عبدالستار ایدھی چلے گئے
(Hafeez Khattak, Karachi)
شہر قائد کیلئے ، پاکستان کیلئے اور اس سے
بڑھ کیلئے پوری انسانیت کیلئے قابل فخر عبدالستار ایدھی کی نماز جنازہ
نیشنل اسٹیڈیم میں ادا کی گئی۔نماز میں شریک ہر فرد کے جذبات عروج پہ تھے ،
ہر پاکستانی جو اس شہر میں ہے اس کی اور اس سمیت جو بھی اس شہر سے کم یا
زیادہ دور تھا اس کی یہ شدید خواہش تھی کہ اس عظیم انسان کی نماز جنازہ میں
وہ شریک ہو۔ نماز جنازہ میں اس کی شرکت اس کیلئے ہی اک اعزاز کا درجہ
تھااور یہ اعزا ز ان کو حاصل ہوا جنہوں نے آکر نماز جنازہ اداکی۔ اس سے بڑھ
کر اور کیا بات ہوگی کہ ملک کا وزیر اعظم میاں نواز شریف جو کئی دنوں سے
اپنے علاج کیلئے برطانیہ میں مقیم تھے وہ بھی مرحوم کے دکھ و غم میں بحالت
خراب صحت اپنے دیس چلے آئے۔ انہوں نے ملک کی سطح پر ایک روزہ سوگ کا اعلان
کیا جبکہ صوبہ سندھ و خیبر پختونخواہ میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا۔
شہر قائد میں ہی مزدوروں ، تاجروں ، مظلوموں ، معصوموں، خواتین و خضرات ،
طلبہ و طالبات سمیت محتلف سبھی شعبہ زندگی سے متعلق شہریوں کا چہرہ و دل
ڈوبا نظر آیا ۔لوگوں کے الفاظ نہ تھے ، جملے نہ تھے اگر کچھ تھا جو نظر آتا
تھا جو محسوس ہورہا تھا وہ جذبات تھے و احساسات تھے۔ اسٹڈیم جہاں عوام جب
بھی جمع ہوئی کھیل کود و تفریح کیلئے جمع ہوئی تاہم اس بار سپہ سالار ، صدر
پاکستان، چیئرمین سینٹ، وزیر اعلی سندھ و پنجاب،تمام سیاسی مذہبی جماعتوں
کے رہنما ، تاجر سربراہان سمیت عوام کی بڑی تعداد اسٹیڈیم میں ایک ایسے فرد
کی نماز جنازہ کیلئے جمع ہوئی جس کے جانے کا افسوس ان کے دلوں میں موجود
تھا۔ جو اس دنیا سے تو چلا گیا وہاں چلا گیا جہاں پر سب کو جانا ہے تاہم اس
نے جاتے ہوئے بھی وہ کام کیا جو وہ پوری زندگی کرتا رہا ہے اس نے اپنی
آنکھیں عطیہ کردیں۔ اس کے چہرے پر جاتے ہوئے بھی وہ مسکراہٹ سی نمایاں تھی
جو اس کی عمر بھر رہی۔ جو کہنے کو تو چلا گیا لیکن وہ زندہ رہے گا ، اپنے
کارناموں کے ذریعے ، اپنے کرداروں کے ذریعے اپنے بنائے اور بتائے ہوئے
راستوں کے ذریعے زندہ رہے گا۔ نماز جنازہ کے بعد پاک فوج نے متعدد توپوں کی
سلامی دی اس کی خدمات کے عیوض ، آرمی چیف نے خود شرکت کی وہ اعزازات دیئے
گئے جو کہ آج تک کسی بھی سولینکو نہیں دیئے گئے۔ ہر فرد کا سر، چہرہ ان کے
احترام میں نیم خم تھا ۔وہ عبدالستار ایدھی تو جاتے جاتے ہوئے اپنی آنکھیں
ہدیہ کر گیا وہ خوش نصیب ہوگا جسے اس کی آنکھیں نصیب ہونگی۔
9جولائی کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح
کا انتقال ہوا تھا ، ملک تاریخ میں اس دن کی بھی اہمیت ہے ایدھی صاحب کا
انتقال 8جولائی کو ہوا اور نماز جنازہ 9جولائی کو اداکیا گیا جس سے اس دنکی
اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ 5جولائی کو 1977کو سابق وزیر اعظم ذولفقار علی
بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی اس دن سے آج تلک پیپلز پارٹی اس دن کو یوم سیاہ
کے طور پر مناتی ہے جبکہ اسی تاریخ کو 1999میں کارگل کے محاظ پر ملک فوج کے
ایک بہادر کرنل شیر خان کو شہادت ملی جس کے بعد انہیں نشان حید ر سے نوازا
گیا ۔ ملک کی تاریخ میں 9جولائی کا دن ملک تاریخ کے اہمیت کے حامل دنوں کی
