خلیفۂ دوم ۔۔۔ حضرت عثمان غنیؓ

صدر گرامی و حاضرین ذی وقار شہیدِ مظلوم ، حضرت عثمان بن عفانؓ ، خلیفہ ٔ ثالث اور حضرت عمرؓ کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی شخصیت ہیں۔ آپ واقعہ فیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے، مال دار اور بنو اُمیہ کے معزز گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ شروع سے ہی سلیم الطبع تھے، اسلام لانے سے پہلے بھی تمام برائیوں سے دور رہے۔ ۳۴ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا، سب سے پہلے کاتب وحی تھے، چنانچہ جب باغیوں نے آپؓ پر حملہ کیا اور آپ کے ہاتھ پر تلوار ماری تو فرمانے لگے:’’یہ سب سے پہلا ہاتھ ہے، جس نے قرآن کریم کی کتاب کی تھی۔ ‘‘ آپ دُنیا کے پہلے شخص ہیں جن کے عقد میں یکے بعد دیگرے کسی نبی کی دو بیٹیاں آئیں۔ اِسی بنیاد پر حضرت عثمانؓ زمین و آسمان دونوں میں ذوالنورین (دو نور والے) کے لقب سے موسوم ہوئے۔ حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا اِرشاد ہے: ’’(عثمان کا کیا پوچھنا) وہ ایک ایسے شخص ہیں ، جو ملائے اعلیٰ میں ذوالنورین کے لقب سے پکارے جاتے ہیں، آپﷺ نے اُن کے لیے جنت میں محل کی ضمانت دی ہے۔ ‘‘ حیادار اتنے تے کہ انسان تو انسان ، فرشتے بھی حضرت عثمان غنیؓ سے حیا کیا کرتے تھے ۔ سخی اتنے کہ مسلمانوں کو جب بھی ضرورت پڑی ، دل کھول کر مال خرچ کیا۔ چاہے پانی کا مسئلہ ہو یا جنگی سازو سامان کا، مسجد نبوی ؐ کی توسیع ہو یا مسلمانوں اور آپؐ کی مدد کا، حضرت عثمانؓ ہمہ وقت پیش پیش رہے۔

حضرت عثمانؓ بہت نرم طبیعت کے انسان تھے، حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد مسند ِ خلافت کے لیے اُن کا اِنتخاب ہوا تو اُنہوں نے حضرت عمرؓ کے کام کو آگے بڑھایا۔ حضرت عثمانؓ کے عہد میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور اسلامی حکومت کی سرحدیں آرمینیا اور آزر بانیجان سے ہوتی ہوئی کوہ قاف تک پھیل گئیں۔ بحری فتوحات کا آغاز بھی عہد ِ عثمانیؓ ہی میں ہوا اور آپؓ نے خطرات سے بے پروا ہو کر ایک عظیم الشان بحری بیڑاتیار کرایا اور قیصر روم کے پانچ سو جہازوں والے بیڑے کوشکست دینے کے ساتھ ساتھ جزیرۂ قبرص پر اسلامی جھنڈا لہرایا۔ حضرت عثمانؓ چونکہ نرم طبیعت کے مالک تھے اور لوگوں کے خلاف سختی آپ کے مزاج کے خلاف تھی اور دوسری طرف ساری توجہ اسلامی فتوحات کی طرف تھی ، اس لیے سازشی عناصر کی طرف سے آپ کی توجہ ہٹ گئی ، لہٰذا اُن کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا اور آپؓ کے خلاف غلط پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا۔

