عید، تعلیم اور جمہوریت

عیدالفطر اسلامی سال کے مقدس ترین مہینے رمضان المبارک کے اختتام پر مسلمانوں کے تشکر کے جشن کا دن ہے۔مسلمانوں کا ایک عظیم ترین تہوار ۔تہوار کسی بھی قوم یا کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کی پہچان ہو تے ہیں۔ان تہواروں سے ان کی ثقافت، ان کے رہن سہن، ان کی عادات اور ان کے اطوار کی عکاسی ہوتی ہے۔ ویسے تو مسلمانوں کے بہت سے تہوار ہیں مگر دو عیدیں عید الفطر اور عید الاضحی سب سے بڑے تہوار شمار ہوتے ہیں۔ان دو عیدوں کو اسلام میں انتہائی قدرومنزلت حاصل ہے۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی خوشی کے دن ہیں جن میں امیر، غریب، بوڑھے ، جوان، اپاہج، تندرست، مسکین سبھی مسلمان ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے یکساں خوشی مناتے ہیں۔

عید کے لغوی معنی مسلسل خوشی یا تہوار کے ہیں جبکہ فطر کھانے اور پینے کے معنوں میں آتا ہے۔ایک پورا مہینہ روزے کی سعادت حاصل کرنے اور کھانے پینے کی پابندی ختم ہونے پر مسلمانوں کومسلسل ہر سال جو روحانی مسرت حاصل ہوتی ہے اسی کے حوالے سے یہ دن عیدالفطر کہلاتا ہے۔ روزہ مسلمان کا امتحان ہے اور اس امتحان کے کامیاب انعقاد کے بعد مسلمان جو فرحت محسوس کرتے ہیں، عید کا دن اسی کا اظہار ہے۔ اﷲ کے برگزیدہ اورنیک لوگ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس کی ذات نے انہیں موقع دیا کہ وہ اس کی رحمتوں اور برکتوں سے مالا مال ہوں۔اپنے کردار اور ایمان کی اصلاح کریں اور اس میں بہتری لائیں۔ہمارے جیسے عام لوگ بھی خوش ہوتے ہیں کہ اﷲنے انہیں گزرے ہوئے مہینے میں توبہ کا موقع اور خطا ؤں کی معافی مانگنے کی توفیق دی اور آئندہ استقامت پر رہنے کی ہمت اور سکت دی۔حقیقت میں رمضان کا مہینہ ہر مسلمان کی قوت ارادی، قوت ایمان اور قوت کردار کا امتحان ہوتا ہے اور عید اس امتحان میں کامیابی پر دلی سکون اور اطمینان کا اظہار۔

حضرت انس سے روایت ہے کہ ہجرت مدینہ سے پہلے یثرب کے لوگ دو عیدیں منایا کرتے تھے۔ان عیدین میں لہو و لہب اور بے راہ روی عام تھی۔ رسول کریم نے یہ دیکھ کر مدینہ کے لوگوں سے دریافت کیا کہ ان عیدین کی حقیقت اور تاریخی پس منظر کیا ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ ہم اسلام سے پہلے سالہا سال سے یہ تہوار اسی انداز میں منایا کرتے تھے( غالباً یہ دو تہوار نوروز اور مہر جان کے ایام تھے) ۔ رسول خدا نے یہ تہوار منانے سے منع کیا اور ارشاد فرمایا : اﷲتعالی نے ان دو تہواروں کے بد لے تمہارے لئے دو بہترین دن مقرر کئے ہیں ایک یوم عید الفطر اور دوسرا یوم عید الاضحی۔

آجکل تعلیم کا دور ہے۔ جہالت کم ہو رہی ہے اور علم کی روشنی انسانی دماغوں کو منور کر رہی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کم علم بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے زیادہ علم انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔مگر میرے خیال میں خود کو صاحب علم سمجھ لینا سب سے خطرناک ہوتا ہے۔ پاکستان میں خود کو صاحب علم سمجھنے اور اس کا اظہار کرنے والے بہت ہیں۔علم سے علما پیدا ہوتے ہیں اور جتنا اور جیسا علم جن کے پاس ہو ویسے ہی علما وجود میں آتے ہیں،ویسے یہاں ہر شخص عالم ہے ۔

ایک مذہبی علما ہیں۔ان میں کچھ تو اﷲ کے نیک بندے اور سچے مومن ہیں ان کے نزدیک رمضان اور عید کا مفہوم وہی ہے جو میں نے اوپر بیان کیا ہے لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں کہ جن کے نزدیک رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کی ایک شکل نقدی بھی ہے جسے وہ رمضان کاسارا مہینہ اکٹھا کرتے اور عید کے دن سارے سال کی ضروریات کے لئے سنبھال کر رکھ لیتے ہیں۔