طرح اب یاد رکھا جائیگا۔ نماز جنازہ کا وقت بعد نماز ظہر ڈیرھ بجے کا رکھا
گیا لیکن ایدھی سے محبت کی وجہ سے اس وقت سے پہلے ہی اسٹیڈیم میں
پہنچناشروع ہوگئی تھی ۔ پولیس ، رینجرز، حتی کے آرمی کے جوانوں نے سیکیورٹی
کے انتظامات کئے۔ اسٹیڈیم میں داخلے کیلئے بیشتر دروازوں کو عوام کیلئے
مخصوص رکھا گیا ، صحافیوں ، کیمرہ مینوں اور دیگر شعبہ ذرائع ابلاغ کیلئے
دو دروازے رکھے گئے جبکہ ایک دروازہ صدر ،آرمی چیف ، دیگر اہمیت کی حامل
شخصیات کیلئے مختص کیا گیا ۔ ایدھی کی راہ کو اپنانے والے اور انہی کی طرز
پر سماجی خدمات سرانجام دینے والے محمد رمضان چھیپا وی آئی پیز میں سب سے
پہلے آئے اور انہیں امام جانزہ کے قریب تر کی جگہ تشریف رکھنے کو کہا گیا ۔
ان کے علاوہ جنازہ گاہ میں پاک نیوی ، آرمی ، رینجرز کے افسران اور جوان
پریڈ کی صورت میں داخل ہوئے ، حکمران جماعت مسلم لیگ (ن)کے رہنما و وزیر
اعلی پنجاب شہبا ز شریف ، احسن عزیز، سندھ حکومت کے وزیر اعلی سید قائم علی
شاہ ، نثار کھوڑو، چیئرمین سینٹ رضا ربانی، تحریک انصاف کے اسد عمر ، عمران
اسمعیل ، متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر فاروق ستاراسد عمر کے برابر میں صف
اول میں موجود رہے۔ جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن ، سینیٹر عوامی نیشنل
پارٹی کے شاہی سید دیگر سیاسی ، مذہبی ، سماجی جماعتوں کے رہنماؤں نے نماز
جنازہ میں خصوصی شرکت کی۔ نماز ظہر اسٹیڈیم میں ہی بڑی تعداد نے باجماعت
ادا کی۔
اسٹیڈیم میں صدر مملکت ممنون حسین آرمی چیف سے پہلے داخل ہوئے اور وہ کھڑے
ہوکر نماز جنازہ کا انتظار کرتے رہے ، ممتاز تاجر رہنما عقیل کریم ڈھیڈی
پہلی صف میں پرسی پر ناسازی طبیعت کے باعث تشریف فرما رہے۔ جب عوام نے
دیکھا کہ اسٹیڈیم میں آرمی چیف اور گورنر سندھ داخل ہوئے ہیں تو عوامی
جذبات نعروں کی صورت میں سامنے آئے ۔ عوام نے پاکستان ، آرمی چیف اور
عبدالستار ایدھی کے حق میں شدید نعرے بازی کی۔ ان کی آمد کے کچھ دیر کے بعد
آرمی کے جوان موٹر سائکل پر اسٹیڈیم میں وارد ہوئے اور ان کے پیچھے ہی ایک
توپ داخل ہوئی اور اس توپ کے پیچھے ایدھی کے جسم کو قومی اعزاز کے ساتھ
گاڑی میں رکھے تابوت میں لایا گیا۔ عوام نے اس وقت بھی شدید نعرے بازی۔
رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں و دیگر اراکین کے جذبات بھی اس سمع دیدنی تھے۔
اس گاڑی سے تابوت کو جنازہ گاہ پر رکھا گیا اور اس کے بعد امام صاحب نے
نماز جنازہ کا آغاز کیا ۔ پوری نماز جنازہ کے دوران مکمل خاموشی طاری رہی ۔ان
لمحات میں جذبات و احساسات ناقابل بیان ہیں۔ ایک ملکی ہی نہیں ایم بین
القومی ہیرو ، یہ بھی ایک چھوٹا لفظ ہے ، ایک بین القوامی فرد کی نماز
جنازہ ادا کی جارہی تھی جس کی صحت و تندرستی کیلئے ہر سو دعا تھی کوشش کی
گئی دوران بیماری سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنا نمائندہ خاص عبدالرحمن
ملک کو بیرون ملک علاج کی پیشکش کے ساتھ بھیجا جس کو ایدھی نے یکسر مسترد
کردیا اور یہ کہا کہ علاج اپنے ملک میں ہی کراؤں گا یہ بات وزیر اعظم کیلئے
قابل توجہ ہے جو اپنے بائی پاس کیلئے ملک کے اندر کسی ہسپتال کو سعادت دینے
