ایدھی یقینا قابل فخر

قران مجید فرقان حمید میں ارشاد ہے کہ ـ" کہ جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی اور جس نے ایک شخص کو ناحق قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا " ۔ قرآن حکیم کی اس آیت کا حقیقی وارث، جانشین اور داعی محمد ﷺیعنی رحمت للعالمین کی ذات ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی کی نعت کے بول تو کمال ہیں ۔وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا،مرادیں غریبوں کی بھر لانے والا۔ مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا، وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا۔ فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماوی، یتیموں کا والی غلاموں کا مولی۔مفاسد کو زیر وزبر کرنے والا ۔قبائل کر شیر وشکر کرنے والا۔ اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا، اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا۔امت کا اجماع ہے کہ محسن انسانیت، رہبر شریعت، خادم انسانیت، پیکر اخلاق و شرافت، تعلیمات کے سب بڑے پیامبر، اﷲ کی سب سے بڑی برگزیدہ ہستی ، رشد و ہدایت کا مجسمہ، نور و کمالات کاممبع اور دنیا ئے عالم کے لئے رول ماڈل حضور سرورکائنات ﷺ کی ذات اقدس ہیں جو انسانیت کی خدمت کے سب سے بڑے مدرس،معلم اور مبلغ ہیں۔آپ ﷺ کی ذات مبارکہ کی تعلمیات اور روشن دلائل کا ہی نتیجہ تھا کہ جب لوگ اپنے گھروں میں رات کی میٹھی چاشنی کا سکون لیکر آرام فرمارہے ہوتے تھے تو حضرت عمرؓ بستیوں ، گلیوں اور گھروں کے باہر چکر لگایا کرتے تھے اور اگر کسی گھر سے رونے ، جھگڑنے یا شور شرابے کی آواز سنائی دیتی تو دروازہ کھٹکھٹا کر خیریت دریافت کر کے مسائل حل فرماتے کہ کہیں ایسا نہ ہومیں آرام کی نیند سو کر غفلت کا مظاہر ہ کروں اور میرے نبیﷺ کا کوئی امتی بے چین، مضطرب ،پریشان ، بھوکایا مسائل سے دوچار ہو ۔یہی وجہ ہے کہ محمد عربیﷺ کے تلمیذ رشید کا بنایا ہوانظام آج یورپ میں عمرلاء کے نام سے نافذ ہے ۔خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ تن تنہاچوبیس لاکھ مربع میل کے بادشا ہ ہوتے ہوئے بھی بیت المال کی کڑی نگرانی فرماتے، نہ کبھی ایک پائی خود لی نہ کسی کو اس میں سے کوئی زائد حصہ دیا۔رہتی دنیا تک کے لیے روشنی کے چراغ ، انسانیت کے حقیقی استعارہ اور اور امید و خوشحالی کا مینارہ محمد ﷺ کی ہی صحبت کا اثر تھا کہ خلیفہ دوم عمر فاروق نے انسانیت کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ، بلکہ اکثر فرماتے تھے کہ اگر میری سلطنت میں فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو کل صبح روز قیامت خدا کے ہاں سخت طلبی ہو گی۔

یہ دن ہی کچھ ایسا تھا ،دل رنجیدہ تھا، پریشا ن حال کیفیت دماغ کو کچھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے ہٹا رہی تھی۔ہر طرف ایدھی ایدھی اور ایدھی کی خدمات کا تذکرہ تھا کہ یتیموں اور بیواؤں کے لیے ایدھی سینٹرز کسی ماں کی آغوش سے کم نہیں اور ایدھی فاؤنڈیشن کا ایمبولنس نیٹ ورک دنیا کا سب بڑا نیٹ ورک ہے۔ ایدھی صاحب کی وفات پر اور اگلے دو دن کی ٹی وی نشریات پرنیوز کاسٹرز، ٹی وی اینکرز اور مختلف تنظیموں کے نمائندے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے نظر آرہے تھے ۔ بے شمارلوگ انکے لئے اعزازات کی بات بھی کر رہے تھے کہ انہیں نوبل انعام سے نواز اجائے ، حالانکہ ایدھی جیسی شخصیت کسی ایوارڈ کے حصول سے کہیں آگے تھی۔ ہر ایک بھاری دل کیسا تھ ایدھی مرحوم کی خدمات پر روشنی، انکے سادہ رہن سہن پر خوبصورت تبصرے اور ایمانداری کے چرچے کرنے میں مصروف تھا۔