موجودہ الیکشن ایک خطرہ اور ایک چیلنج۔ قسط پنجم

اس دوران جنرل ایوب خان کے Friends not masters کے نظریے کے بر خلاف Friends and masters کے اپنے وضع کردہ کلیے کے اتباع میں یہاں پاکستان میں گلگت بلتستان کو ایجنسی کا نام دے کر ریاست سے الگ خطہ زمین کے طور تصور کرنے کی خفیہ حکمرانہ پالیسی بھی جاری رہی جس کی باز گشت آج کل اکثر ملک کے طول و عرض میں سُنائی دے رہی ہے۔ حالانکہ پنجاب ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ پاکستان نے گلگت بلتستان کے بعض مقدمات کو سننے سے انکار کرتے ہوئے واضح اور تحریری طور پر فیصلہ دے دیا تھا کہ یہ علاقہ پاکستان کی حدود میں شامل نہیں ہے اور ایک متنازعہ علاقہ ہے اس لیئے اس علاقہ کے مقدمات پاکستان کی عدالتوں میں زیر سماعت نہیں لائے جا سکتے۔ اس کے باوجود پاکستان کے حکمرانوں کے اذہان میں قطع نظر اس کے کہ اس عمل سے مسئلہ کشمیر پر کیا اثرات مرتب ہوں گے گلگت بلتستان کو پاکستان کے زیر کنٹرول لانے کی تجویز موجود رہی جو نوے کی دھائی کے اواخر میں اس وقت کھل کر سامنے آئی جب غلام اسحاق خان صاحب پاکستان کے صدر تھے۔ چنانچہ مسلم کانفرنس جو شروع سے ریاست کے اسلامی تشخص کی بحالی کے لیئے جانی و مالی قربانیاں پیش کرتی رہی ہے کے قائد جناب مجاہد اوّل نے صدر غلام اسحاق خان کو ایک مفصل اور تاریخی خط لکھا جو کئی حوالہ جاتی کتب کی زینت بھی بن چکا ہے۔ اپنے معزز قارئین بالخصوص نوجوان نسل کی معلومات اور غور و فکر کے لیئے مجاہد اوّل کے مذکورہ تاریخی خط کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔

مکرمی جناب غلام اسحاق خان صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان
السلام علیکم و رحمۃ اﷲ
ریاست جموں وکشمیر کے شمالی علاقہ جات (گلگت و بلتستان) کے سیاسی اور آئینی مستقبل اور حیثیت کے تعین کے بارے میں اندرون ملک آج کل جو بحث جاری ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت اس سلسلہ میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی خواہشمند ہے۔ یہ مسئلہ وفاقی حکومت کی سطح پر اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھی زیر بحث ہے اور اس کے بارے میں ہر قسم کی ذمہ دارانہ اور غیر ذمہ دارانہ بیانات آ رہے ہیں۔ یہ سورتحال شمالی علاقہ جات کے بارے میں الجھاؤ اور ابہام کا باعث بن رہی ہے۔ چونکہ ہم لوگ اس مسلے کے اصل فریق ہیں لہذا میں ضروری اور مناسب سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ کی نزاکت اور سنگینی کے پیش نظر صحیح صورتحال سے آپ کو آگاہ کیا جائے۔ تا کہ کوئی ایسا غلط فیصلہ نہ ہو جائے جس سے صورتحال میں مزید الجھاؤ پیدا ہو جائے۔

