سیاسی فلم جانے کی باتیں پارٹ2 باکس آفس پر
ہٹ ہوگی یانہیں اس پر بات بعد میں کریں گے لیکن پہلے بابائے جمہوریت نواب
زادہ نصر اللہ مرحوم کی بات کرتے ہیں جو کہا کرتے تھے کہ آمریت راتوں رات
آجاتی ہے لیکن جمہوریت راتوں رات نہیں آتی۔۔۔ جناب بھلا ہو موو آن پاکستان
والوں کی موو کا جو سیاسی جماعت ہو کر بھی جمہوریت کا بستر گول کرنے کی
خواہش مند ہے میرے سر کے بال قدرے سفیدہیں لیکن موو آن والوں کو دیکھ کر
خیال آتاہے کہ میاں ساری نہ سہی آدھی عمر بس جھک مارنے میں گزار دی ۔۔ کوئی
ایک آدھ پارٹی ہی بنا لیتے کچھ بوٹ والوں کی چاپلوسی کر لیتے شہر شہر قریہ
قریہ کچھ فلیکس آویزاں کر دیتے تو تمھارا بھی چرچا ہوتا ڈنکا بجتا اور باقی
رہے بڑے شاعر جو کہتے ہیں کہ بدنام گر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا تو چھوڑو
انہیں ۔۔۔ انہیں زمینی حقیقتوں اور سیاسی معراج تک پہنچنے کے آزمودہ طریقوں
کا بھلا انہیں کیا پتہ؟
فیصل آباد کے یوں تو دو سیاسی پہلوان مشہور ہیں۔۔۔۔رانا ثنا اللہ اور عابد
شیر علی اور ان کی انتہائی سنجیدہ سیاست کی ایک دنیا گرویدہ ہے لیکن کمال
جائیے محمد کامران کے جنہوں نے سیاست میں ناصرف قدم رکھا بلکہ بہت جلد
کامران اور کامیاب ہونے کا گر بھی جان لیا موصوف کی حیران کن اور تہلکہ خیز
انٹری نے فیصل آباد کی فصیل میں اپنا نام چنوا دیا ہے ۔۔ حضرت کا فیصل آباد
کے علاوہ سرگودھا اور لاہور میں اسکولوں کا بزنس ہے اور اس جادوئی کاروبار
سے اتنا مال بنا یا کہ ان کے دل میں اچانک ایک عجیب سا درد اٹھنے لگا اور
درد تھا قوم کی جملہ مخصوصہ اور غیر مخصوصہ بیماریوں کے علاج کا ۔۔۔ انہی
امراض کے ھو الشافی علاج کے لئے انہوںنے 2013 میں موو آن پاکستان کے نام سے
ایک سیاسی جماعت بنائی اور خود اس کے صدر بن بیٹھے لیکن جلد ہی احساس ہو
گیا کہ کامرانی کے لئے انہوں نے سیاسی جماعت کا تخم غلط جگہ بو دیا ہے فوری
مٹی زدہ تخم نکالا اور دوسرے زیرک سیاست دانوں کی طرح اسے جی ایچ کیو کی
شفاف کیاری میں بو دیا ۔
ادھر الیکشن کمیشن والے بھی بڑے سیانے ہیں موصوف کی غیر مرئی اٹھان دیکھی
تو اسے شیطان کی آنت جتنی لمبی سیاسی جماعتوں کی فہرست میں 113 نمبر دے
ڈالا یوں 327 کی لسٹ میں موو آن پاکستان کا 113 نمبر ہے 13 کا عدد گوروں
کےہاں منحوس سمجھا ہے لیکن یہآں معاملہ 113 کا ہے یوں نحوست نہیں خوش
نصیبی ہی خوش نصیبی ہے ۔ کامران صاحب کا اولین مشن قوم کو جمہوریت پر تقسیم
کرنا ہے اور تقسیم کا یہی عمل فیصل آباد کی مذکورہ دونوں شخصیات ن لیگ کے
ساتھ کرچکے ہیں لیکن لگتاہے کہ موو آن پاکستان والوں کا سین آن ہے تبھی تو
راتوں رات ملک کے 13 بڑے شہروں میں راحیل نواز فلیکس لگا دئیے اور کسی نے
پوچھا تک نہیں اسلام آباد ہو یا چھاؤنیاں موو آن پاکستان کے فلیکس چھائے
ہوئے ہیں لیکن جناب کمال ہے کسی سرکاری پیادے نے انہیں ہٹانے کے لئے