کے بجائے برطانیہ جاتے ہیں اور وہاں جاکر اپنا علاج کراتے ہیں۔ ایدھی صاحب
سے دوران بیماری تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی آئے جنہوں نے ان کی
خدمات کے ترجیح دینے کے سوا کوئی بات نہیں کی ۔ انہی عمران خان کے متعلق
ایک جگہ یہ پڑھنے کو ملا کہ جب میں نے اپنے ہسپتال کیلئے چندہ جمع کرنے
کیلئے ایدھی صاحب سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ یہ تو بہت آسان کام ہے آؤ
میرے ساتھ چلو ، اس کے بعد مجھے لے کر ایک چوک پر گئے اور گذرتی گاڑیاں کے
سامنے اپنا دامن پھیلاتے ہوئے کہنے لگے کہ میں عمران خان کے ساتھ ایک کینسر
کے ہسپتا ل کیلئے چندہ جمع کر رہا ہوں ، لہذا مجھ یچندہ دو۔ عمران خان کا
کہنا ہے کہ اس وقت سے آج تک میں اس لمحے کو نہیں بھلا پایا ہوں ۔ ان کے اس
اقدام سے مجھے اپنے ہسپتال کیلئیچندہ جمع کرنے کا بہت حوصلہ ملا۔
سیاسی ، سماجی اور مذہبی جماعتوں کے آپس میں جو بھی اختلافات تھے ، ہیں اور
آئدنہ بھی رہیں اس سے قطع نظر نماز جنازہ کی صفوں میں ایک دوسرے کے ساتھ
کھڑے نظر آئے ۔ پاک سرزمین پارٹی کے رہنما ڈاکٹر صغیر احمد تک اپنے محالفین
سے ملتے ہوئے دیکھائی دیئے ۔ جس سے یہ بات دشمانان پاکستان کیلئے اک واضح
پیغام ہے کہ ذاتی اختلافات اپنی جگہ پر لیکن ملک کیلئے ہم سب ایک ہیں اور
ایک رہیں گے۔
نماز جنازہ کے اختتام پر سبھی کی یہ کوشش تھی کہ وہ جنازے کو کندھا دے لیکن
ایسا ممکن نہ تھا ہزاروں افراد کے مجمع میں سینکڑوں کو بحرحال یہ سعادت
نصیب ہوئی ، عوام نے پچھلی جانب اس دروازے کے قریب بھی قطاریں بنائیں جہاں
سے گاڑی کو گرتے ہوئے نکلنا تھا ۔ اسٹیڈیم سے ایدھی صاحب کے جنازے کے نکلتے
ہی زور دار دھماکہ ہوا جو کہ آرمی کی جانب سے ایدھی صاحب کی خدمات کے عیوض
اک سلامی تھی اس کے بعد متعدد ایسے ہی دھماکے ہوئے اور ہر دھماکے کے بعد
عوام کی جانب سے نعرے بلند کئے جاتے رہے ۔ نماز جنازہ کے بعد بھی عوام
جذبات ناقابل بیاں ہیں۔ ہر فرد کا چہرہ ایسا تھا کہ جیسے اس کا کوئی
انتہائی عزیز اس سے بچھڑ گیا ہو۔ عوام آہستہ آہستہ باہر دروازو ں سے باہر
جانے لگے ، ذرائع ابلاغ کے افراد نے بھی مختلف جگہوں پر اجتماعی طور پر دعا
کی ۔ دعا ہر فرد کی عبدالستار ایدھی کیلئے ، ان کی خدمات کیلئے ، ان کے
راستے پر چلنے کیلئے ، ملک کیلئے اور سب سے بڑھ کر دھکی انسانیت کیلئے تھیں۔
عبدالستا ر ایدھی سے عوامی محبت کا انداز ناقابل بیاں ہے، وہ لوگ جو سمندر
پار ہیں جو دور ہیں اور وہ بھی جو اس شہر میں ہیں لیکن مجبور ہیں ان کی دلی
یہ حواہش تھی کہ اس عظیم انسان کی نماز جنازہ میں شریک ہو، جو ہوسکتے تھے
وہ ہوئے جو نہیں ہوسکے انہوں اپنے دلوں میں ، اپنی زبانوں کے ذریعے دعائیں
دیں۔اس وقت قلم کار کی بھی یہی دعا ہے کہ اﷲ ، ایدھی کے درجات کو بہت بلند
کرئے اور اس کی را ہ پر چلنے والوں کی ہمت و حوصلے کو بڑھائے اور ہم سب کو
عام انسانوں کو بھی اس روش پر چلنے کی توفیق دئے، امین
ایدھی تو چلا گیا لیکن وہ دلوں میں ہمیشہ رہے گا وہ دلوں سے کبھی نہیں جائے
گا۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے بھی اس کے پاس ضرور جائیں گے لیکن اس کا یہ
کام کرنے والے بہت آئیں گے ، اﷲ کی رضا کیلئے انسانیت کی خدمت جاری رہے گی۔ |
|