جناب والا! اس تحریک کا سرغنہ عبداﷲ بن سباء یمن کا رہنے والا ایک یہودی تھا، جس نے بظاہر اِسلام کا لبادہ اوڑھ لیا تھا، لیکن حقیقتاً وہ مسلمانوں اور اِسلام کا دُشمن تھا۔ اُس نے اندرونی طور پر خفیہ تحریک چلائی اور شریعت اِسلامی کے اُصولوں اور عقائد کے سراسر منافی باتوں کی تشہیر کی اور مختلف علاقوں کا دورہ کر کے اِسلام اور حضرت عثمانؓ کے خلاف باتیں پھیلائیں ، یہی وہ پہلا شخص تھا جس نے خلفائے راشدین کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اپنے مصنوعی زہد و تقویٰ کے جال میں سادہ لوح مسلمانوں کو دامِ فریب میں لے کر اُن کے ذہنوں کو غلط عقائد سے زہر آلود کرنے لگا۔ اُس نے مختلف علاقوں میں اپنی تحریک کے لیے ایسے لوگوں کو چنا جو کسی بھی حوالے سے حضرت عثمانؓ یا اسلام کے خلاف تھے۔اور اُن کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ مصر اِس کی تحریک کا سب سے بڑا مرکز تھا، اِس کے علاوہ اُس نے باقی چار صوبوں کے دارالخلافوں یعنی مدینہ طیبہ ، کوفہ ، بصرہ اور دمشق کا بھی دورہ کیا اور اپنی تحریک کی کامیابی کے لیے مختلف لوگوں کا استعمال کیا اور اپنے سازشی اور چالاک ذہن سے حضرت عثمانؓ کے خلاف غلط باتوں کی تشہیر کر کے عام مسلمانوں کو حضرت عثمانؓ سے بددل کیا۔

مملکت اسلامیہ کے مختلف صوبوں میں سبائی اپنی تخریبی کارروائیاں تیز سے تیز کر رہے تھے اور امیرالمومنین حضرت عثمانؓ اور اُن کے گورنروں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے میں مصروف تھے۔ اُن کی جماعت مملکت اسلامیہ میں بہت تیزی سے پھیل رہی تھی لیکن ہر علاقے کے فسادیوں (سبائیوں) کا نقطۂ نظر الگ الگ تھا۔ عبداﷲ بن سباء نے اپنی چالاکی سے تمام جماعتوں کو امیرالمومنین حضرت عثمانؓ کے خلاف متحد و متفق کر دیا تھا۔

ان تمام حالات و واقعات اور فتنوں کی رپورٹ مدینہ طیبہ میں امیر المومنین حضرت عثمانؓ کو مل رہی تھی اور جن الزامات کی بنیاد پر یہ تحریک فتنہ بنی ہوئی تھی ، اُن کے مدلل جوابات بھی آپؓ کے پاس تھے، لیکن آپؓ اپنی بصیرت سے یہ بات دیکھ رہے تھے کہ اس آگ کو اب بجھانا بہت مشکل ہے، آپؓ نے اس فتنے اور بغاوت کو ختم کرنے کی آخری کوشش کی اور تمام گورنروں کی ایک مجلس منعقد کی ، تا کہ اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کچھ کیا جائے، یہ مجلس دو تین دن جاری رہی لیکن کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ گورنر کوفہ حضرت سعید بن العاصؓ بھی چوں کہ اس مجلس کے لیے مدینہ طیبہ آئے ہوئے تھے، اُ ن کے پیچھے کوفے میں فسادیوں (سبائیوں) نے فیصلہ کیا کہ ہم گورنر کوفہ حضرت سعید بنالعاصؓ کو واپس کوفہ نہیں آنے دیں گے اور اس مقصد کے لیے تلوار کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ حضرت سعید بن العاصؓ نے حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے امیر المومنین ؓ سے درخواست کی کہ آپؓمیری جگہ حضرت ابوموسیٰ الاشعری ؓ کو کوفے کا گورنر بنا دیں تو حضرت عثمانؓ نے اُن کی اس بات کو مان کر حضرت ابو موسیٰ الاشعری کو کوفے کا گورنر بنا دیا۔

جناب والا! حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ کے گورنر کوفہ بننے کے بعد فسادیوں کے پاس فساد کرنے کی کوئی وجہ سے نہیں رہی تو عبداﷲ بن سباء کے مشورے سے تقریباً پانچ سو فسادی (سبائی) مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینہ طیبہ کے قریب ایک گاؤں حجفہ میں آکر ٹھہرگئے۔ مقصد یہ تھا کہ مدینے جا کر حضرت عثمانؓ پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دیں اور اپنے ناجائز مطالبات منوائیں۔ حضرت عثمانؓ نے مفاہمت اور اُن فسادیوں کو سمجھانے کے لیے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو اُن کی طرف بھیجا ، لیکن اُنہوں نے حضرت علیؓ کی بات نہیں مانی۔ پھر امیر المومنین ؓنے تمام فسادیوں کو مسجد نبویؐ میں بلا کر تمام اہلیان مدینہ کے سامنے اُن کے اعتراضات کے جوابات دیے تو اہلیانِ مدینہ نے کہا کہ ان فسادیوں کو قتل کر دیں لیکن حضرت عثمانؓ نے اس بات کو نہیں مانا اور وہ تمام فسادی دوبارہ آنے کا کہہ کر (ڈر کر )واپس چلے گئے۔

