پاکستان کے مسیحا ۔۔ عبدالستار ایدھی کا انتقال عظیم سانحہ
(Dr M Abdullah Tabasum, )
عبدالستار ایدھی 1928ء میں بھارت کی ریاست
گجرات میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان کراچی تشریف
لائے،انہوں نے اپنی کل جمع پونجی سے انسانیت کی فلاح اور بھلائی کے لئے
1951ء میں ایک ڈسپنسری قائم کی اور ایدھی صاحب نے ساری عمر سادہ طرز زندگی
اختیار کی ایدھی صاحب ہر پانچ سو کلومیٹر پر ایک ہسپتال بنانا چاہتے تھے ان
کے زیر استعمال جو جوتا ہے وہ بیس سال قبل خریدا گیا تھا ،اب ایدھی
فاؤنڈیشن کے پاس تقریبا 1100سے زاہد ایمبولینس،دو جیٹ طیارے اور ایک ائیر
ایمبولینس موجود ہے ،مگر کبھی بھی ایک پائی ایدھی صاحب نے اپنی ذات پر خراچ
نہیں کی عبدالستار ایدھی نے تقسیم پاکستان کے بعد نفسانفسی کے ابتر دور میں
کراچی میں مختلف فلاحی تنظیموں کے ساتھ ملکر لوگوں کی مدد کرنا شروع کی بعد
ازاں 1951ء میں صرف پانچ ہزار روپوں سے ایک کلینک کی بنیاد رکھی جس کا
دائرہ آج پاکستان سمیت بعض ممالک تک پھیل چکا ہے مرحوم عبدالستار ایدھی نے
کراچی سے فلاحی کاموں کا آغاز کیا اور آج اسی شہر میں دم توڑ گئے بلاشبہ
کراچی سمیت پورا پاکستان ان کا احسان مند ہے انسانیت کے لئے عبدالستار
ایدھی مرحوم کی بے لوث خدمات پر ان کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد
ایوارڈ سے نوازا گیا 1980ء میں پاکستان حکومت نے انہیں نشان امتیاز دیا ،پاکستانی
مسلح افواج کی طرف سے انہیں شیلڈآف آنر پیش کی گئی جبکہ 1992ء میں حکومت
سندھ نے انہیں سوشل ورکر آف سب کونٹی نینٹ کااعزاز دیا ،بین الاقامی سطح پر
1986ء میں عبدالستار ایدھی کو فلپائن نے (Ramon Magsaysay Award) دیا
،1993ء میں روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے پاؤل ہیرس فیلو دیا گیا
1988ء میں آرمینیا میں زلزلہ ذدگان کی خدمات کے صلے میں ان کو امن انعام
برائے یو ایس ایس دیا گیا ،راقم ڈاکٹر ایم عبداﷲ تبسم کے نزدیک عبدالستار
ایدھی نوبل انعام کے حق دار تھے پاکستان کے زرائع ابلاغ کو چاہیے کے نوبل
انعام کیکے لئے نامزدگی کے لئے بھرپور مہم چلانی چاہیے،انکے صاحبزادے فیصل
ایدھی اور ان کی بیگم بلقیس ایدھی کی طرف سے بتایا گیا کہ کراچی کے ایس آئی
ٹی یو میں ڈائلسز کے دوران ان کے سانس اکھڑنے پر ڈاکٹروں نے انہیں وینٹی
لیٹر پر منتقل کر دیا تھا وہ 2013ء سے ڈائلسز ٹریٹمنٹ پر تھے ان کو کئی ایک
امراض لاحق تھے جن میں شوگر ،بلند فشار خون کی باعث ان کے گردے فیل ہو چکے
تھے عمر زیادہ ہونے کے باعث ٹرانسپلانٹ ممکن نہ تھا وہ تقریبا چھ گھنٹے
وینٹی لیٹر پر رہے رات گئے ان کے صاحبزادے فیصل ایدھی نے دکھی دل کے ساتھ
اپنے والد اور عظیم محسن پاکستان کے انتقال کی اطلاع دی ،ان کی نماز جنازہ
بولٹن مارکیٹ کی میمن مسجد میں ادا کی گئی ان کی وصیت تھی کہ وہ جس لباس
میں انتقال کریں اسی لباس میں تدفین کی جائے جبکہ انہوں نے اپنے اعضاء بھی
عطیہ کرنے کی وصیت کی تھی فیصل ایدھی کے مطابق ایدھی ویلج میں 25سال قبل
تیار کروائی گئی قبر میں تدفین کی جائے گی اس سے قبل ایس اٗی یو ٹی کے
ترجمان کے مطابق عبدالستار ایدھی گزشتہ دس سالوں سے ایس آئی ٹی یو میں علاج
