آسیب زدہ سیاست کا اگلا شکار کون؟

پچھلے تین مہینوں سے زائدپاناماکے غیرروایتی آسیب نے ملکی سیاست کواپنے قبضے میں ایسے جکڑرکھاہے کہ ایک قدم آگے کو جاتاہے تودوقدم پیچھے کواٹھتے نظرآتے ہیں۔ماہ جولائی پھر اسی۷۰ء اور۹۰ء کی دہائی کی سیاست کااشارہ دینے والاہے۔ اپریل سے اٹھنے والاپاناما لیکس کامعاملہ سلجھنے کی بجائے الجھتاہی جارہاہے۔وزیراعظم کے قوم سے یکے بعددیگرے دوخطابات اور پارلیمنٹ میں تقریرکے بعدبھی بگاڑکی رفتارنے ذراسست ہونے کاتاثردیالیکن پھرمعاملہ تیزی پکڑگیا۔اس دوران میاں صاحب بغرضِ علاج ۴۸دنوں کیلئے برطانیہ چلے گئے مگران کی غیرموجودگی میں ٹی اوآرزکوحتمی شکل دینے والی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی آٹھ مرتبہ کی بیٹھک کے بعدبھی عملاً ناکام نظرآتی ہے۔اپوزیشن جماعتیں حکومت پربے لچک رویہ کاالزام لگاکراس کمیٹی سے کنارہ کش ہونے کی عندیہ دے رہی ہے ۔کمیٹی کے اجلاسوں میں دونوں جانب سے اپنے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل رکھنادرست مگرکمیٹی سے باہر بعض وفاقی وزاراءکے تلخ بیانات اورلہجہ بھی معاملات کوخوش اسلوبی سے طے نہ کرنے کاسبب بن رہاہے۔اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ٹی اوآرکمیٹی کے بارے میں پی ٹی آئی کلی طورپرمایوسی کااظہارکرکے بیس جولائی کوسڑکوں پر آنے کے پروگرام کااعلان کرنے والی ہے جبکہ پی پی پی بھی جن اقدامات کی طرف مائل ہے وہ مایوسی کااظہارہے لیکن اب وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈاردوبارہ اس معاملے پرگفت وشنیدکیلئے پی پی پی سے مذاکرات میں کسی پیش رفت کیلئے کوشاں ہیں۔

اسی پانامالیکس کوبنیادبناتے ہوئے پہلے پی ٹی آئی کی سابق صوبائی سیکرٹری اورمیاں نوازشریف کے مقابل قومی اسمبلی کی نشست پرشکست کھانے والی ڈاکٹریاسمین شاہدنے لولے لنگڑے الیکشن کمیشن میں وزیر اعظم کے خلاف ایک ریفرنس دائرکیااور بعدازاں پی پی کے سیکرٹری جنرل لطیف کھوسہ نے بھی ایسا ہی ایک ریفرنس وزیراعظم کے خلاف الیکشن کمیشن میں فائل کر دیاہے۔ لطیف کھوسہ کے توسط سے فائل کئے گئے اس ریفرنس میں بنیادی طورپرآئین کے آرٹیکلز۶۲اور۶۳کاسہارالیاگیاہے کہ میاں نواز شریف نے۱۹۸۵ء سے لیکر ۲۰۱۳ء کے درمیان جب بھی الیکشن میں حصہ لیا،اوراپنے اثاثوں کے بارے میں نیا مؤقف پیش کیا،گویاایک الیکشن کمیشن کیلئے جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں پہلے والے اعدادوشمارسے ہٹ کراعدادوشمارپیش کئے گئے ۔ان کایہ بھی کہناہے کہ وزیراعظم کے اثاثوں کے حوالے سے بعدازاں ان کی پارٹی یاخاندان میں سے جس کسی نے بھی کوئی مؤقف اختیارکیاوہ باہم متصادم ہے ۔اس لیے میاں نوازشریف دیانت کے معیارپرپورے نہیں اترسکے لہنداان کے خلاف آئین کی مذکورہ بالادونوں دفعات کے تحت کاروائی عمل میں لائی جائے اورانہیں وزارتِ عظمیٰ کے ا علیٰ ترین منصب اورقومی اسمبلی کی نشست سے الگ کیا جائے۔

