برمودا : یہ دنیا کی وہ جگہ ہے جو آ ج بھی
ایک ایسی پہیلی ہے جس کا کسی کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے۔ برمودا بحر
اوقیانوس کے کل ٣٠٠ جزائر پر مشتمل ہے۔جن میں سے صرف ٢٠ جزائر ہیں جن پر
انسانی مخلوق کی موجودگی پائی جاتی ہے۔لیکن وہ بھی بھت کم ھیں۔ وہ علاقہ جس
کو برمودا تکون کہا جاتا ہے وہ تقریبا ١١لاکھ ٤٠ ہزار مربع کلو میٹر ہے۔اس
کا شمالی سرا جزائر برمودا، جنوب مغربی سرا مایامی (فلوریڈا) میں ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں فلوریڈا کے کیا معنی ہیں؟
اس کا مطلب ہے : اس خدا کی جگہ جس کا اقتدار چھن گیا ہو۔
١٨٥٠ میں یہاں پراسرار طور پر ٤ (چار) کشتیاں ٰٰٰٰٰٰ یوں غائب ہوئی کہ آج
تک ان کا کسی کو سراغ تک نہ ملا۔
اس جگہ کی نشاندہی سب سے پہلے کرسٹوفر کولمبس نے کی۔جب اپنے سفر کے دوران
اسکا گزر فلوریڈا سے ہوا تو اس نے کچھ عجیب و غریب واقعات کو رونما ہوتے
دیکھا ۔جن کا زکر اس نے اپنی تحریر میں کچھ یوں کیا ہے:
میں نے فلوریڈا سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ
١: برمودا کے مقام پر آگ کے گولوں کو دیکھا۔
٢: میرے قطب نما نے کام کرنا بند کردیا۔
٣:میں نے کچھ اڑن تشتریوں کی موجودگی پائی۔
یہ تھے وہ انکشافات جو کولمبس نے پہلی مرتبہ برمودا کے متعلق کئے۔
واقعات: ١٨٥٠ میں یہاں ٤ سے زائد کشتیاں ڈوب گئیں جو کہ تمام کی تمام
امریکہ کی ملکیت تھیں۔ کچھ عرصہ بعد جو پہلا بحری جھاذ اس میں ڈوبا وہ
تقریبا ٣٤٠ افراد سمیت اس طرح ڈوب گیا کہ آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا۔کچھ
عرصہ بعد ایک آبدوز ٩٠ افراد سمیت غائب ہو گئی۔١٩٤٥ میں امریکہ کی ریاست
فلوریڈا سے ٥ طیاروں نے ٢ بجکر ١٠ منٹ پر پرواز بھری ٤ بجے ایک طیارے کا
پیغام آیا کہ ایک عجیب صورتحال کا سامنا ہے۔میں اپنٰی جگہ کا تعین نہیں کر
پا رہا ہوں۔اچانک پانچوں طیاروں سے رابطہ منقطع ہو گیا اور وہ بھی برمودا
میں کچھ یوں غائب ہوگئے کہ کوئی سراغ نہ مل سکا۔پھر ان طیاروں کی تلاش میں
مزید ایک طیارہ بھیجا گیا مگر وہ بھی آج تک کبھی واپس نہ آ سکا۔ان واقعات
کا سلسلہ ٢٠٠٩ تک جاری رہا۔
نظریات: کچھ علماء کا کہنا ہے کہ یہاں کچھ ایسی شیطانی طاقتوں کا بسیرا ہے
جن تک رسائی انسان کیلئے ممکن نہیں ہے۔ کچھ علماء کا کہنا ہے کہ یہ وہ مقام
ہےجہاں دجال کو قید کیا گیا ہے۔اسی لئے انسان کی اس مقام تک رسائی ناممکن
ہے۔ دجال کے یھاں ہونے کا ثبوت علماء حدیث سے کچھ یوں دیتے ہیں :
شیطان اپنا تخت سمندر کے اوپر لگاتا ہے۔
البتہ دجال کا نام قرآن میں کہیں نہیں ملتا لیکن یہ اتنا اہم مسئلہ ہے کہ
حضور پاک نے اسے بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہاں اتنی طاقتور شعاعیں پائی جاتی ہیں کہ اگر
انسان ان شعاعوں پر قابض آجائے تو آج جو گاڑی ھم ١٠٠ کلومیٹر فی گھنٹہ کی
رفتار سے چلاتے ہیں وہی گاڑی ھم اس رفتار سے ١٠٠٠٠ گنا زیادہ رفتار سے چلا
سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کا اس جگہ میں کچھ غیرزمینی
مخلوقات کا بسیرا ہے Aliensجنھیں .کھا جاتا ھے
یہ غیرزمینی مخلوقات،زمینی مخلوق یعنی انسان کو کسی اور جھان میں برمودا
تکون کے زریعے منتقل کرتی ہیں۔
ان تمام نظریات کے باوجود ھم آج بھی برمودا تکون کی اس پہیلی کا جواب تلاش
کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
زمین پر یہ وہ واحد جگہ ہے جہاں انسان اور سائنس دونوں ھی بے بس نظر آتے
ہیں۔ |