اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں ان شاء اللہ

کہتے ہیں کہ جنگل میں ہرن صبح ہوتے ہی یہ سوچتا ہے کہ آج میں نے خوب دوڑنا ہے کیونکہ ٹھیک سے نہ دوڑ سکا تو کسی درندے کے پنجوں کا شکار بن کر اپنی جان سے ھاتھ دھو بیٹھوں گا، اسی طرح شیر بھی صبح ہونے پر یہ سوچتا ہے کہ آج میں نے خوب بھاگنا ہے اور شکار پر جھپٹنا اور اس کو حاصل کرنے کے لیے ھر ممکنہ جدوجہد کرنی ہے وگرنہ میں بھوکا مر جاؤں گا. یہ تو جنگل کی باتیں ہیں مگر انسانوں کی دنیا میں ایک ایسی بھی حرماں نصیب قوم ھے جو مسلسل کئ عشروں سے ظلم و تشدد سے نجات اور ظالم درندوں سے اپنی آزادی کے لیے مسلسل بھاگ رہی ہے اور یہ قوم دنیا کی بدنصیب قوم کشمیری قوم ہے کہ جس کی آزمائش کا دورانیہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا، کہ جس کی قربانیوں کی داستان کہ مکمل ہوتی نظر آتی ، کہ وہ قوم جو منزل پر پہنچنے کے لیے اپنے لہو سے رستوں کو رنگین کرتی آئی ہے اور پھر بھی منزل ان سے کوسوں دور نظر آتی تھی. کشمیر کے مسلمان وہ بدنصیب لوگ ہیں کہ دنیا کے مہذب اور بزعم خود امن و سلامتی اور انسانی حقوق کے ٹھیکیدار بھی ان کی زبوں حالی اور اہل کشمیر کے بہتے لہو پر چپ سادھ لیتے ہیں، ان کی زبانیں گنگ ہو کر رہ جاتی ہیں. وہ لوگ جو مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے عسائیوں کو فقط چند کے مظاہروں اور احتجاج کرنے پر ہی علیحدگی اور آزادی کے پروانے تھما دیتے ہیں ان کو جموں وکشمیر میں عشروں سے بہتا لہو اور کشمیر کی آزادی کے لیے سالہا سال سے چلنے والی تحریک اور اس کے لیے دی گئی قربانیاں نظر نہی آتیں صرف اس وجہ سے کہ اہل کشمیر مسلمان ہیں. میں جب کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک پر نظر ڈالتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو بغیر کسی بیرونی مدد کے کتنے عشروں سے ڈٹے ہوئے ہیں. نہ بھارتی مظالم ان کو رستے سے ہٹا سکے، نہ گرتے لاشے ان کے پاؤں کی زنجیر بن سکے اور نہ ہی تباہ و برباد ہوتے کاروبار ان کے قدموں کو ڈگمگا سکے. 1832 میں ڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف پونچھ اور منگ کے مجاہدین کے اعلان جہاد سے شروع ہونے والی اس آزادی کی تحریک میں بہت سے موڑ آئے. اپنوں کی بے اعتنائیوں اور اغیار کی سازشوں کی وجہ سے بعض اوقات یہ تحریک کمزور بھی پڑی مگر شہدا کا لہو اس تحریک کے لیے ایندھن کا کام کرتا رہا جب بھی کبھی تحریک کمزور ہوئی تو شہداء نے اس کو اپنے لہو کا خراج دے کر اس کو بام عروج تک پہنایا
شہید کی جو موت ہے قوم کی وہ حیات ہے-