کیاپاکستان کی پارلیمنٹ میں موجودحضرات،سابق ارکان پارلیمنٹ یاآنے کیلئے پرتولنے والے قائدین آئین کی انہی دودفعات کے تحت اپنے جائزے اور احتساب کیلئے خودکو پیش کرناخوشی خوشی قبول کرسکتے ہیں اورکیاوہ اس امرکے متحمل ہوسکتے ہیں۔یقینااس کاجواب ہاں میں قریب قریب ناممکن ہے لیکن پھربھی پی پی کی قیادت نے یہ رسک لیاہے تواس کے سواکچھ اورمقصود نہیں ہوسکتاکہ حکومت کودباؤ میں لایا جائے۔اسی اعلیٰ اورارفع مقصدکی خاطرپی ٹی آئی کی ڈاکٹریاسمین نے اپنی قیادت کے حکم کی تعمیل کی ہے اورتقریباً ایک ماہ کی تیاری کے بعداپنے وکلاء کی مددسے انہوں نے بھی الیکشن کمیشن سے یہ جانتے بوجھتے استدعاکی ہے کہ انہیں اوران کی پارٹی کوپوری طرح اندازہ ہے کہ الیکشن کمیشن جس کااپنا بنیادی ڈھانچہ بھی مکمل نہیں ہے اورجس کے ہاں اس سے کم اہمیت کے یاادنٰی معاملات التواء میں ہیں،وہ وزیراعظم کی نااہلی کافیصلہ کیونکرکرسکے گا،اگرچہ ابھی یہ مسئلہ بحث طلب ہے کہ الیکشن مکمل ہونے کی صورت میں بھی الیکشن کمیشن سے براہِ راست اس مقصدکیلئے رجوع کیاجا سکتاہے یاالیکشن کمیشن اس بارے میںفیصلے کامجازہے بھی یانہیں لیکن چونکہ مقصدوزیراعظم کی اس راستے میں نااہلی ممکن بنانے سے زیادہ حکومت کو سیاسی اعتبارسے دباؤمیں لاناہے اس لئے اپوزیشن کی دونوں بڑی اور نسبتاًزیادہ متحرک جماعتوں سے مل کریہ راستہ اختیارکرلیاہے کہ وہ سڑکوں پرآنے کیلئے بے چین ہیں۔
حکومت کودباؤمیں لانے کیلئے اپوزیشن کی جماعتیں اس سے بھی اگلے اقدامات کرنے کیلئے پرتول رہی ہیں بلکہ پورازورلگانے کی کوشش میں جماعت اسلامی راولپنڈی میں ایک پیدل مارچ کااعلان کرچکی ہے،اس سے پہلے ٹرین مارچ اور کرپشن کے خلاف اس کی لمبی مہم جاری تھی ۔پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اپنی جماعت کوماہ جولائی میں سڑکوں پرلانے کیلئے تیاری کی ہدائت اور ۲۰ جولائی کواپنااگلالائحہ عمل جاری کرنے کااعلان بھی کرچکے ہیں۔پنجاب اسمبلی میں قائدحزبِ اختلاف محمودالرشید کو انہوں نے ماہِ رمضان کے آغازسے پہلے ہی ایک ملاقات میں کہہ دیاتھاکہ اپنی جماعت کے تمام ارکانِ اسمبلی کوبتا دیں جوبھی اہم کام کرنے ہوں جولائی سے پہلے پہلے کرلیں۔اپنی جماعت کوبھی اسی نوعیت کی ہدایات دینے کے علاوہ بے بانگ دہل سڑکوں پرآنے کی بات کرتے رہتے ہیں،یہاں تک کہ پیپلزپارٹی کے بلاول زرداری جس کے والد ''زرداری،کرپشن کی سب سے بڑی بیماری''کہہ کرمخاطب کرتے تھے،اب اس کے ساتھ ایک ہی کنٹینرپرچڑھنے کوتیار نظرآتے ہیں۔پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہناہے کہ اگرچہ احتجاجی ریلیوں کارخ اس باربھی اسلام آباد ہوگالیکن احتجاج کامرکزلاہورکوبنایاجائے گاتاکہ مسلم لیگ (نواز) کے گڑھ میں اسے چیلنج کیا جائے اورحکومتی اعصاب کوشل کیاجا سکے۔

