عالمی دہشت گردی کے مغربی ممالک ذمہ دار
(Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid, India)
القاعدہ، طالبان، دولت اسلامیہ عراق و
شام(داعش) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کا عالم اسلام خصوصاً عراق،
افغانستان، پاکستان، شام میں وجود کیوں کر ہوا۔ اس کے اصل ذمہ دار کون ہیں
اور ان ذمہ داروں کو کیا کوئی دنیوی حکمراں سزا دے پائیں گے۔ یہ ایسے
سوالات ہیں جس کے جواب شاید دینے مشکل ہے۔ آج عراق، شام ، یمن، افغانستان،
پاکستان وغیرہ میں ہر روز فائرنگ، بم دھماکے اور خودکش حملے روز کا معمول
بن گئے ہیں۔ انسانی جانوں کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ معصوم و بے گناہ بچے،
خواتین اور دیگر افراد ان حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔جانی اور مالی نقصانات
کی کوئی صحیح رپورٹ ملنا مشکل ہے۔عراق پر الزام لگاکر اسے مکمل طور پر تباہ
و برباد کرنے کی امریکہ، برطانیہ نے کوشش کی۔ عراق جو خطے میں ایک طاقتور
ملک کی حیثیت سے ابھر رہا تھا دشمنانِ اسلام کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا۔
دوسری جانب افغانستان میں طالبان کی حکومت کو اسامہ بن دین کے بدلے میں
تباہ و برباد کردیا گیا۔افغانستان میں طاقتور طالبانی حکمراں ملا محمد عمر
اور عراق میں خطے کے مضبوط اور طاقتور مردِ آہن صدام حسین کو اقتدار سے بے
دخل کردیا گیا اور صدام حسین کو ایک ایسے وقت سزائے موت دی گئی جبکہ دنیا
بھر سے آئے ہوئے مہمانانِ خدا میدان عرفات میں مناسک حج ادا کررہے تھے۔
صدام حسین نے تو شہادت پالی لیکن انکے دشمنوں کی نیندیں آج بھی اُڑی ہوئی
ہے۔ سابق امریکی صدر بش ہو کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر یا نائب
برطانوی وزیراعظم جان پریسکوٹ یہ سب عراق پر حملوں کے بعد اپنی ناکامی تو
چھپاتے ہی ہیں لیکن اپنی غلطی کا ذکر بھی بے شرمی سے کرتے ہیں۔ ان سابقہ
حکمرانوں کی جانب سے غلطی کا اقرار کرنے کے بعد کیا کوئی عالمی قانون ہے جو
انہیں سزا دے سکے۔ برطانیہ کے نائب وزیر اعظم جان پریسکوٹ نے کہا ہے کہ
برطانیہ اور امریکہ کا عراق پر حملہ غیر قانونی تھا، برطانوی اخبار’’سنڈے
مرر‘‘ نے اپنے ایک کالم میں عراق پر حملہ کے وقت 2003ء میں برطانیہ کے نائب
وزیر اعظم جان پریسکوٹ نے لکھا ہے کہ انہیں ’’تاحیات اس تباہ کن فیصلے کے
ساتھ زندگی بسر کرنی ہوگی۔ ‘‘ لارڈ پریسکوٹ نے کہاکہ وہ اب انتہائی غم و
غصے کی حالت میں اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان سے متفق ہیں
کہ ’جنگ غیر قانونی تھی۔‘ انہوں نے لیبر پارٹی کے جیرمی کوربن کی پارٹی کی
جانب سے معافی طلب کرنے پر تعریف کی ہے۔ لارڈ پریسکوٹ نے یہ بھی لکھا ہے کہ
حملے سے قبل امریکی صدر جارج ولیم بش کے نام برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر
کا پیغام کہ ’چاہے کچھ بھی ہو‘ ہم آپ کے ساتھ ہیں‘ ، تباہ کن تھا۔امریکہ
اور برطانیہ نے اسلام دشمنی کا بھرپور ثبوت دیا ۔ عالمِ اسلام کے حکمرانوں
کو اقتدار کے چلے جانے کا خوف و ہراس دلاکر ان سے کروڑوں ڈالرز لوٹے گئے۔
ہتھیاروں کے نام پر آج بھی دشمنانانِ اسلام عالمِ اسلام کو لوٹ رہے ہیں یہی
وجہ ہے کہ گذشتہ سعودی عرب کا بجٹ خسارے میں بتایا گیا۔ مستقبل میں مزید