تیرہ جولائی انیس سو اکتیس کو اذان پڑھنے پر بائیس کشمیری مسلمانوں شہادت نے تحریک کو نیا رخ دیا. قیام پاکستان کے بعد چھ نومبر انیس سو سینتالیس کو شہدائے جموں نے تحریک آزادی کشمیر کو اپنے لہو سے سینچا اور تحریک کو دوبارہ سے منظم کردیا. اس کے بعد تحریک میں عروج و زوال آتے رہے. بعض اوقات قیادت کی کچھ غلطیوں نے تحریک کو نقصان بھی پہنچایا مگر مجموعی طور پر تحریک اپنی بھرپور شکل میں موجود رہی. بھارتی مظالم حد سے بڑھتے رہے اور کشمیری بھی اپنی جانیں آزادی کی خاطر نچھاور کرتے رہے. انیس سو انسی سے نوے کی دہائی تک افغانسان میں روس کے خلاف جاری جہاد کی کامیابی نے اہل کشمیر کو بھی نئی راہ سجھائی کہ آزادیاں صرف گولی کھانے سے نہیں بلکہ گولی مارنے سے بھی ملتیں ہیں. نتیجتا" نوے کی دہائی میں کشمیر کے بہت سارے نوجوان بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے مظالم سے تنگ آکر بندوق اٹھا کر آزادی کی خاطر مسلح جدوجہد کرنے پر مجبور ہوئے اور پھر یہ مسلح تحریک بھی پھیلتی چلی گئی اور نوے کی ہی دھائی میں اس تحریک نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا. جگہ جگہ پر انڈین فورسز کا مقابلہ کرنے کے لیے مقامی مجاہدین اٹھ کھڑے ہوئے اور بھارتی فوج کے مظالم اور لٹتی عصمتوں کے جواب میں بھارتی فوج پر حملے شروع کردیے اس سے پوری وادی میں تحریک کو ایک نیا رخ ملا اور بھارت کو کشمیر میں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس پر بھارت بوکھلا گیا اور اس کے بعد بھارت نے اس تحریک کو بزور قوت کچلنے کے لیے پے درپے ایسے اقدامات کیے اور مظالم اور تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا. جن میں سرفہرست آٹھ مئی انیس سو بانوے میں سرینگر کے علاقے خانیار میں شہداء کے جنازے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس سے بائیس کشمیری مسلمان شہید ہوگئے. ان کی شہادت سے پوری وادی میں غم اور غصہ کی اک نئی لہر دوڑ گئی اور پوری وادی میں احتجاجی مظاہروں اور جلوس کا اک سلسلہ شروع ہوگیا جس نے بھارت کو حواس باختہ کردیا. اس کے بعد دو ہزار آٹھ میں بھارت نے کشمیر کی وادی میں آبادی کا تناسب بدلنے اور ہندؤوں کو کشمیر میں بسانے کے لیے امر ناتھ یاترا کی مہم چلائی اور اس کے لیے ایک شرائن بورڈ تشکیل دیا جس کو زمینیں الاٹ کی گئیں. اس پر کشمیر کی بیدار مغز قیادت نے دور اندیشی سے کام لے کر فوری طور پوری وادی میں اس کے خلاف ایک تحریک کھڑی کردی جس کے جواب میں ہندؤوں نے کشمیریوں کا تجارتی راستہ بند کردیا جس کی وجہ سے ان کا قیمتی پھل ضائع ہوگیا اور اشیائے ضرورت تک ناپید ہوگئیں. اس پر اہل کشمیر نے چکوٹھی کے راستے مظفر آباد کا رخ کیا اس وقت یہ نعرہ لگا "تیری منڈی میری منڈی راولپنڈی راولپنڈی" بھارت نے جب نے جب ہزاروں کشمیریوں کو لائن آف کنٹرول کی طرف بڑھتے دیکھا تو عام گولی مارنے کا حکم دے دیا جس کی وجہ سے گیارہ اگست دو ہزار آٹھ کو بھارتی فوج نے جلوس پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک معروف اور ہر دلعزیز پینسٹھ سالہ بزرگ کشمیری لیڈر شیخ عبدالعزیز اور ان کے ساتھ پچیس کشمیری شہید کردیے گئے جس اہل کشمیر غم و غصے میں بپھر گئے. اس سے اگلے دن شیخ عبدلعزیز کے جنازہ پر چار لاکھ جمع ہوئے اور اس کے بعد ایک زبردست تحریک کا آغاز ہوا جس نے آزادی کی منزل کو قریب کردیا.