جہاں تک شمالی علاقہ جات کی آئینی حیثیت کے تعین کا تعلق ہے یہ بات اس ملک کے ہر باشعور اور محب وطن کے لیئے دلچسپی کا باعث رہی ہے۔ آج کے مہذب ترقی یافتہ اور جمہوری دور میں بھی یہ علاقہ بدستور تاریخ کے تاریک دور کا حصہ دکھائی دیتا ہے۔ 1972-73 تک یہاں پر ایف سی آر (فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن) جیسا ظالمانہ اور فرسودہ نظام رائج رہا۔ اگر چہ اس کے بعد کچھ اصلاحات ہوئیں لیکن اس کے باوجود ان علاقوں کے ایڈمنسٹریٹر کا لامحدود اختیارات دیئے گئے ہیں۔ نوکر شاہی اس دلاقہ کو سونے کی چڑیا سمجھتی ہے جس کے باعث یہاں کے لوگوں میں احساس محرومی روز بروز بڑھ رہا ہے۔ اس ساری صورتحال کا افسوس ناک اور قابل اعتراض پہلو یہ ہے کہ سیدھے سادے اور واضح معاملہ کو پیچیدہ مسئلہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ بات تو کبھی بھی متنازعہ نہیں رہی کہ شمالی علاقہ جات ریاست جموں و کشمیر کا جزو لاینفک ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ امر ہے کہ اتنے اہم اور نازک قومی مسئلے کے بارے میں اعلیٰ قومی سطح پر کبھی بھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے حل کے سلسلے میں کی جانے والی مساعی بار آور نہیں ہوئی ہیں۔ اس صورتحال کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ ملک کے اندر ہر بار حکومتی تبدیلی کے بعد قومی مسائل کے بارے میں نئے سرے سے غور و فکر شروع کر دیا جاتا ہے اور کسی سابقہ حکومت کے دور میں کسی اہم قومی مسئلہ کے حل کے سلسلہ میں کوئی پیش رفت ہوئی بھی ہوتی ہے تو نئی حکومت سابقہ حکومت کے کام پر خط تنسیخ کھینچ دیتی ہے اور اس طرح ہر بار زیرو پوائنٹ سے ایک نئی تکلیف دہ اور تھکا دینے والی مشق کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس پس منظر میں صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی دشواری محسوس نہیں ہو گی کہ اس کشمکش کے باعث ہم آج بھی اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں 40 سال پہلے تھے۔

شمالی علاقہ جات کی آئینی اور سیاسی حیثیت کے تعین کے لیئے اس وقت جو بحث مباحثہ جاری ہے اس سے میرے نزدیک جہاں یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس علاقہ کے لوگوں کی مشکلات اور تکالیف کو دور کرنے میں مدد ملے گی وہاں اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس بحث مباحثہ کے نتیجہ میں یہ معاملہ مزید پیچیدہ اور لایخل ہو جائے۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تاریخی، جغرافیائی، سیاسی اور معاشی لحاظ سے شمالی علاقہ جات ریاست جموں و کشمیر ہی کا اٹوٹ انگ رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شمالی علاقہ جات کی آئینی حیثیت کے تعین کے بارے میں ابہام کیوں ہے؟ برصغیر جنوبی ایشیاء سے برطانوی اقتدار کے خاتمہ اور پاکستان اور ہندوستان کی دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام تک ریاست جموں و کشمیر بشمول شمالی علاقہ جات کو سیاسی انتظامی اور آئینی لحاط سے ایک منفرد اکائی کی حیثیت حاصل تھی لیکن ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف مسلح جدوجہد آزادی اور اکتوبر 1947؁ء میں کشمیری عوام کے خلاف ہندوستانی جارحیت کے نتیجہ میں ریاست جموں و کشمیر سیاسی لحاط سے تین حصون میں بٹ کر رہ گئی۔ ریاست کے ایک حصہ پر ہندوستان نے طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کر لیا جب کہ ایک حصہ میں آزاد جموں و کشمیر کی حکومت قائم ہو گئی۔ جب شمالی علاقہ جات آزاد ہوئے تو آج سے 40 سال پیشتر آزاد جموں و کشمیر کے محدود وسائل اور رسل و رسائل کی دشواری کے پیش نظر ان دلاقوں کا انتظامی کنٹرول حکومت پاکستان کو تفویض کرتے وقت علاوہ اور باتوں کے ہمارے نزدیک جو سب سے اہم بات پیش نظر تھی اس میں اس علاقے کی مخصوص جغرافیائی حیثیت، پاکستان کے لیئے اس کی دفاعی اہمیت اور بالخصوص اس وقت کیمونزم کی پیش قدمی کے خطرات کے رسد باب کرنا شامل تھا۔ جن مشکل حالات میں وزارت امور کشمیر، حکومت آزاد جموں و کشمیر اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے مابین ایک معاہدہ کے تحت شمالی علاقہ جات کا انتظامی کنٹرول حکومت پاکستان کے سپرد کیا تھا وہ صورتحال نمایاں طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ اس لیئے مذکورہ معاہدہ پر فریقین کے مابین باہمی مشاورت اور رضامندی سے نظرثانی ہو سکتی ہے۔ (جاری ہے)
Mian Karim Ullah Qureshi
About the Author: Mian Karim Ullah Qureshi Read More Articles by Mian Karim Ullah Qureshi: 17 Articles with 14039 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.