریباً نظر انداز کر دیا گیاہے۔مگر اس برادی کی قیادت کے دعویداروں کی
کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور کسی نے اُف تک نہیں کی۔رکن راجیہ سبھا علی
انور انصاری یوں تو پسماندہ سیاست کے بوتے میدان سیاست میں آئے اور راجیہ
سبھا پہنچ گئے۔حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں یہ اعزازانصاری کوٹے کے طور پرحاصل
ہوا‘ اور وہ اب کسی نہ کسی طرح مومن رہنماء ہونے کی دعویداری کرتے رہتے ہیں
،لیکن انصاری برادی کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار نہیں رہاہے۔یہی وجہ ہے
کہ جب داؤد انصاری کا ٹکٹ کاٹ دیا گیاتو وہ کچھ نہیں کرسکے اور شاید کچھ
کرنا بھی نہیں چاہتے۔بابائے قوم مرحوم انصاری صاحب کے صاحبزادے خالد انور
انصاری کا حال بھی بہت محتلف نہیں ہے۔اپنے پُر وقار والد کے نام پر انوکمپا
کی بنیاد پر پہلے کانگریس سے اسمبلی کی رکنیت نیز وزارت کی کرسی اورپھر
آرجے ڈی کے ٹکٹ پر کاؤنسل تو پہنچ گئے ،مگر اپنی کوئی شناخت قائم نہیں
کرسکے اور بڑے ہی بے تکے انداز میں جے ڈی یو میں شامل ہوکر حاشئے پر
ہیں۔کانگریس پارٹی نے بھی گزشتہ اسمبلی انتخاب میں صرف ایک ہی ٹکٹ دیاتھا
اور ڈاکٹر خالد رشید صبا جیسے بزرگ رہنماء بھی کچھ نہیں کر سکے ،بلکہ
خاموشی ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔سابق ایم ایل اے سیتا مڑھی اور صدربہار
اسٹیٹ مومن کانفرنس محمد خلیل انصاری نے جب کانگریس میں گھٹن محسوس کی تو
پارٹی چھوڑدی مگر بہت ہی روایتی انداز میں جے ڈی یو کا دامن تھام لیا۔نتیجہ
یہ ہے کہ یہاں بھی انہیں خاک ہی چھاننی پڑ رہی ہے۔شاید اسی کو کہتے ہیں کہ’’
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘۔سابق ایم ایل اے شہا ب الدین یوں تو جے پی
تحریک کی اُپج ہیں،لیکن بعد کے دنوں میں مومن کانفرنس سے وابستہ ہوکر اس کے
کل ہند کارگزار صدر ہوگئے ۔افسوس ہے کہ وہ بھی کوئی قابل ذکر کردار ادا
نہیں کرسکے اوران دنوں پتہ نہیں کیوں سیاسی بنواس کی زندگی گزار رہے ہیں۔اس
طرح کتنے ہی رہنماؤں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جو اس برادری کے سرخیل
سمجھے جاتے ہیں۔ یہ برادری بڑی ہی پُر امید نگاہوں سے ان کی جانب دیکھتی
رہی ہے،لیکن اسے ان سے مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔کاش کہ یہ لوگ انصاری صاحب
مرحوم کی سیرت کے آئینے میں جھانکنے کی زحمت کرتے تو شاید صورت حال دوسری
ہوتی۔حالاں کہ سرزمین بہار کی سیاست ایسی ہے کہ محض ۱۲؍فیصد آبادی کے زور
پر لالو پرساد یادو یہاں برسوں بادشاہت کرتے رہے ہیں اور اب شاہ گری کررہے
ہیں اور اب انہیں کی راہ پر ان کے صاحبزادگان بھی ہیں۔جبکہ ۳؍یا ۴؍فیصدکُرمی
آبادی کے فرد نتیش کمار چوتھی دفعہ بہار کے وزیر اعلیٰ ہیں،نیزپرائم منسٹر
میٹیریل کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔دلت ووٹوں کے بوتے رام ولاس پاسوان
اپنی جھونپڑی بچانے کے ساتھ ہی اپنے کنبے کی سیاسی فوج تیارکرنے میں کامیاب
ہیں۔اسی طرح کشواہا برادری بھی بڑی ہوشیاری کے ساتھ ہر سیاسی جماعت میں
اپنا دبدبہ قائم کرنے کے ساتھ ہی اوپیندر کشواہا نے کامیابی کے ساتھ نہ صرف
اپنی علیحدہ سیاسی جماعت قائم کرلی بلکہ مرکزی حکومت میں شامل بھی ہیں۔مگر
مسلمانوں کی کل آبادی کی نصف سے زائد اور بہار کی کل آبادی کی تقریباً ۱۰؍فیصد
کی آبادی پر مشتمل انصاری برادری کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔حالت یہ ہے کہ
’’پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘۔ضرورت ہے کہ انصاری برادری کے
لیڈران ان حالات سے عبرت حاصل کریں اور صورت حال کا باریک بینی سے تجزیہ
کرتے ہوئے انصاری صاحب مرحوم کی سیرت و کردار سے رہنمائی حاصل کریں اور
اپنے تمام تر اختلافات بالائے طاق رکھ کر جماعتی وابستگی سے قطع نظر برادری
کے مفاد میں مشترکہ طور سے کوئی مثبت لائحہ عمل مرتب کریں تو شاید اب بھی
بہت کچھ ممکن ہے۔ |