اس کے بعد شوپیاں میں دو مسلم خواتین کی عصمت دری کی گئی جس کے نتیجے میں بھی تحریک میں ایک زبرست عروج دیکھنے میں نظر آیا.اسی طرح دوہزار دس میں ایک معصوم طالب علم طفیل مٹو کو بھارتی فوج نے شہید کردیا جس پر پورے جموں و کشمیر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے. ان مظاہروں کی انفرادیت یہ تھی کہ ان میں مظاہرین بندوقوں کے مقابلے میں ہاتھوں میں پتھر لے کر کھڑے تھے. یہاں سے سنگباز تحریک کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے بھارتی افواج کو کشمیر میں خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا. اس کے بعد تحریک آزادی ایک نئے دور میں شامل ہوئی روزانہ مظاہرے اور جلوس ہونے لگے اور ان جلوسوں میں پاکستان کا پرچم لہرایا جاتا، پاکستان کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے لگائے جاتے اور بھارتی فوج پر پتھراؤ کیا جاتا جس کا جواب بھارتی فوج گولیوں کی بوچھاڑ اور آنسو گیس کے شیلز سے دیتی اور اس کے ساتھ ہی بھارتی افوج نے کشمیر میں ظلم و تشدد کو بڑھا دیا تو اس کے جواب میں کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھنے والے کشمیری طلبا مجاہدین کی صفوں میں شامل ہونے لگے. یہ کشمیریوں کی وہ تیسری نوجوان نسل تھی جس نے آنکھ ہی مظالم اور تشدد سہتے ہوئے کھولی تھی، جو جوان ہی ٹارچر سیلوں کے اندر ہوئی تھی. ان ٹارچر سیلوں میں ان پر کیے جانے والے تشدد اور ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے پیاروں کے تڑپتے لاشوں نے ان کے دلوں میں بھارت کے نفرت کوٹ کوٹ کر بھردی اور وہ آزادی سے کم قیمت پر بالکل بھی تیار نہیں ہیں. اب تحریک کی قیادت انہی نوجوانوں کے پاس ہے. انہی نوجوانوں میں سے ابوالقاسم شہید اور برہان وانی شہید تھے جنہوں بھارتی مظالم کے خلاف ہتھیار اٹھا کر بھارتی درندوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ جموں کشمیر کے لاکھوں نوجوانوں کے آئیڈیل اور دلوں کی دھڑکن بن گئے یہی وجہ کہ پہلے ابوالقاسم کی شہادت پر اب برہان کی شہادت پر ان کے جنازوں میں لاکھوں کشمیری جمع ہوئے اور ان میں سے اکثریت سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبا نوجوانوں کی تھی. اب کشمیر کی آزادی کی تحریک کی صورتحال یہ کہ برہان وانی کے جنازے کے بعد یہ لاکھوں نوجوان سر دھڑ کی بازی لگاتے ہوئے سڑکوں پر آگئے اور بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا ایک نیا سلسلہ شروع کردیا. جس سے گھبرا کر بھارتی فوج نے پہلے کی طرح اب بھی مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کو ہی اپنا معمول بنایا جس کے نتیجے میں پینتیس کے قریب لوگ شہید ہوگئے اور پندرہ سو کے قریب زخمی ہیں اور ان زخمیوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے کہ جن کی آنکھیں اور جسم کے دیگر اعضاء کیمیکل ہتھیاروں کی ذد میں آنے کی وجہ سے ضائع ہوگئے ہیں. مگر اس ظلم نے ان کو اک نیا حوصلہ اور ولولہ دیا اور آج پانچویں دن بھی کشمیری نوجوان پہلے سے زیادہ جراءت اور جزبے کے ساتھ سڑکوں پر موجود ہیں اور بھارتی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا مقابلہ پتھروں سے کر رہے ہیں اور پاکستان کے پرچم لہرا کر پاکستان سے اپنی محبت کا ثبوت دے رہے ہیں. اس معاملے پر تحریک آزادی میں جو تیزی اب آئی ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی یہی وجہ کہ بھارتی فوج کے کور کمانڈرز اور جنرلز یہ کہہ رہے ہیں کہ ھم کشمیر میں جنگ ہار چکے ہیں. اس وقت تحریک اپنے نقطہ عروج پر ہے اور اپنی منزل سے چند گام کے فاصلے پر ہے. اس وقت خود بھارت کے اندر سے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات آنے شروع ہوگئے ہیں. امریکہ اور دیگر اقوام کی توجہ اس طرف ہونا شروع ہوگئی ہے تو بھارت نے ان مظاہروں کی میڈیا کوریج پر پابندی عائد کردی دوسری طرف کشمیر میں انٹر نیٹ سروس معطل کر دی ہے تاکہ کہ کوئی خبر باہر نہ جاسکے. بھارت کشمیری نوجوانوں کے سامنے بے بس نظر آرہا ہے اور ان کو بزور قوت روکنا بھی ممکن نہیں رہا کہ ہر زخم اور شہادتوں کے بعد کشمیری ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ میدان میں آتے ہیں. کشمیر کی آزادی کی یہ تحریک اپنے واحد وکیل پاکستان سے بھی کچھ تقاضہ کرتی ہے. پاکستان جس نے ہمیشہ کشمیریوں کا ساتھ دیا مگر بعض اوقات بدترین غفلت کے مظاہرے بھی کیے گئے. کشمیر کی جغرافیائی حیثیت اور اس کی پاکستان کے لیے اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے.یہی وجہ کہ بانی پاکستان نے اس کو شاہ رگ کہا تھا. تو اہل پاکستان اہل کشمیر پاکستان کی محبت اور پاکستان کا پرچم لہرانے کے عوض اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاکر ھم سے اپنی محبت کا ثبوت دے چکے ہیں. اب گیند ھماری کورٹ میں ہے کہ ھم اہل پاکستان اس موقع اور اس نازک ترین صورتحال میں کیا فائدہ اٹھاتے ہیں. پاکستان کے وزیراعظم اور دفتر خارجہ نے اس صورتحال پر نہایت ذمہ دارانہ بیانات جاری کیے ہیں مگر یہ ناکافی ہیں ھمیں مزید کچھ اقدام اٹھانے ہوں گے.

پاکستان کے ذمہ داران اس معاملے کو انٹرنیشنل لیول پر نہایت احسن انداز میں اٹھائے اور بھارتی جارحیت اور مظالم کو پوری دنیا کے سامنے طشت ازبام کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اب وقت آگیا ہے کہ صرف بیانات نہیں بلکہ اہل کشمیر کی مدد کے لیے کوئی فیصلہ قدم اٹھایا جائے.

اسی طرح ھم پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی سوشل میڈیا ٹیموں کے سامنے بھی یہ تجویز رکھتے ہیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے لیے سوشل میڈیا پر ٹرینڈنگ کرنے کی بجائے کشمیر کی موجودہ صورتحال اور بھارتی مظالم کو سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے رکھا جائے اور کشمیر کی آزادی کے سلسلے میں رائے عامہ ہموار کی جائے.

اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کا الیکٹرونک میڈیا جس نے اس معاملے میں غفلت کا مظاہرہ کیا ہے کہ لاکھوں کشمیری بھارت کے خلاف جمع ہیں اور برہان کو پاکستانی پرچم میں دفنا رہے ہیں اور ھم بالی وڈ کی نئی آنے والی مووی کے سحر میں کھوئے اس کی شان میں قصیدے گا رہے. اس لیے پاکستانی میڈیا کو چاہیے کہ اپنی اس غفلت کی تلافی کرنے کے لیے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر بھارتی مظالم کا پردہ چاک کرنے اور تحریک آزدی کشمیر کو پوری دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کے لیے زبردست تحریک چلائی جائے. اس کے لیے ٹاک شوز، ڈاکومینٹریز اور پروگرامات کا سلسلہ شروع کیا جائے.

اسی طرح ھم پاکستان کے عام نوجوان سے بھی ملتمس ہیں کہ خودنمائی اور فیسبک اور دیگر سوشل میڈیا پر سیلفی کلچر کے چکر سے نکل کر کشمیریوں کی حمایت اور مدد کے لیے میدان میں آئیں کیونکہ کشمیر میں بھی نوجوان طبقہ ہی ہے جو اس وقت لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آکر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے اپنی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اور یہ نعرہ لگا رہے ہیں.
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب ذندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو کہ بازو بھی بہت ہیں اور سر بھی بہت
بڑھتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
ھم اہل کشمیر کو بھی پیام دیتے ہیں کہ ھم پاکستانی آپ کی حمایت و نصرت میں کھڑے ہیں. خدارا اب اپنے قدم ڈگمگانے نہ دینا کیونکہ اہل کشمیر منزل دور نہیں.
سیالکوٹ 16-07-13
Muhammad Abdullah
About the Author: Muhammad Abdullah Read More Articles by Muhammad Abdullah: 39 Articles with 38283 views Muslim, Pakistani, Student of International Relations, Speaker, Social Worker, First Aid Trainer, Ideological Soldier of Pakistan.. View More