عبداﷲ بن سباء فسادیوں (سبائیوں )کے اس طرح واپس آنے سے بڑا مایوس ہوا اور اُس نے ایک منصوبہ بنایا کہ ہر صوبے کے فسادی (سبائی) مدینے کے نواح میں اکٹھے ہوں اور امیرالمومنین حضرت عثمانؓ کی معزولی کا مطالبہ کریں،چنانچہ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہر صوبے سے چار چار گروہ چار امراء کی سرکردگی میں نکلے اور ظاہر یہ کیا کہ ہم حج کے لیے جا رہے ہیں۔ یہ تمامگروہ مدینے سے کچھ فاصلے پر رُک گئے۔ اُنہوں نے جب یہ دیکھاکہ اہلیانِ مدینہ لڑنے کے لیے تیار ہیں تو اُنہوں نے کہا کہ ہم تو صرف امیرالمومنین ؓ کی معزولی چاہتے ہیں ہمیں صرف مدینے میں داخلے کی اجازت دے دی جائے ، اہل مدینہ نے اس بات کی اجازت نہیں دی لیکن یہ لوگ اپنے مطالبے پر اڑے رہے، آخر کار حضرت علی کرم اﷲ وجہہ چند صحابۂ کرامؓکو لے کر مفاہمت کے لیے آئے اور اُن باغیوں کو بہت سمجھایا لیکن یہ لوگ نہیں مانے ، لیکن جب باغیوں پر دباؤ پڑاتو اُنہوں نے یقین دلایا کہ ہم واپس چلے جاتے ہیں لیکن یہ لوگ واپس نہیں گئے ۔ صحابۂ کرام ؓ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو صحابہ کرامؓ حضرت عثمانؓ کی حفاظت کے لیے قصر خلافت میں جمع ہو گئے ۔ جب کہ کچھ باغی حضرت عثمانؓ کے گھر کی طرف چلے گئے اور کچھ نے مدینے کا محاصرہ کر لیا ۔ آخر کار باغیوں نے حضرت عثمانؓ سے خلافت سے معزولی کا مطالبہ کیا، لیکن امیر المومنینؓ نے اس سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ: ’’جب تک مجھ میں آخری سانس باقی ہے ، میں اس قمیص (خلافت) کو جو اﷲ تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے، خوداپنے ہاتھ سے کبھی نہیں اُتاروں گا اور رسول اﷲ ﷺ کی وصیت کے مطابق اپنی زندگی کے آخری لمحے تک صبر سے کام لوں گا‘‘۔

صدر محترم حضرت عثمانؓ کے انکار پر باغیوں نے امیر المومنین کے مکان کا محاصرہ کر لیا جو کہ چایس روز تک جاری رہا، اس عرصے میں اندر پانی تک پہنچنا جرم تھا، کبھی کبھی سامان رس پڑوسی سے پہنچ جاتا تھا، باغیوں کی جرأت اتنی بڑھ گئی تھی کہ حضرت عبداﷲ بن سلامؓ اور حضرت ابوہریرہؓ وغیرہ تک کی نہیں سنی گئی اور اُن کی توہین کی گئی۔ حضرت علیؓ کو حضرت عثمانؓسے ملنے نہیں دیا گیا۔ بہت سارے صحابۂ کرام ؓ حج کے لیے تشریف لے جا چکے تھے ، کبار صحابۂ کرامؓ حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زیبرؓ نے اپنے صاحب زادوں کو حضرت عثمانؓ کی حفاظت کے لیے بھیج دیا، حضرت حسنؓ اور حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ دروازے پر پہرہ دے رہے تھے۔