کچھ نیم مذہبی علما ہوتے ہیں۔یہ روزہ کبھی نہیں رکھتے مگرسحری اور افطاری کا شاندار اہتمام کرتے ہیں۔عید پر ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ ان کی عید ملن پارٹیاں ہفتے سے زیادہ دن چلتی ہیں۔ یہ عید کے اصل مفہوم سے بہت کم آشنا ہوتے ہیں مگر مذہبی عقیدت کے حوالے سے ان کی پرخلوص خوشی دیدنی ہوتی ہے یہ روزہ رکھنے کے سوا نیکی کا ہر کام بڑی خوشی سے کرتے ہیں ۔پاکستان میں عید کے حوالے سے ایک طبقہ غیر مذہبی علما کا بھی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو مادر پدر آزاد ہیں۔ان کو روزے سے کوئی سروکار ہے اور نہ عید سے ۔ یہ اس مقدس فرض اور عظیم تہوار کو پرانی سوچ کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں اور خود کو ترقی پسند دانشور قرار دیتے ہیں حالانکہ صحیح اور سچے ترقی پسند دانشور اپنے ہی نہیں دوسرے مذاہب کا بھی حد درجہ احترام کرتے ہیں۔

ایک جمہوری علما کا طبقہ بھی ہے۔ اس طبقے کے لوگ سحری بہت کم مگر افطاری روزانہ ایک ہجوم کے ساتھ بڑے اہتمام سے کرتے ہیں۔عید کے دن نماز کے بعد دیر تک لوگوں سے والہانہ ملتے ہیں۔ ان کے ہر عمل میں دکھاوا اور ہر حرکت میں بناوٹ ہوتی ہے۔ افطاری اور عید ان کے لئے عوامی رابطے کا ایک وسیلہ ہوتے ہیں۔ مگر پچھلے ایک دو سالوں سے جب سے دہشت گردی نے ارض پاک میں اپنے پنجے گاڑھے ہیں۔ سیاست دانوں کے لئے یہ رابطہ مہم جاری رکھنا کچھ دشوار ہو گیا ہے۔ خصوصاً یہ سال تو سیاسی افراتفری کا دور ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا ہونے والا ہے۔ مگر یہ سمجھ آتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔سیاسی افراتفری جب بھی شروع ہوتی ہے اسے جلد یا بدیر کسی انجام پر پہنچنا ہوتا ہے ۔ روایت یہی ہے کہ صورت حال جتنی بھی بگڑ جائے، حکمران محسوس نہیں کرتے۔چین میں صدیوں یہ روایت رہی ہے کہ جب بھی افراتفری کا دورہوتا تو بچے سڑکوں اور گلیوں میں یہ گیت گاتے ہوئے نظر آتے
ہزاروں میل لمبی گھاس
چار دن جینے کی آس

ہر شخص یہ جانتا تھا کہ اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں کا وقت گزر چکا مگر انہیں ابھی تک امید ہے کہ کچھ دن کٹ جائیں گے۔حکمرانوں کو مگر یہ شعر اور اس میں کہی بات سمجھ نہیں آتی تھی۔وہ اپنا طرز حکمرانی ، اپنا طرز تکلم اور رویہ بالکل بھی نہیں بدلتے تھے اور پھر ہونی ہو کر رہتی تھی۔اس عید کی خوبصورت بات یہ ہے کہ اس عید پر ہمارا کوئی لیڈر ملک میں نہیں ہو گاجس سے لوگوں کا یقین ایمان میں بدل جائے گا کہ اس ملک کو پہلے بھی اﷲکی ذات چلا رہی تھی اور اب بھی چلا رہی ہے۔ویسے جمہوری علما میں سے کچھ شور مچا رہے ہیں کہ عید کے بعد جمہوریت خطرے میں ہے۔ جبکہ کچھ کے خیال میں جمہوریت کو کچھ خطرہ نہیں۔ویسے مجھے جمہوریت کبھی بھی کہیں نظر نہیں آئی۔ میرے نزدیک جمہوریت لوگوں کا اپنے میں سے بہترین کا انتخاب ہے۔ یہاں بہترین لوگ اپنے میں سے بدتر کا انتخاب نہیں فقط بدتر کی پیروی کرتے ہیں اور اس انداز سے کہ دیکھنے والوں کو شرم محسوس ہوتی ہے مگر پیروی کرنے والوں کو احساس ہی نہیں ہوتا۔

ویسے پیروی کرنے والے بھی دماغی طور پر مکمل اندھے ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے لیڈر کی پیروی کیوں کرتے ہیں یہ انہیں خود بھی پتہ نہیں ہوتا مگر پیروی میں ہر الٹا سیدھا کام کرنے کو تیار بھی ہوتے ہیں اور کر بھی جاتے ہیں۔شاید کچھ مفادات حاصل کرنے ہوتے ہیں۔تیسری صدی عیسوی کا چین کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ہان خاندان کے ایک بادشاہ کوجب وہ ایک شہر سے گزر رہا تھا، اس کے ایک غریب جیالے یا متوالے نے اپنے گھر ضیافت کے لئے بلایا۔ بادشاہ اس کے گھر چلا گیا۔ اس غریب کارکن کے پاس کچھ نہیں تھا۔ اس نے ضیافت کے لئے اپنی بیوی کو ذبح کر دیا ۔کیا پاگل پیرو کار تھا۔نہ جانے ان پاگل لوگوں کو کب سمجھ آئے گی۔ اس عید دعا کریں کہ اﷲہمیں ان ساری خوشیوں کے ساتھ ساتھ اچھی حکمرانی اور اچھی جمہوریت کی خوشی بھی عنایت فرمائے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501276 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More