حالات خراب ہونے کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ سب سے بڑی اور بُری
خبر ماہ رمضان المبارک کی 29؍ تاریخ کو مدینہ منورہ میں حرم نبوی اور جنت
البقیع کے درمیان خود کش حملہ نے انسانیت کو شرمسار اور غمزدہ کردیا۔ دنیا
بھر میں مسلمان اتنی بڑی تعداد میں رہنے کے باوجود کچھ نہ کرسکے۔ صرف چند
مقامات پر مسلمانوں نے اس حملے کے خلاف بیان بازی کی یا جلسے کرکے اپنے
فرضِ منصبی اور حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم سے عقیدت بتانے کی کوشش کی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بین الاقوامی سطح پر مسلمان اپنے اپنے ممالک میں
منظم احتجاج کرکے دشمنانانِ اسلام کی صفوں میں وحشت پھیلادیتے۔حرم نبوی ﷺ
کو نشانہ بنانے والا کسی صورت مسلمان نہیں ہوسکتا اور نہ جن بدنصیبوں نے
اسے ترغیب دی ہے وہ مسلمان ہوسکتے ہیں۔ ان ہی امریکی اور برطانوی حکمرانوں
اور انٹلی جنس کی غلط رپورٹس اور الزامات نے آج ہزاروں نوجوانوں کو دہشت
گرد بننے پر مجبور کردیا۔ آج القاعدہ، طالبان، داعش وغیرہ کا وجود ان ہی
حکمرانوں کے سر جاتا ہے ۔ گذشتہ دنوں بنگلہ دیش کی تاریخ کے بدترین دہشت
گرد حملے کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے
انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے طلبا کی فہرست جاری کریں جو غیر حاضر
ہیں۔ڈھاکہ کے ایک ریستوران پر حملہ کرنے والے دہشت گرد ملک کے معروف
اسکولوں اور کالجوں کے تعلیم یافتہ تھے۔وزیراعظم نے والدین اور سرپرستوں سے
بھی اپیل کی ہے کہ وہ لاپتا نوجوانوں کے بارے میں اطلاع دیں اور وعدہ کیا
ہے کہ حکومت انہیں ڈھونڈنے میں تعاون کریں گی۔ٹیلی وژن ، انٹرنیٹ اور سوشیل
میڈیا کے ذریعے نوجوانوں میں انتہا پسندی کے فروغ کے بعد حکام نے سماجی
رابطے کی ایسی ویب سائیٹوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے جو سخت گیر
نظریات پھیلاتی ہیں۔حکومت نے ہندوستانی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی جانب سے
چلائے جانے والے ایک ٹی وی چینل کو بھی بند کرنے کا حکم دیا ہے۔یہ اقدامات
ایسے وقت کیے گئے ہیں جب بنگلہ دیش کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہے جہاں امیر
اورآزاد خیال خاندانوں کے نوجوان دہشت گردی کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور
عالمی دہشت گرد تنظیموں سے نظریاتی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں۔بنگلہ دیش
میں دہشت گرد حملے کے بعد اس تاثر کی نفی ہوئی ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں تمام
بھرتیاں مدرسوں سے کرتی ہیں۔بنگلہ دیش کی حکومت نے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے
خطرے کا الزام ملک میں موجود شدت پسند گروہوں پر عائد کیا ہے۔تاہم وزیراعظم
کے بین الاقوامی امور کے مشیر گوہر رضوی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ
اگرچہ یہ واضح ہے کہ حالیہ حملوں میں ملوث افراد کا تعلق مقامی شدت پسند
تنظیم جماعت المجاہدین سے ہے اسکے باوجود حکام حملہ آوروں کے دیگر گروہوں
سے رابطوں پر تحقیقات کر رہے ہیں۔ڈھاکہ کے ایک ریستوران پر یکم؍ جولائی کو
ہونے والے حملے میں ملوث تمام افراد کی عمریں 22 سال سے کم بتائی جارہی ہیں
