’’ایدھی‘‘دنیائے انسانیت کا روشن چراغ

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
آج دنیا سے ایک ایسی ہستی کوچ کرگئی جس کی جتنی تعریف کی جائے اتنی کم ہے۔ وہ ہستی پاکستان کی مسیحا تھی۔ پاکستان کے اچھے برے حالات میں اس ہستی اور کی ٹیم نے ہمیشہ صف اول کا کردار اداکیا۔اس شخصیت پر مختلف الزامات بھی لگے مگر اس نے خدمت خلق کا دامن نہ چھوڑا۔ پاکستان کے علادہ دنیا بھر میں اسکے نام کا طوطی بولتا ہے۔ یہ ہر دلعزیز شخصیت مولانا عبدالستا ایدھی ہے۔ جو کسی تعارف کے محتاج نہیں بلکہ وہ پاکستان کے پوری دنیا میں چلتے پھرتے سفیر تھے ۔

کل جب میں ٹی وی دیکھ رہاتھا تو اس وقت بریکنگ نیوز چلی کہ ایدھی صاحب کو آئی سی یو(ICU)میں داخل کرادیا گیا ان کو سانس لینے پر مشکلات کا سامنا تھا۔ نہ جانے کیوں میرے دل میں ایدھی صاحب کے بارے میں الٹے سیدھے خیال آنے لگے اور میں نے پھر ایک پوسٹ ان کی صحت یابی کی دعاکے لیے فیس بک پرلگادی۔ پھر رات کو ایک بریکنگ نیوز آئی۔’’مولانا عبدالستار ایدھی انتقال فرماگئے۔وہ گزشتہ کئی روز سے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (ایس آئی یو ٹی) میں زیرعلاج تھے جہاں دوران علاج وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ عبدالستار ایدھی کے گردے ناکارہ ہوچکے تھے جنہیں ڈائلسز کے دوران سانس کی تکلیف کے باعث وینٹی لیٹر پرمنتقل کیا گیا جہاں 6 گھنٹے کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔‘‘

واضح رہے کہ عبدالستار ایدھی کے گردے ناکارہ ہوچکے تھے اور زیادہ عمرہونے کی وجہ سے ان کے گردوں کی پیوند کاری بھی نہیں ہوسکتی تھی جس کی وجہ سے ہفتے میں 2 سے 3 مرتبہ ان کا ڈائلیسسز کیا جاتا تھا۔میں نے خبر سنی تو میرے ذہین میں ان کی شکل گھومنے لگی۔ کراچی کی سڑکوں پر کبھی ٹوپی پھیلائے تو کبھی ہاتھ میں کٹورا لیکرگھومنے پھرنے والایہ شخص آج منوں مٹی کے نیچے چلا گیا۔ وہ شخص جس کا کروڑوں کا بجٹ ہو مگروہ اپنی ذات پر ایک روپیہ خرچ کرنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ سادہ سا کرتا شلوار اور سر پر ٹوپی رکھے ہمیشہ غریبوں کی مدد کیا کرنے والا آج اپنی خالق حقیقی سے جا ملا۔ اگر اس کی زندگی پر نظر ڈالیں تو بہت سادہ اور درویشانہ سی تھی۔

مولاناعبدالستار ایدھی 1928 میں بھارت کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد پیشے کے اعتبارسے کپڑا کے تاجر تھے۔ بچپن جب انکی ماں انکو اسکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایدھی صاحب ایک پیسا خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسا کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے رکھتے تھے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھیں۔ آپ نے چھوٹی عمر میں ہی دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا۔

1947 میں تقسیم ہند کے بعد آپ کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوگئے۔ 1951 میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی ۔آپ نے شروع ہی سے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے تاکہ ضرورت وقت فوری طور پر مدد کو پہنچ سکیں۔

جب 1957 میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی تو ایدھی صاحب نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگوائے اور مفت مدافعتی ادوایات فراہم کیں۔ اس دوران مخیر حضرات نے آپ کی دل کھول کر مدد کی ۔اس امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لیے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے اسکول کھول لیا اور یہی سے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز تھا۔

فلو کی وبا کے بعد ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو کافی بڑی رقم کی امداد دی جس سے انہوں نے ایک ایمبولینس خریدی جس کو وہ خود چلاتے تھے۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس 600 سے زائد ایمبولینسیں ہیں جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن اس وقت پورے ملک میں انسانیت کی دل کھول کر مدد کررہی ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور اسکول کھولے ہوئے ہیں۔

ایدھی فاونڈیشن نا صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کام کررہی ہے۔ اسلامی دنیا میں ایدھی فاؤنڈیشن ہر مصیبت اور مشکل وقت میں اہم مدد فراہم کرتی ہے۔ جہاں امداد اور نگرانی ایدھی بذات خود متاثرہ ممالک میں جا کر کرتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ فاونڈیشن جن ممالک میں کام کر رہی ہے ان میں افغانستان، عراق، چیچنیا، بوسنیا، سوڈان، ایتھوپیا اور قدرتی آفت سماٹرا اندامان کے زلزلہ (سونامی) سے متاثرہ ممالک کے ہیں۔

خدمت کا یہ باب جو کئی عرصوں سے چلا آرہا تھا آخرکار 8 جوالائی 2016 کو 88 سال کی عمرمیں بند ہوگیا۔غریبوں کی خدمت سے سرشار یہ ہستی اپنے مرنے کے بعد بھی غریبوں کے لیے اپنی آنکھوں کا تحفہ دیکرگئی ۔ انہوں وفات سے قبل دو وسعتیں کیں کہ ان کے مرنے کے بعددونوں آنکھیں ضرور مندوں کو عطیہ کر دی جائیں اور مرنے کے بعد انہی جو کپڑے پہنے ہوئے ہیں انہی میں دفنایا جائے۔

ان کی وفات پر آج ہر آنکھ اشکبار ہے۔ آج پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں اس عظیم کا خراج تحسین پیش کیا جارہاہے۔ حکومت پاکستان نے عبدالستار ایدھی کے لیے نشان امتیاز کا اعلان کرتے ہوئے ایک روزہ سوگ اورانہیں سرکاری اعزازات کے ساتھ سپردخاک کرنے کا بھی اعلان کیا جب کہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومت نے عبدالستار ایدھی کے انتقال پر3 روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔

اس عظیم ہستی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے میرے پاس ان الفاظ کا ذخیرہ نہیں جن سے میں ان کاذکر کرسکوں۔میں اپنی اور کالمسٹ برادری کی طرف سے ان کے اہلخانہ سے دلی تعزیت کرتا اور دعا گو ہوں کہ اﷲ ان کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ دے۔ان کے درجات بلند کرے اور ان کے اہل خانہ کو صبرو جمیل عطا فرمائے۔آمین
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 234530 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.