ماحول سوگوار تھا کیونکہ آج پاکستان بلکہ دینا بھر کی فلاحی تنظیموں کے لئے روشن مثال اور ایمانداری کا حقیقی باب اس دنیا فانی سے کوچ گر گیا تھا۔ آج فلاحی تنظیمیں ایدھی کی فلاح کی شمع ڈھونڈنے کو بے تاب تھیں۔ ا نسانیت سے محبت رکھنے والی ہر آنکھ اشبار تھی یا کم از کم غم زدہ تھی۔ انسانیت کے فلاح وبہبود کے خادم اعلی کا جنازہ تھا ۔جنازے کا ماحول ایسا کہ دنیا میں کم ہی لوگوں کو ایسی فضاء ، پروٹوکول ، چاہنے والوں کی محبت اور انسانیت سے وفا کا صلہ ملتا ہے۔ ایسا پروٹوکول ملتا بھی کیوں نہ ؟ اپنی طاقت و بساط کے مطابق خدمت انسانیت کے لیے اپن تن من دھن قربان کرنے والے ایدھی نے چھوٹے سے گھر، دو کپڑوں کے جوڑوں اور ایک جوتے میں اپنی کالی ٹوپی اورلمبی نورانی داڑھی کی شناخت کیساتھ شاہانہ زندگی گزاری ۔ جو تھا لٹا دیا ، جو آیا لٹا دیا ، جب گیا تو غریب انسانیت کی خدمت پر زور دیتے دیتے چلا گیا۔ ایدھی صاحب کے جنازے میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان، وزائے اعلیٰ، اعلیٰ سیاسی و سماجی شخصیات، سرکاری حکام سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ آپ کو 100 سے زائد اعزازات سے نوازا گیا۔ دنیا بھر میں آپ ان چند شخصیات میں سے ہیں جنہیں ملٹری گن کیرج وہیکل جیسے اعلی عسکر ی روایت سے نوازا گیا اور آپ پاکستان کی پانچوں شخصیت ہیں جنہیں اعلیٰ ترین فوجی وسرکاری اعزاز و اکرام کیساتھ دفنایا گیا۔ایدھی صاحب ایک سچے دردمند سماجی رہنما تھے جنہوں نے محمد عر بیﷺ کی اس صفت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا کہ انسانیت کی خدمت کر کے ہی خدا کے ہاں سرخرو ہوا جا سکتا ہے۔یقینا ایدھی صاحب سب کو سوگوار کر گئے لیکن ایدھی صاحب نے نبی پاکﷺ کا جو علم سنبھالا تھاوہ علم انسانیت اب ہمیں اور اونچا کرنا ہے اور ہر قسم کی مایوسی کی بات کرنے سے پہلے ایدھی صاحب کے آخری پیغام کو اپنا مشن بنانا ہے۔اقبالؒ نے ایدھی صاحب جیسی قد آور شخصیا ت کے لیے یہ اشعار کہے تھے کہ خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے ،میں اسکا بندہ بنوں گا جسکو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا۔ایدھی صاحب دین نے اسلام کے فرامین کے عین مطابق انسانی خدمت کو اپنا مقصد حیات بنا یا جو دنیائے انسانی کے تمام خادموں اور فلاحی کاموں کا بیڑہ اٹھانے والوں کے لیے مشعل را ہ بنے۔من حیث القوم ہم لوگوں میں ایک خامی ہے کہ جب کوئی ہم میں موجود ہوتا ہے تو ہم اسکی قدر نہیں کرتے لیکن اس کے چلے جانے کے بعد سر پیٹتے ہیں۔اسی طرح بے شما ر خدمت انسانیت کے جذبے سے سرشار تنظیمیں تعلیم، یتیم، صاف پانی ، قرضہ حسنہ، ایمرجنسی،صحت ، خواتین کے حقوق اور دیگر ضروریات انسانی پر کام کر رہی ہیں لیکن آج ریاست کو اسکا کوئی احساس نہیں ۔شوکت خاتم ، چھیپا، اخوت، فلاح انسانیت ، سیلانی ٹرسٹ، عورت فاؤنڈیشن، الخدمت فاؤنڈیشن ، ہیلپنگ ہیڈ، سویٹ ہومز وغیر ہ جیسے اداروں کی خدمات اپنی مثال آپ ہیں۔
ایدھی صاحب جیسے بلند مرتبت لوگ اور عظیم سماجی رہنما ء کا اس دنیا سے چلے جانا ہمارے لیے گہرا صدمہ ہے ۔ آپ کے جانے بعد آپکی وصیت کے مطابق آپکی فاؤنڈیشن کامشن مزید مضبو ط کرنے کے لیے مزید ایدھی پیدا ہونگے اور اسی طرح خدمت اور عبادت جاری و ساری رہیں گے اور فیصل ایدھی علم ایدھی سنبھالیں گے۔
Shahzad Saleem Abbasi
About the Author: Shahzad Saleem Abbasi Read More Articles by Shahzad Saleem Abbasi: 156 Articles with 112748 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.