پی پی جس نے تقریباًپونے تین سال پورے مفاہمتی جذبے کے ساتھ نوازشریف کاساتھ دیامگراب مفاہمتی سیاست کے مقابلے میں نسبتاًجارحانہ موڈمیں ہے۔اس کے اہم رہنماء اب عام طورپریہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ وزیراعظم کے جانے کامطلب قطعاً جمہوریت کاجانانہیں ہے،اس لئے اگرپانامالیکس کی وجہ سے وزیر اعظم کی چھٹی ہوتی ہے تویہ غلط نہ ہوگا۔کرپشن کے الزامات میں سرتاپاڈوبی رہنے والی پیپلزپارٹی کیلئے اس سے اچھاموقع شائدہی کوئی ہے کہ پانامالیکس کے کھاتے میں نوازحکومت کے درپے ہوکرکرپشن کلچر کواکیلی اپنی شناخت ہونے کاازالہ کرے،ماضی کی اپنی سب سے بڑی شاخ پنجاب پیپلز پارٹی کے تن مردہ میں جان ڈالنے کاامکان پیداکرنے کیلئے مسلم لیگ کی حکومت کوچیلنج کرے اوراپنی نئی قیادت یعنی بلاول زرداری کی ایک قومی رہنماء کے طور پر لانچنگ کاموقع فراہم کرسکے،شائداسی وجہ سے پیپلزپارٹی نے پی ٹی آئی کے معاملات سے آنکھیں بندکر رکھی ہیں اوراپنی حکومت مخالف سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے پیپلزپارٹی کے خلاف لگائے جانے والے کرپشن الزامات کے بارے میں پی ٹی آئی نے بھی اپنی زبان بندکررکھی ہے۔ پی پی کامسلم لیگی حکومت سے جارحانہ موڈ میں ڈیل کرنااوروہ بھی ایسے وقت جب وزیراعظم کوعلالت سے ہونے والے اضمحلال سے زیادہ ان کی حکومت ضعف اورکمزوری کاشکار ہورہی ہے جوپیپلزپارٹی کیلئے سنہری موقع سے کم نہیں ہے۔انتشارکایہی منظر ملکی خارجہ پالیسی کی سطح پر دیکھنے کوملتارہتاہے اورملک کے اندرونی معاملات کے حوالے سے بھی ۔

پانامالیکس کے بعدحکومت کی پوزیشن جہاں سیاست اورپارلیمنٹ میں متاثرہوئی اورعوامی سطح پراس کی ساکھ پرمنفی اثرپڑنے کاخطرہ پیداہواہےخصوصاً میڈیامیں پانامالیکس کے ایشوزکے زیربحث آتے رہنے اورمہنگائی کے جن کے ہاتھوں عوام کے بے بس ہوتے چلے جانے نے بھی حکومت کے لئے عوامی محبت میں کمی کی ہے۔حالات کے اس بگاڑمیں عوام کودالوں کی بجائے مرغی کھانے کے مضحکہ خیزمشورے دیکر اسحاق ڈارایسے غیرسیاسی حکومتی زعماء نے بھی اپناخوب حصہ ڈالاہے۔حکومتی وزاراء کے آپس کے تعلقات کی مسلسل خرابی،بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ نوازکاغیرفعال ہوکر رہ جانااورعوام کے ساتھ وزاراءاوراسمبلی کامیل جول کمترہوکررہ جانے سے اورترقیاتی منصوبوں کے ایک اندازکے غالب رہنے سے بھی عوامی سوچ پراثراندازہونے میں اپوزیشن کی آسانی بڑھتی رہی ہے۔