اور انہوں نے 20 یرغمالیوں کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔چند دن بعد بنگلہ
دیش کے تین نوجوانوں نے داعش کی ایک ویڈیو میں ملک میں ایسے مزید حملے کرنے
کی دھمکی دی تھی۔ تحقیقات سے معلوم ہوا تھا کہ ان نوجوانوں کا پس منظر بھی
ایسا ہی تھا۔بنگلہ دیشی حکام کے مطابق ان میں سے ایک ڈھاکہ میں دانتوں کا
معالج تھا، دوسراگلوکار بننا چاہتا تھا جبکہ تیسرا جس نے اپنا چہرہ جزوی
طور پر ڈھانپا ہوا تھا، غالبا مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔یہ تینوں
نوجوان کئی ماہ سے لاپتا تھے۔گوہر رضوی نے کہا کہ ’’بدقسمتی سے ایسے افراد
کے بارے کوئی منظم معلومات موجود نہیں جو گھر چھوڑ کر چلے گئے ہیں یا
تعلیمی اداروں سے غائب ہیں۔ ہم ایک ڈیٹا بیس بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ
یہ جان سکیں کہ ان لاپتا افراد کے کن سے روابط ہیں‘‘۔
گزشتہ دو سال کے دوران بنگلہ دیش میں سیکولر مصنفوں، غیر ملکیوں اوردیگر
مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو تواتر سے نشانہ بنایا جاتا رہا
ہے۔دریں اثنا جمعرات کو کشور گنج میں عید الفطر کی نماز کے موقع پر بم سے
حملہ کیا گیا جس میں امام مولانا فرید الدین مسعود بال بال بچ گئے۔ اس حملے
میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوئے۔مولانا فرید الدین نے چند دن قبل ہی
فتویٰ جاری کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تشدد اور معصوم لوگوں کی
زندگی لینا اسلام کے منافی ہے۔عیدگاہ میں مولانا فرید الدین کی آمد سے چند
منٹ قبل ہی پولیس نے بموں، پستولوں اور چھریوں سے مسلح افراد کو روکا جو
عیدگاہ کی طرف جا رہے تھے جہاں تین لاکھ کے قریب افراد نماز عید کے لیے جمع
تھے۔ان افراد کو روکنے پر سلوکیہ عیدگاہ کے باہر موجود چیک پوسٹ پر لڑائی
شروع ہو گئی۔اطلاعات کے مطابق شدت پسندوں نے پولیس پر ایک دیسی ساختہ بم
پھینکا جس سے دو پولیس اہلکار، قریب موجود ایک خاتون اور ایک شدت پسند ہلاک
ہو گئے جبکہ ایک درجن کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ جبکہ ایک زخمی 19 سالہ شدت
پسند کو زندہ پکڑ لیا گیا ہے۔بنگلہ دیش میں ان دنوں جو دہشت گردی کے واقعات
پیش آرہے ہیں اس کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی
حکومت نے جس طرح جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی قائدین پر مختلف الزامات کے
تحت مقدمات چلاکر انہیں سزائے عمر قید یا پھانسی کی سزا دی گئی ۔ ہوسکتا ہے
کہ نوجوان نسل جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے وہ بنگلہ دیش کی حکومت اور عدلیہ کی
جانب سے عائد کئے جانے والے الزامات اور اسے ثابت کرکے مجرم قرار دیئے جانے
اور سخت سزائیں دیئے جانے کے خلاف ایسے دہشت گردانہ حملے کررہے ہیں۔ اگر
حکومت بنگلہ دیش ابھی سے ہی دہشت گردی کو قابو میں رکھنا چاہتی ہے کہ مذہبی
اداروں کو نشانہ نہ بنائے کیونکہ کسی بھی مقام یا مدرسہ میں شدت پسندی کی
تعلیم نہیں دی جاتی اگر دی جارہی ہے تو پھر اس کے سدباب کے لئے مکمل
تحقیقات کریں کہ اس کی کیا وجہ ہے ورنہ عراق ، شام، افغانستان، پاکستان ،
سعودی عرب ، یمن کی طرح بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں بھی دہشت گردی میں
اضافہ ہوسکتا ہے۔ |
|