حضرت عثمانؓ نے باغیوں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی ، لیکن وہ نہیں مانے۔ جاں نثاروں نے آ کر کہا کہ آپؓ حکم دیں ، ہم ان سے لڑتے ہیں ، لیکن حضرت عثمانؓ نے اُن کو لڑنے سے روک دیا اور فرمایا کہ :’’میں وہ پہلا خلیفہ بننا نہیں چاہتا جو کہ اُمت محمدیہ ﷺ میں خون ریزی کرے۔‘‘

حضرت عثمانؓ کو آنحضرتﷺ کی پیش گوئی کے مطابق یقین تھا کہ شہادت مقدر ہو چکی ہے۔ جس دن شہادت ہوئی جمعتہ المبارک کا دن تھا۔ آپؓ روزے سے تھے ۔ خواب میں آپ ؐ کی زیارت ہوئی۔ آپ ؐ فرما رہے ہیں کہ : ’’اے عثمانؓ ، جلدی کرو، ہم افطار میں تمہارے منتظر ہیں۔‘‘پھر پاجامہ جس کو کبھی نہیں پہنا تھا ، منگوا کر پہنا اور اپنے بیس غلاموں کو آزاد کر کے تلاوت میں مصروف ہو گئے۔

باغیوں نے جب یہ دیکھا کہ سامنے کے دروازے پر صحابۂ کرام کا پہرہ ہے، تو وہ عقبی دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہوگئے۔ پہرے داروں کو اس کی خبر نہ ہوئی ، دیوار پھاندنے والوں میں محمد بن ابی بکر پیش پیش تھا، اُس کے ساتھ کنانہ بن بشر، سودان بن حمران اور عمرو بن الحمق تھے، اُنہوں نے دیکھا کہ امیرا لمومنین ؓ تلاوت میں مصروف ہیں ، تو محمد بن ابی بکر نے آگے بڑھ کر حضرت عثمانؓ کی داڑھی مبارک پکڑ کر جھٹکے دیے، حضرت عثمانؓ نے فرمایاکہ : ’’اے بھتیجے ، اگر تمہارے والد زندہ ہوتے تو اُن کو یہ پسند نہ آتا‘‘۔ یہ سننا تھا کہ محمد بن ابی بکر نادم ہو کر واپس چلے گئے ، اس کے بعد کنانہ بن بشر نے آ پؓ کی پیشانی پراِس زور سے لوہے کی لٹھ ماری کہ سیدنا عثمانؓ پہلو کے بل گر پڑے اور خون کا فوارہ جاری ہو گیا۔ آپؓ کی زبان سے ’’بسم اﷲ توکلت ‘‘کے الفاظ نکلے، اس کے بعد عمرو ابن الحمق نے آپؓکے سینے پر چڑھ کر نیزے کے نو وار کیے۔ پھر سودان بن حمران نے آگے بڑھ کر داماد رسولؐ ، امیر المومنین ؓ کو شہید کر دیا۔

امیر المومنین حضرت عثمان بن عفانؓ کی مظلومانہ شہادت ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ھ ، جمعتہ المبارک کے دن ، عصر کے وقت ہوئی۔ صحابۂ کرام ؓ میں صف ِ ماتم بچھ گئی۔ بہت سے صحابۂ کرامؓ ہوش و حواس کھوبیٹھے ، جس کی وجہ سے تجہیز و تکفین کے عمل میں تاخیر ہوئی اور سیدنا عثمان بن عفانؓ کو ہفتے کے روز ، مغرب اور عشاء کے درمیان جنت البقیع کے مشرق میں حش کوکب میں دفن کیا گیا۔ آپؓ کی نماز جنازہ سیدنا زبیرؓ نے پڑھائی۔

سیدنا عثمانؓ کی مظلومانہ شہادت سے اُمت ِ محمدیہﷺ کا نقصان ہوا اور فتنہ و فساد کا ایک دروازہ کھل گیا، جو قیامت تک بند نہیں ہو سکے گا ، لیکن جنہوں نے حضرت عثمانؓ کوشہید کیا، اُن کا انجام بھی اچھا نہیں ہوا اور تمام قاتلین عثمانؓ عبرت ناک انداز میں مارے گئے۔
 
Dr Izhar Ahmed Gulzar
About the Author: Dr Izhar Ahmed Gulzar Read More Articles by Dr Izhar Ahmed Gulzar: 46 Articles with 73419 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.