چابکدستی کا مظاہرہ کیا اور نہ جرات رندانہ کا مظاہرہ کیا اور اگر کرتے بھی
تو ایسوں کے سروں پر جوتیوں کے سوا کچھ نہیں پڑتا ۔
ان جادوئی فلکیس کی بات کریں تو اول تو اس پر سپہ سالار کی تصویر بنی ہوئی
ہے پھر اس پر جو لکھا ہے وہ بھی لاکھ اختلاف کے قوم کے بیشتر مایوس سیاسی
مریضوں کے لئے اکثیر دوا ہے یعنی ۔۔۔۔ جانے کی باتیں ۔۔۔۔ ہوئیں پرانی۔۔۔
خدا کے لئے ۔۔۔ اب آ جاؤ! موو آن پاکستان کا لوگو، رابطہ نمبر اور سب سے
اوپر پاک آرمی کے لئے پاک کلام کی ایک آیت جو اس کا موٹو بھی ہے درج ہے ۔۔۔
جب شہر کی شاہراہوں کے بیچ سبز پس منظر میں فوجی وردی میں ملبوس سپہ سالار
کی تصویر والا فلیکس آویزاں ہوں تو اس پیغام نے سیاسی افق پر ہلچل کا ہی
باعث بننا تھا ویسے تو موصوف کامران ایسی ہی غیر جمہوری مشق اس سال جنوری
میں بھی کر چکے ہیں جس میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے اعلان پر ان سے فیصلہ
واپس لینےکا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن حالیہ عمل شاید آخری لگتاہے کہ جنرل
صاحب چار مہینے بعد نومبر میں سبکدوش ہو رہے ہیں ۔
مذکورہ جماعت اس قبیل کی پہلی جماعت نہیں ماضی میں جھانکیں تو کم و بیش سب
جماعتیں خاکیوں کی کاسہ گدائی کر چکی ہیں اور اس کی تازہ مثال 11 مئی 2013
کے انتخابات اور اب 21 جولائی کو آزاد کشمیر میں ہونےوالے الیکشن میں بھی
دیکھی جا سکتی ہے جب انتخابی بینرز ،پوسٹرز،فلیکسز اور بل بورڈز پر سپہ
سالار محترم کی تصویر لگا کر مخالفیں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ
اپنی خیر منا لو ۔۔۔۔ ضمانت ضط ہو جائے گی ۔۔۔دیکھتے نہیں ہمارے ساتھ کون
ہیں؟ آزاد کشمیر کے چیف الیکشن کمشنر نے اس معاملے کا نوٹس تولیا ہے لیکن
امیدوار کہاں باز آنے والے ہیں۔
مطفر آباد کی سیاست سے اگر کچھ نیچے اسلام آباد کی طرف آئیں تو وہاں پیپلز
پارٹی والوں کو بینرز کے پیچھے حکمران لیگ کا ہاتھ نظر آتا ہے کہ پاناما
لیکس کا ٹیٹوا دبانے کے لئے ن لیگ والوں نے بینرز کا شوشہ چھوڑا ہے اوریوں
حکوت ان پر دباؤ ڈال کر وزیراعظم کا احتساب کا معاملہ دبانا چاہتی ہے ۔ پی
پی والوں کو اس میں جمہوریت کا خطرہ نظر آتا ہے ۔ جناب من! جب ملک ٹوٹنے
والا تھا اور آپ کے بڑے نو منتخب عوامی نمائندوں کی ٹانگیں توڑنے کی باتیں
کیا کرتے تھے تو اس وقت ملک تو کیا انہیں جمہوریت بھی خطرے میں نظر نہیں
آئی اور اب جمہوریت کی بی بی ڈول ان کے پاس نہیں تو انہیں رضیہ غنڈوں میں
گھری نظر آتی ہے ۔
جمہور کے جمہوری نمائندوں کو چاہئے کہ و ہ ایک فلیکس سے نہ گھبرائیں عوام
کی طاقت کی بات کرتے ہیں تو اس بات پر بھی یقین رکھیں کہ یہ طاقت گولی کی
طاقت سے زیادہ طا قت ور ہوتی ہے رہی بات جانے کی باتیں اور جانے کی باتیں
پارٹ ٹو جیسی فلموں کی ۔۔۔۔ تو مستحکم معاشروں کے سیاسی باکس آفس پر ایسی
فلمیں فلاپ ہو جایا کرتی ہیں ۔ |