حکومت کایہ ضعف ہرسطح پرجھلک رہاہے۔ملک کے اندرگورننس کے مسائل ہیں،کہیں ادارہ جاتی شیرازہ بکھرانظرآتاہے،کہیں حکومت کی اپنی پالیسی کے تحت ہی اداروں کوکمزوررکھا گیاہے۔الیکشن کمیشن ،اوگرا نامکمل پڑے ہیں۔ایف آئی اے کے سربراہ کی اپنے وزیرکے ساتھ''نہیں''کی بحثیں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس میں سب سے اہم مثال سول حکومت اورفوج کے اہم ادارے کی ہے کہ تین سال کاعرصہ گزرنے کوہے لیکن معاملات ایسے ہی رہے جیسے ایک بے جوڑ شادی ہو ۔فریقین عملاً صفائیاں پیش کرتے رہے اوردوسروں کویہی بتانے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ دونوں ایک ہی صفحے پرہیں لیکن سوفیصد ایسانہیں ہے۔ایسے میں مسلم لیگ نوازحالیہ دنوں میں کرائے گئے سرویزنے مسلم لیگ کو یہ اعتماددے دیا ہے کہ اگلاالیکشن بھی مسلم لیگ کاہی ہوگا۔اس منظرنامے میں حکومت کے مخالفین سڑکوں پرآنے کوبے چین نظرآتے ہیں ۔یہ درست ہے کہ حکومت کے مخالفین ابھی باہم شیروشکر نہیں ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے درمیان مشترکہ ایجنڈاتشکیل پانے کاعمل تیزترہورہاہے۔

وزیراعظم کے علاج کیلئے لندن جانے سے ایک رائے یہ بنی کہ حکومت کوکچھ ہمدردی کاماحول میسرآ گیا،اپوزیشن جماعتوں کو بیماری کی وجہ سے کچھ دنوں کیلئے اپنالہجہ نرم کرناپڑالیکن یہ رائے بھی اپنی جگہ نظراندازکیے جانے کی نہیں کہ وزیر اعظم کے بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے بعض نئے مسائل بھی سر اٹھانے کے قابل ہوگئے۔وزیراعظم کی مٹھی میں بندسمجھی جانے والی جماعت کے وفاقی وزاراءکی سطح پردراڑیں اس دوران مزیدبڑھی ہیں،حتیٰ کہ ارکان ِ پارلیمنٹ نے وفاقی وزاراءاوروزیراعظم کے سب سے زیادہ معتمدوزیرخزانہ کے بارے میں کھل کرایک گروپ سابن کرابھرا،جسے اب آکرمریم نوازنے دلاسہ دیا ہے لیکن یہ دلاسہ کتنا بھی مؤثرہودیہی پس منظررکھنے والے ارکانِ قومی اسمبلی نے غیررسمی طوپرحکومتی پالیسیوں کے خلاف غم وغصے کا اظہارکردیاہے ۔یوں جیسے جیسے ملک میں سیاسی تناؤ بڑھانے میں اپوزیشن اپنا کرداراداکررہی ہے،یہ سوال بھی اٹھنا شروع ہوگیاتھاکہ عیدکے بعدمیاں نوازشریف آئیں گے یا تبدیلی؟

