جمہوریت کا حُسن اکثریت کی رائے کو اہمیت
دینا جمہوری معاشرئے کی روایات بھی اعلی، اقدار بھی عمدہ، اصول و ضوابط بھی
کمال ،طرز حکمرانی بھی قابل تحسین ، اخلاقیات بھی بے مثال اختلاف رائے کی
بھی اپنی ہی اہمیت اور کردار کے بھی کیا کہنے پانامہ لیکس کی وجہ سے جہاں
بہت سے حکمرانوں کی ھنڈیا بیچ چرائے میں پھوٹی کچھ کوتو عوام کے احتجاج کے
باعث حکومت سے بھی ہاتھ دھونا پڑئے،کچھ ابھی تک ہماری طرح صرف کہانیاں سُنا
رہے ہیں اورکچھ نے جمہوری روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو پارلیمنٹ
کے سامنے پیش کیاجیسا کے ڈیوڈ کیمرون یو کے کے وزیر اعظم کو نام بھی پانامہ
لیکس میں شامل تھا اُن کے والد کی بھی آف شور کمپنی تھی جس کے شیئر وراثت
میں اُن کو منتقل ہوئے پانامہ لیکس میں نام آنے کے بعد اُنھوں نے اپنے آپ
کو عوام کی عدالت یعنی پا رلیمنٹ کے سامنے جوابدہ سمجھاحالانکہ وہ ٹین
ڈوننگ سٹریٹ میں براجمان ہونے سے پہلے اپنے شیئر فروخت کر چکے تھے پارلیمنٹ
میں پیش ہوئے اپنے اور اپنے خاندان کے تما م اثاثہ جات کی تفصیل اور ٹیکس
ریکارڈعوامی نمائندوں کی سامنے پیش کیا اور سر خرو ٹھہرئے یہ ہے جمہوری
روایات اور اقداردوسرا آپ حالیہ دنوں میں یوکے میں ہی ہونے والے ریفرنڈم پر
نظر ڈالیں جو یورپی یونین کے ساتھ رہنے یا اُس سے علیحدہ ہونے کے لیے
کروایا گیا تھا دونوں طرف کے لوگوں کا اپنا اپنا نقطہ نظر تھااس ریفرنڈم کے
نقصانات اور فوائد کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اس کے طریقہ کار اور اس کے
جمہوری طرز عمل کو مد نظر رکھیں یو کے کے موجودہ وزیر اعظم جن کا تعلق کنزر
ویٹو جماعت سے ہے ڈیوڈ کیمرون کی سُو چ کے مطابق یو کے کو یورپی یونین کے
ساتھ رہنا چا ہیے تھاکنزر ویٹو کے بو س جانسن سابقہ لندن کے میئرجن کی سُو
چ کے مطابق یوکے کا مستقبل یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے بعد زیادہ روشن
تھا اُنھوں نے ڈیوڈ کیمرون کی سُوچ کی کھل کر مخالفت کی کنز رویٹو کی حریف
سیاسی جماعت لیبر پارٹی کی سُوچ بھی اس معاملے میں تقسیم تھی لندن کے
موجودہ میئر صادق خان جن کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے وہ بھی یورپی یونین کے
ساتھ رہنے کے حق میں تھے یہ ہے جمہور ی اختلاف رائے اورپارٹی کے اندر
جمہوریت جو پاکستان میں نا پیدریفرنڈم سے پہلے نہ دونوں سُوچ کے حامل لوگوں
نے ایک دوسرئے پر الزامات کی بارش کی نہ ایک دوسرئے کو غدار قرار دیا نہ
یورپی یونین کے ساتھ رہنے کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کو سننا پڑا کہ
بکاؤ مال ہے پیسے لے کر اپنا ضمیر بیچ رہے ہیں ریفرنڈم والے دن پولنگ
اسٹیشن پر نہ کوئی افرا تفری تھی اور نہ گالی گلوچ ، نہ تعطیل، نہ فوج
تعنیات ہر شخص نے اپنی سُوچ کے مطابق آزادی سے اپنے ووٹ کاحق استعمال کیا
شام کو یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ ہوا یورپی یونین سے علیحدہ
ہونے کی سُوچ کے حامل لوگوں نے نہ ڈیوڈ کیمرون اور صادق خان کے گھر کے
سامنے ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑئے ڈالے نہ ہی کسی نے فرشتوں کے ووٹ ڈالنے کا
سیاپا کیانہ میڈیا میں دھاندلی کا شور مچانہ عدالتوں میں رٹ کی گئی نہ ہی
عدالتوں کو نظریہ ضرورت کا سہار لینا پڑا نہ کسی نے فوج کو شب خون مارنے کا
دعوت نامہ بھیجا،نہ شاہروں پر خدا کے لیے جانے کی باتیں جانے دو کے بینرز
آویزاں ہوئے یہ ہے جمہور ی معاشرئے کے اصولوں ضوابط ہواکیا ڈیوڈ کیمرون دو
منٹ کے لیے میڈیا کے سامنے آئے اور مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا حالانکہ یہ
ریفرنڈم ڈیوڈ کیمرون کے اقتدار میں رہنے یا نہ رہنے کے لیے نہیں تھا آپ نے
سُوچا ڈیوڈ کیمرون نے استعفی کیوں دیا اس لیے اُس کی نظر میں لوگوں نے اُس
