فرشتہ مر گیا!

 موت یتیم ہوتی تو شاید ایدھی اس کو بھی ایدھی ہومز لے جاتے لیکن یہ حیققت ہے کہ انسانیت کی جنگ لڑنے والے عبدالستار ایدھی موت سے ہار گئے موت برحق ہے لیکن ایدھی صاحب کو مرنا تھا تو آخر عید والے دن ہی کیوں؟ ایدھی عید پر ہمیں سوگوار کر گئے ۔۔۔کیوں؟ شاید ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ کے پھول سجانےوالے کو موت بھی کسی ایسے پل کی پسند تھی جب ہر طرف خوشیاں بکھری ہوں اور وہ قوس قزح کےان رنگوں میں سے اپنا رنگ خاموشی سے کھینچ لے ۔

ایدھی مر گئے ۔۔لکھنا کہنا اور پڑھنا سب بہت مشکل ہے وہ عہد ساز تھے روشنی کا مینار تھے ، انسانیت کی خدمت کے معراج پر تھے وہ تھے تو بےکسوں ، بےسہاروں اور مسیکنوں کو سائباں کا احساس تھا یتیم بچوں کو ان کے روپ میں باپ نظر آتا ہے یتیم لڑکیوں کے لئے وہ بابل تھے معذوروں کے وہ ہاتھ، پاؤں، زبان اور آنکھیں تھے وہ اس زندگی کے بھی امین تھے جو اپنے گناہ چھپانے کے لئے نوزائیدہ زندگی کچرے میں پھینک دیتے تھے وہ کہتے تھے اس پھول کو پھینکوں کو مت اس جھولے میں ڈالو جو انہوں نے اپنے مراکز کے باہر رکھے ہوئے تھے ایدھی صاحب اس زندگی کو بوسہ دیتے، سینےسے لگاتے اور اس کے لئے اپنا تن من دھن وقف کر دیتے ۔

ایدھی صاحب کو میں نے پہلی بار طارق عزیز کے پروگرام نیلام گھر میں دیکھا وہ جب اسٹیج پر آئے تو پورا ہال اس ایک شخص کے احترام میں کھڑا تھا اور اس عظیم سماجی کارکن کے لئے زور زور سے تالیاں بجا رہا تھا جس کی شرافت ، دیانت اور صداقت پر کوئی شک نہیں تھا وہ اسے انسانیت کی خدمت کے مینار کے طور پر دیکھتے تھے ۔ایدھی فاونڈیشن ا ور ایدھی ویلفیر ٹرسٹ کے تحت جتنے بھی ادارے کام کر رہے ہیں وہ سب عبدالستار کی نیک اولاد ہیں اور یہ نیک اولاد اپنی نیکیاں ملک کے کونے کونے میں تقسیم کر ر ہی ہے ۔

دنیا کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم جو حکومت سے ایک پسیہ نہیں لیتی سب سیدھی صاحب کی پارسا اور جدوجہد پر مبنی زندگی کی بدولت ممکن ہو ئی ۔ اردو لغت میں تو نہیں لیکن پاکستانیوں کی ڈکشنری میں ایمبولینس کا مطلب ایدھی ہی ہے جو لاشیں بھی اٹھاتی ہے اور اسے دفناتی بھی ہے ایدھی مجبور، لاغر اور کمزوروں کے ہاتھ تھامتے تھے اسے گلے لگاتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے ۔ ایئر ایمبولینس ، اسپتال ، ڈسپنسریاں۔ شلٹر ہومز، ایدھی ہومز ، میٹرنٹی ہومز،جانوروں کے باڑھے سمیت لاتعداد منصوبے ہیں جو چل رہےہیں اور انشا اللہ چلتے رہیں گے لیکن آہ ۔۔ ان اداروں میں چلتے پھرتے ایدھی نظر نہیں آئیں گے ۔

ایدھی صاحب سچے اور کھرے مسلمان تھے پاکستانیت کا مادہ ان میں کو ٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا وہ پاکستانی لباس پہنتے، ملیشیا کے دو جوڑے وہ باری باری پہنتے تھے اور ان کی وصیت تھی کہ انہیں انہی کپڑوں میں دفن کیا جائے کیوں ۔۔۔۔؟ اس لئے کہ وہ چاہتے تھے کہ کفن کا کپڑا کسی ضرورت مند کا پہناوا بن سکے ۔ ان کی جوتیاں بھی انتہائی سادہ تھیں اور گزشتہ دو دہائی سے ان کے زیر استعمال تھیں کہتے تھے جب ہر شخص کے پاؤں میں جوتا آ جائے گا وہ نیا جوتا لے لیں گے ۔

ایدھی صاحب غریب تھے لیکن وہ دل کے امیر اور وقت کے حاتم طائی تھے تمام عمر اپنا گھر نہیں بنایا لیکن دوسروں کے لئے چھت کا بندوبست کیا ۔پاکستان کے حکمرانوں سے کبھی کچھ نہیں لیا لیکن عوام سےلیا اور جھولی پھیلا کر لیا بھیک مشن بھی شروع کیا لیکن انہوں نے کبھی قوم کی امانت میں سے ایک دھیلا اپنے اوپر خرچ نہیں کیا ایدھی صاحب نے زندگی کے بعد کی زندگی بھی انسانیت کی خدمت کےلئے وقف کر دی تھی ان کی وصیت تھی کہ مرنے کے بعد ان کے اعضا جو کسی کےکام آ سکے عطیہ کر دئیے جائیں ۔

گردے اور شوگر کی بیماری جب انتہا کو پہنچی تو قوم کے بڑے ایک ایک کرکے ان کے در پر آنے لگے عیادت کرتے اور انہیں علاج کے لئے بیرون ملک بھیجنے کی پیش کش کرتے لیکن وہ کہتے کہ ان کا پاکستان میں بہترین علاج ہو رہا ہے اور آخر آٹھ جولائی کی رات موت کا فرشتہ آیا اور اس فرشتہ صفت انسان کو ساتھ لے گیا۔۔۔۔۔اناللہ و انا الیہ راجعون
Shahzad Iqbal
About the Author: Shahzad Iqbal Read More Articles by Shahzad Iqbal: 6 Articles with 4875 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.