عبدالستار ایدھی ۰۰۰ یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے

 عبدالستار ایدھی اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔صدر پاکستان، وزیر اعظم اور دیگر اہم شخصیات کے علاوہ عالمی سطح پر عبدالستار ایدھی کے انتقال پر تعزیتی پیامات کا لامتناہی سلسلہ جاری تھا لیکن خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ایدھی فاؤنڈیشن کے خادمین اپنے قائد کی موت پر سوگ منانے کے بجائے انکی روح کو سکون و راحت پہنچانے اور انکی مغفرت کروانے ، انکی قبر کی پہلی منزل کو آسان بنانے کیلئے بیماروں کی تیمارداری، لاوارثوں کی دیکھ بھال اورمستحقین کی مدد کیلئے خدمات کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ شاید یہ پاکستان کی پہلی غیر سرکاری شخصیت ہے جسے پورے سرکاری اعزازات کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ عبدالستار ایدھی کی غریبوں، محتاجوں، لاورثوں، اباہیجوں، بن بیاہی بچیوں، ضعیفوں او ربیماروں کے لئے خدمات مسلمہ رہی ہیں۔ انکی موت کی خبر پر پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر رنج و غم کا اظہار کیاگیا۔ ایک ایسا چراغ جس نے غریبی کو دور کرنے، بیماروں کو شفایاب اور محتاجوں ، غمزدوں کے دکھ درد کو سمجھتے ہوئے انہیں تسکین و راحت پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا تھا آخر کار اپنے دنیوی عمر تمام کرکے رخصت ہوچلا۔عبدالستار ایدھی کی خدمات کو آگے بڑھانے میں جہاں تک امیرو کبیر شخصیات کا ہاتھ ہوگا وہیں غریب محتاجوں نے بھی اپنی محنت کی کمائی میں سے ایدھی فاؤنڈیشن سے تعاون کرتے رہے اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ کیونکہ اس مرحوم شخصیت نے جس جذبہ کے تحت اپنی خدمات کا بیڑہ اٹھایا تھا اس کی کامیابی کے لئے ہر سطح سے تعاون دراز کرنے والوں نے انکا ساتھ دیا اور وہ اپنی منزلِ مقصود کی طرف رواں دواں کامیاب زندگی گزار کر مشعلِ راہ بن گئے ۔ انکی شریک سفر ہو یا اولاد سبوں نے اپنے اس عظیم مسیحا کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے انکا ساتھ دیا اور آج ایدھی فاؤنڈیشن دنیا کا شایدوہ واحد اور منفرد ادارہ ہونگا جو انسانی بنیاد پر خدمات انجام دیتے ہوئے ہر سطح کے افراد و بچوں سے دعائیں حاصل کررہا ہے۔