کی سُوچ کو مستر د کر دیاجس کی وجہ سے اب اُس کو ان لوگوں پر حکمرانی کرنے
کا اختیار نہیں ہے یہ ہے جمہوری اخلاقیات صرف چہرہ تبدیل ہوا ڈیوڈ کیمرون
کی جگہ تھریسامے نہ آسمان گرا نہ زمین کانپی اقتدار منتقل ہوالیکن نہ
پالیسی تبدیل ہوئی نہ جمہور یت خطرئے میں پڑی کیونکہ وہاں لوگ شخصیات کو
نہیں پارٹی کے منشور کو ووٹ دیتے ہیں ڈیوڈ کیمرون نے رخصت ہوتے وقت اپنا
سامان خود اٹھایا، چہرئے پر فاتحانہ مسکرائٹ سجائی،لوگ کی طرف دیکھ کر ہاتھ
ہلایا اور تالیوں کی گونج میں زندگی میں ایک قدم اور آگے بڑھ گئے یہ ہے
جمہور ی کردار اور اب بات کرتے ہیں ملاوٹ سے پاک خالص جمہوریت کی یعنی کہ
پاکستانی جمہوریت جس طرح ہماری فلموں میں رضیہ ہمیشہ غنڈوں میں پھنسی رہتی
ہے اُس طرح ہی ہماری جمہوریت رانی بھی ہمیشہ مشکلات میں پھنسی رہتی ہے اس
میں قصور کس کا ہے ہمارئے سیاستدانوں کا، اداروں کا یا عوام کامیری رائے
میں تو ہم سب ہی غلط ہے آ پ پاکستان میں بھی حالیہ دنوں میں رونما ہونے
والے واقعات پر نظر ڈالیں ہم بھی یوکے کی طرح پانامہ لیکس کے بھنور میں
پھنسے فرق یہ ہے کہ اُنھوں نے دانش مندی سے اپنی کشتی کو بھنور سے نکال لیا
اور ہم ابھی تک بیچ منجدار میں ہچکولے کھا رہے ہیں کیونکہ اس ملک میں قانون
مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ چھوٹے حشرات ہی پھنستے ہیں کیونکہ ہم اپنے
آپ کو پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہی نہیں سمجھتے اُس وقت کا ہم صرف ڈھول ہی
پیٹ رہے ہیں کہ اگر ہم چور تو تم بھی چور اور نہ ہی ہم ابھی تک اس نتیجے پر
پہنچ سکے کہ ہم نے احتساب صرف اُن کا ہی کرنا ہے جن کا نام پانامہ لیکس میں
روشن ستارئے کی طرح چمک رہا ہے یا اُن تمام لوگوں کا بھی جو کھا پی کر سب
کچھ ہضم کر چکے ہیں بھانت بھانت کی بولیاں اور عوام کو صرف گولیاں کیونکہ
اس سے آگے کی نہ ہماری سوچ ہے اور نہ آگے بڑھنے کا جذبہ ہم کو اگر پراہم
منسٹر ہاوس سے رخصت ہونا پڑ جائے تو بے چاری جمہوریت رانی خطرئے میں پڑ
جاتی ہے اگر اپوزیشن اصلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا شروع کر دئے تو بی بی
جمہوریت ڈگمگانے لگتی ہے اور اگر کرپشن کا حساب لینے کی باتیں شروع ہو جائے
تو ہم سیاسی شہید ہونے کو ترجیح دیتے ہیں جب آسمان پر سُرخ سیاہی پھیلنا
شروع ہوتی ہے تو پھر اداروں کی طرف سے بیانات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے
فرشتے نمودار ہوتے ہیں سیاسی جماعتوں میں ٹھوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوتا ہے
کوئی غدار وطن قرار پاتا ہے تو کوئی کرپٹ نئے نظام کی باتیں ہوتی ہے احتساب
کی باتیں ہوتی ہیں ملک کا مستقبل روشن ہونے کی نوید سنائی جاتی ہے ستاروں
کو آسمان سے زمین پر لانے کی باتیں کی جاتی ہیں سڑکیں رنگ برنگے بینروں سے
سج جاتی ہے ایک نئے مسیحا کی تلاش شروع ہو جاتی ہے جو عزت سے ر خصت ہونا
چاہتا ہو اُس کو بھی اس گند میں ڈبکیاں لگانے کی دعوت دی جاتی ہے پھر نظریہ
ضرورت زندہ ہوتا ہے ملک کا مستقبل تابناک کرنے کی بجائے کچھ لوگ اپنا
مستقبل روشن کرتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد پھر جمہور یت بی کی یاد ستاتی ہے
غدار وطن اور کرپٹ ڈٹرجنٹ سے نہا دھو کر یار وطن اور پاکباز بن جاتے ہیں ان
میں پائی جانے والی نئی نئی خوبیوں کا پرچار کیا جاتا ہے قاہد اعظم ثانی،
محسن پاکستان جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے اور ہم عوام نہ پارٹی منشور کا
پوچھتے ہیں نہ ان کی سیاسی بصیرت دیکھتے ہیں اور نہ ان کے دور حکومت میں
ہونے والے ظلم ہم عوام بھی شخصیت کی پرستش کرنے کے عادی ہیں کیونکہ یہ ہی
ہمارا جمہوری اقدار ہے یہ ہی ہماری اخلاقیات، یہ ہی ہماری روایات، یہ ہی
ہمارئے اصولوں ضوابط اور یہ ہی ہمارا کردار۔ |