میاں صاحب جب اڑتالیس دنوں کے بعد ملک میں واپس لوٹے ہیں تو مسائل اور چیلنج کی لمبی قطارنے ان کااستقبال کیااوران مسائل میں ایک اہم مسئلہ خود شریف خاندان کے اندر پہلی محبت وہم آہنگی میں کمی کی علامات پربھی باتیں ہونے لگی ہیں۔یہ پہلاموقع ہے کہ میاں نوازشریف کی طرف سے وفاقی حکومت کے معاملات میں اسحاق ڈاراوراپنی صاحبزادی مریم کوزیادہ اہمیت دینے کااہتمام نظرآیاہے۔اس کوشش میں یہ محسوس ہوتاہے کہ ایک غیرمرئی طریقے سے میاں نوزشریف نے اپنے انتہائی محنتی بھائی شہبازشریف کواپنے دائرے تک محدود رکھنے کی کوشش کی ہے،خصوصاً اپنے بھتیجے حمزہ شہبازکو۔ حمزہ کے مقابلے میں مریم کو غیر اعلانیہ سیاسی جانشین کے طورپراگرخودنوازشریف نے کوشش نہیں کی تو کم ازکم ان کے معتمدساتھیوں اورمشیران نے اس کابندوبست ضرورکیاہے ۔اس سے میاں نوازشریف کی سیاسی پوزیشن اپنے خاندان میں ہی متاثرہوسکتی ہے خصوصاً ایسے ماحول میں جب نوازشریف کی صحت کے بارے میں ابھی بہت سے خدشات موجودہیں،شہبازشریف کاکردار صوبے تک محدودہونے سے بھی پارٹی پرگرفت میں مسائل کااندیشہ ہے ۔

یادرہے کہ وزیراعظم کی ملک میں عدم موجودگی کے دوران پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں حکومتی اندازاس رفتاراورتوجہ کاحامل نہیں رہ سکا جتنی کہ ماہِ نومبرسے پہلے پہلے اس کے تکمیلی مرحلے میں اسے داخل کرنا ضروری ہے۔حکومت کے ناقدین اسے حکومت اورفوج کے درمیان خارجہ پالیسی کے حوالے سے سوچ میں فرق کے تناظرمیں بھی دیکھ رہے ہیں۔اس میں میاں نوازشریف سے قربت کاتاثردینے والی مودی سرکاردوستی کابھی بہت حوالے دیئے جارہے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی شہادت پرنواز شریف کی طرف سے بھارتی درندگی کی مذمت کرنے کے بعدبھارتی پریس بری طرح تلملااٹھاہے جس سے اپوزیشن کی طرف سے پھیلائے گئے شکوک وشبہات کے غبارے سے فی الحال ہوانکل گئی ہے۔ امریکاسے خاندانی اعتبارسے قریب تر ہونے کاتاثررکھنے والے وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کی امریکامیں قربت اورمبینہ قرابت داریوں کابوجھ بھی کسی اورپرنہیں حکومت پر ہی آئے گاکہ امریکی کانگرس کی ایک کمیٹی نے پاکستان کی ہرقسم کی مدد روکنے کی پرزور سفارش کی ہے۔یہ ساراایندھن اچھے اشاروں کا امکان نہیں دکھاتاہے جبکہ عبدالستارایدھی کی رحلت نے بھی مسلم لیگ نواز کی طرف سے اپنے لیڈرنوازشریف کے پرجوش استقبال کی تیاریوں کے پروگرام کوبھی کافی متاثرکیاہے جس سے مسلم لیگ کواپنی سیاسی طاقت کے مظاہرے کاموقع نہ مل سکااوراپوزیشن ہرآنے والے دن میں مقابلے کی مکمل تیاریوں میں مصروف ہے لیکن یہاں ایک اہم سوال ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنہوں نے اس ساری صورتحال پرخاموشی اختیار کررکھی ہے ۔کراچی میں بدامنی کے حالیہ واقعات کے بعدپاک چین اقتصادی راہداری کیلئے اپنے عزم کے حوالے سے کب تک اس احتجاج اورشورکے ماحول میں چپ سادھے رکھیں گے،انہیں تونومبرسے پہلے اقتصادی راہداری مکمل کرنے کے علاوہ ملک میں امن کاخواب بھی شرمندۂ تعبیرکرناہے۔ دہشتگردوں کے سہولت کاروں اورمالی مددگاروں پرہاتھ ڈالنے کے ساتھ ساتھ کرپشن کی بھی بیخ کنی کرناہے۔دیکھیں اب آئندہ دنوں میں کس کاچاند روشن ہوتاہے اورکون آسیب زدہ سیاست کی نذرہوتاہے۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 389853 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.