کروا رہے ہیں جبکہ 2013ء سے ڈائلسز بھی یہی ہو رہے تھے عبدالستار ایدھی کی
وفات کی خبر پوری قوم پر بجلی بن کر گری اور تمام افراد ایک دوسرے سے لگ کر
روتے رہے ملک بھر میں قائم ایدھی فاؤنڈیشن کے ملازمین اور کارکنان دھاڑیں
مار کر روتے رہے کہ ’’ جس نے لاوارثوں کو اپنا نام دیا‘‘ آج پھر وہ سب کو
بے نام کر گیا ،عبدالستار ایدھی کے انتقال پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد
نواز شریف کا ایک روزہ سوگ کا اعلان قومی اعزاز کے ساتھ تدفین کا اعلان کے
ساتھ ساتھ قومی پرچم سرنگون رہے گا سندھ پولیس کا دستہ نے ان کو سلامی دی ،ان
کی وفات پر ہر آنکھ اشکبار ،ہر انسان سوگ میں ڈوبا رہا آرمی چیف جنرل راحیل
شریف کا کہنا تھا کہ ملک ایک انسان دوست ہستی سے محروم ہو گئے پاک فوج کے
ادارہ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کاکہنا تھا کہ عبدالستار ایدھی
انسانی ہمدردی رکھنے والی شخصیت تھے اﷲ تعالی عبدالستار ایدھی کو اپنی جوار
رحمت میں جگہ دے اور اﷲ تعالی ایدھی صاحب کے اہل خانہ کو صبر دے اس کے
علاوہ انسانیت کے لئے مرحوم عبدالستار ایدھی نے گراں قدر خدمات سرانجام دی
آج ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس دو جیٹ ظیارے ایک ائیر ایمبولینس سمیت تقریبا
گیارہ سو ایمبولینس کا بیڑہ شامل ہے ،صدر مملکت ممنون حسین ،چیئرمین سینٹ
رضا ربانی ،چاروں وزرائے اعلی میاں شہباز شریف ،سید قائم شاہ،ثناء اﷲ
زہری،پرویز خٹک،مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین ،چوہدری پرویز الہی ،تحریک
انصاف کے سربراہ عمران خان ،جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ،عوامی تحریک
کے ڈاکٹر طاہر القادری سمیت وفاقی و صوبائی وزراء سیاسی جماعتوں کے قائدین
نے عبدالستار ایدھی کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ان کے انتقال پر
ملک وقوم کے لئے ناقابل تلافی نقصان قرار دیتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں
عبدالستار ایدھی جیسی ایک شخصیت بھی موجود نہیں ،عبدالستار ایدھی 1928ء میں
بھارت کی ریاست گجرات میں پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان کراچی
تشریف لائے،اور 1951ء میں پانچ ہزار روپوں سے ایک ڈسپنسری قائم کی اور
1957ء میں کراچی میں وبائی امراض پھیلنے پر کراچی میں خیمے لگوا کر معدافتی
ادویات تقسیم کی گئی اور بعد ازاں جس میں ڈسپنسری قائم کی اس عمارت کو خرید
لیا گیا اور اس عمارت میں میٹرنٹی ہوم کے ساتھ ساتھ نرسوں کے لئے تربیت
سینٹر قائم کیا گیا پہلی ایمبولنس خریدی گئی تو عبدالستار ایدھی خود چلاتے
رہے اور ایدھی فاؤنڈیشن اب کراچی سے نکل کر ملک کے کونے کونے میں پھیلتی
گئی اور کوئی شہر ایسا نہیں ہے جس میں ایدھی سروسز فراہم نہ کر رہا
ہو،ایدھی صاحب نے کبھی سادہ زندگی کو ترک نہیں کیا وہ ہمیشہ اس بات کو سخت
نا پسند کرتے تھے کہ کوئی ان کے کام کی ان کے سامنے تعریف کرے وہ امیر ترین
شخصیت ہونے کے باوجود غریب آدمی تھے ،سلام ۔۔۔تجھ پر اے عبدالستار ایدھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم
شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|