ایدھی فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے بانی عبدالستار ایدھی یکم؍ جنوری1928ء ہندوستانی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے اور 8؍ جولائی 2016کو پاکستان میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ تقسیم ہند کے بعد انکے خاندان نے 4؍ ستمبر1947کو پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں میٹھادر کو اپنا مسکن بنایا۔تاریخی شواہد کے مطابق عبدالستار ایدھی بچپن سے ہی خدمت خلق کا جذبہ رکھتے تھے ، ابتدائی تعلیم کے دوران انہیں گھر سے ملنے والے دو پیسے میں سے ایک پیسہ ضرورت مندوں پر خرچ کرتے ، تاہم اس عظیم بین الاقوامی سماجی خدمت گزار کی زندگی کو نیا موڑ اس وقت حاصل ہوا جب انکی والدہ بیمار ہوگئیں ۔ ابھی وہ گیارہ سال کی عمر کو پہنچے تھے کہ انکی والدہ صاحبہ کو فالج آگھیرا ، عبدالستار ایدھی نے اپنی والدہ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور انکے علاج معالجے سمیت ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے خدمات انجام دیتے رہے ۔ والدہ صاحبہ کی تیمارداری کے ساتھ ان میں انسانی خدمت کا جذبہ پیدا ہوتا گیا ۔ والدہ کی ہر طرح خدمت کرتے رہے اس دوران انہیں تعلیم ترک کرنی پڑی اور وہ صرف ہائی اسکول سطح تک بھی تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ والدہ کے انتقال کے بعد وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے لگے۔ انہوں نے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے پنیں ، دھاگہ اور دیگر مصنوعات بھی فروخت کیں جس سے انہیں آمدنی حاصل ہونے لگی۔ والدہ کے انتقال کے وقت انکی عمر 19سال تھی۔ والدہ کی طویل بیماری اور موت نے عبدالستار ایدھی کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ دنیا میں ایسی کتنی مائیں ہونگی جو انکی والدہ کی طرح بیماری میں مبتلا ہونگیں اور ان میں سے کئی ماؤں کی تیماری داری کرنے والے بھی نہیں ہونگے۔ یہی سوچ نے انہیں بے بس لوگوں کی مدد کرنے پر ابھارا، ان کے ذہن میں بے بس اور بے سہارا لوگوں کے لئے ویلفیئر سینٹرز اور ہاسپٹلز قائم کرنے کا ارادہ ہوا تاکہ بے سہارا اور غریب لوگوں کو یہاں رکھ کر علاج کرایا جاسکے، انکے ذہن میں معزور لوگوں کی مدد کرنے کا خیال بھی جس کے لئے انہوں نے بھر پور خدمت کا بیڑہ اٹھایا۔ 1951ء میں وہ اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور ایک ڈاکٹر کی مدد سے ڈسپنسری کی بنیاد ڈالی، وہ اس ڈسپنسری کے سامنے ہی سوجایا کرتے تھے تاکہ کسی کی بھی مدد کو فوری پہنچ سکے، اس ڈسپنسری میں غریبوں کو مفت علاج کی سہولت مہیا کی جانے لگی، 1957ء میں جان لیوا ہانگ کانگ فلو کے باعث ہزاروں لوگ بیمار پڑگئے جس کے بعد اس عظیم سماجی رہنما کی خدمات کا دائرہ پہلی مرتبہ میٹھادر سے باہر دیکھا گیا، ملیرمیں امدادی کیمپ لگائے گئے اور انتھک محنت نے سماجی کاموں کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے۔ وہ مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر لوگوں میں دوائیاں تقسیم کئے، انکی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ایک کاروباری شخص نے انہیں بیس ہزار روپیے عطیہ کیے جس سے ایک پرانی واکس وین خریدی گئی، انہوں نے اس وین کو چالو کرنے کے لئے دن رات محنت کی اور اسے ایمبولینس بناکر پورے صوبے میں امدادی سرگرمیاں شروع کردیں۔ لاوارث لاشوں کو دفنانے کا کام بھی شروع کیا۔ ان کی اس ایمبولینس سرویس کے آغاز سے پہلے کراچی میں صرف ایک سینٹ جانز ایمبولینس سروس کام کررہی تھی جس کے پاس صرف ایک یا دوگاڑیاں تھیں۔ ایدھی ایمبولینس سرویس ہر موقع پر پہنچتی اور کسی سے کچھ پوچھنے کے بجائے کام کا آغاز کردیتی ، ان کے اس رویے نے لوگوں کو متاثر کیا اور انہوں نے امداد دینی شروع کردی۔سماجی خدمت کے دوران انہوں نے 1962ء میں سیاست میں قدم رکھا اور بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں BDممبر کی حیثیت سے بلا مقابلہ کامیابی حاصل کی۔ 1964میں انہوں نے ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا، عبدالستار ایدھی کو بعد میں سیاسی مہم جوئی ایک غلطی محسوس ہوئی جس کے بعد انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے دوبارہ سماجی خدمت کے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ 1970ء میں عبدالستار ایدھی نے ایک بار پھر سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے صوبائی اور قومی اسمبلی دونوں نشستوں پر مقابلہ کیا لیکن انہیں دونوں نشستوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔1972ء میں عبدالستار ایدھی بشام میں زلزلے کے موقع پر اپنی ایمبولینسوں کو لے کر پہنچ گئے مگر کراچی واپس پہنچے تو انہیں والد کے انتقال کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ اسی سال ایدھی فاؤنڈیشن کو ٹریڈ یونین کے بکھیرنے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

1982ء میں جنرل ضیاء الحق نے بے حد اصرار کرکے انہیں مجلس شوریٰ کی رکنیت دی مگر یہ ممتاز سماجی رہنما عیش و عشرت کی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کرچکا تھا انہوں نے جب مجلس شوری کے پہلے اجلاس میں شرکت کیلئے اپنے خرچ پر راولپنڈی پہنچے تو تیسرے درجے کی ہوٹل میں قیام کیا ، فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کھانا کھایا اوربذریعہ بس اسلام آباد پہنچ گئے جب پارلیمنٹ کے مرکزی باب الداخلہ پر پہنچے تو افسران دوڑے چلے آئے اور کہا کہ آپ کہاں تھے ہم نے آپ کے قیام اورطعام کا بندوبست کررکھا تھا لیکن انہوں نے عاجزی سے کہا کہ میں ساری زندگی عیش و عشرت سے دور رہا ہوں اسی مزاج کی وجہ سے وہ بہت کم اجلاسوں میں شرکت کرسکے اور بتدریج حکومت سے دوری اختیار کرلی۔

1994میں ایدھی فاؤنڈیشن کو نئے سرے سے رجسٹر کرایا گیا اور ایدھی فاؤنڈیشن کی ازسر نوبنیاد رکھی گئی۔ عبدالستار ایدھی ہمیشہ سادہ لباس پہنتے اور ان کی داڑھی بڑھ گئی تو لوگ انہیں مولانا پکارنے لگے جو آخری دم تک ان کے نام کا حصہ رہا ۔ انتقال کے وقت بھی انکے چہرے پر بڑھی ہوئی داڑھی تھی ۔
 
ایدھی کے پاس دو جہاز، ہیلی کاپٹر، اسپیڈ بوٹ، 12تا 15سو ایمبولینس ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک ماہ میں مزید تین ایئرایمبولیس بیڑے میں شامل ہونگی۔ پاکستان میں ایدھی کے تین سو مراکز خدمت خلق کے جذبہ کے تحت کام کررہے ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کا نیٹ ورک پاکستان کے100سے زائد شہروں میں بتایا جاتا ہے۔ صرف کراچی میں ایدھی فاؤنڈیشن کے 8ہاسپتلس بشمول ایک کینسر ہاسپتل بھی شامل ہے جہاں غریبوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے ۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ’’اپنا گھر‘‘ کے نام سے مختلف مقامات پر 15عمارتیں موجود ہیں جہاں نفسیاتی مریض ، لاوارث افراد جن میں بچے بھی شامل ہیں اور ضعیف العمر افراد رہائش پذیر ہیں، عبدالستار ایدھی نے غریبوں اور بے سہارا افراد کیلئے 17سے زائد شیلٹر ہوم بھی قائم کئے جبکہ 20ہزار سے زائد لاوارث بچوں، خواتین، اور بزرگوں کے مسیحا بنے۔ 50ہزار سے زائد نشے کے عادی افراد کا علاج کرایا۔ سینکڑوں بے سہارا نوجوانوں کی شادیاں کیں اور 5ہزار سے زائد لاوارث بچوں کو گود لیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن امریکہ، برطانیہڈ آسٹریلیا، بنگلہ دیش، افغانستان ، چیچینا ، سوڈان، ایتھوپیا سمیت مختلف ممالک میں خدمات انجام دے رہا ہے۔ عبدالستار ایدھی کو1986ء میں عوامی خدمات کے شعبہ میں رامون ماگسے سے ایوارڈ ، 1988ء میں لینن امن انعام، 1989ء میں نشان امتیاز،2000میں ہمدان اعزاز برائے عمومی طبی خدمات،بین الاقوامی بلزان اعزاز برائے انسانیت ، امن و بھائی چارہ،2006میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری،2009ء میں یونیسکو مدنجیت سنگھ اعزاز اور 2010میں احمدیہ مسلم امن انعام سے نوازا گیا اس کے علاوہ بھی انہیں ملکی و بین الاقوامی سطح پر اعزازات عطا کئے گئے۔ عبدالستار ایدھی کو سیاسی قائدین نے مختلف طریقے سے استعمال کرنے کوششیں کیں لیکن وہ اپنے والد عبدالشکور کی نصیحت ’’مخالفین کو نظر انداز کرو اور اپنی مہم جاری رکھو‘‘ پر عمل پیرا رہے۔انکے اس مشن کو انکی شریک حیات محترمہ بلقیس ایدھی اور بچے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ایدھی فاؤنڈیشن نے اس وقت ہندوستان میں ایک مثالی ادارہ کی حیثیت حاصل کی جب ایک ہندوستانی لڑکی’’گیتا‘‘ کی کئی برس پرورش کرکے اسے اسکے ماں باپ کے حوالے کرنے کے لئے ہندوستانی حکومت کے حوالے کیا گیا۔
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 256433 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.