کشمیر ایک بار پھر سلگ اٹھا ہے پھر بھارتی
فوجی بندوقیں تان کر کشمیر میں نکل کھڑے ہوئے ہیں اور پھر اس کے بیٹوں کے
خون سے سرزمین کشمیر لالہ زار بنی ہوئی ہے۔ نوجوان کشمیری مجاہد برہان مظفر
وانی کی شہادت نے کشمیریوں کو سڑکوں پر لاکر انہیں بے خوفی سے ظالم اور
قابض فوج کے سامنے سینہ تاننے پر مجبور کر دیا ہے اور ان کے ہاتھوں میں
پاکستانی پرچموں کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کی ساری جدوجہد کی
بنیاد ہی پاکستان کے ساتھ الحاق ہے۔ اسی کے لیے اُس کے بوڑھے ، نوجوان ،مرد
اور عورتیں سب اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر بھارتی فوج کے آگے سینہ سپر
ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں سب سے پرانا مسئلہ ہے جو آج اڑسٹھ سال
گزرنے کے باوجود بھی لاینحل ہے۔ کشمیری مسلسل اپنی جانیں دے رہے ہیں اُن کی
جنت نظیر وادی امن کے لیے ترس رہی ہے لیکن نہ بھارت وہاں سے اپنی فوجیں ہٹا
رہا ہے نہ اُنہیں آزادی دے رہا ہے اور نہ ہی اس قتل عام پر عالمی برداری
کوئی اعتراض کر رہی ہے ۔اپنے ہاں کتے بلیوں کے حقوق پر لڑ مرنے والے یہاں
کے انسانوں کے قتل پر کسمسا بھی نہیں رہے۔ کشمیریوں کے قتل عام کی موجودہ
لہر میں اب تک چالیس افراد شہید ہو چکے ہیں ۔ یہ لوگ نوجوان کشمیری
مجاہدبرہان ہد مظفر وانی کی شہادت پر احتجاج کر رہے تھے یہ نوجوان اپنی
سوشل میڈیا مہارت کو استعمال کرتے ہوئے جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کر
رہا تھا ۔اس کی جاذب نظر شخصیت اور پھر اُس کی جدوجہد کے انداز سے بہت سے
کشمیری نوجوان متا ثر ہو کر آزادی کی تحریک کا حصہ بن رہے تھے اور بھارت اس
خوف میں مبتلا ہو رہا تھا کہ اب خوشحال اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ اُس کے
خلاف اٹھ کھڑا ہو رہا ہے وہ اپنی آرام دہ زندگی کو خیر باد کہہ کر جہادِ
آزادی میں اپنا حصہ ڈال کر اسے فیصلہ کن بنانے کے لیے بھارت حکومت اور فوج
کے سامنے آکھڑا ہو رہا ہے۔ اس نوجوان نے بھارت حکومت اور فوج کو جس مشکل
میں ڈالا اُسی نے اُسے مجبور کیا کہ اُس کے سر کی قیمت دس لاکھ روپے رکھے
لیکن اس کی شہادت کے بعد کشمیریوں کا رد عمل دیکھ کر اُس کے میڈیا نے
پینترا بدلا اوراُسے بھارتی ایجنٹ کہنا شروع کر دیا یعنی حیرت ہے بھارت نے
اپنے ایجنٹ کی سر کی قیمت رکھی اُس کی خدمات کے صلے میں اُسے ہلاک کیا اور
ایجنٹ بھی ایسا تھا کہ اپنی فوج اور پولیس پر حملے کرتا تھا اور دوسروں کو
بھی اس پر اُکساتا تھا یہ سارا کھیل دراصل ان کشمیریوں کو اُس سے بد ظن
کرنے کے لیے ہے جو اُس کی شہادت پر بھارت حکومت اور فوج کے خلاف سڑکوں پر
نکل آئے ہیں اور اس تعداد میں نکلے کہ بھارتی وزیراعظم مودی نے بھی کشمیر
کو ایک مسئلہ قرار دے دیا۔ اس وقت کشمیر میں کرفیو نافذ ہے، انٹرنیٹ او
رموبائل فون سروس معطل ہے، فوج اپنی طاقت کا بھر پور استعمال کر رہی ہے،
مظاہرین پر بے دریغ فائرنگ کی جا رہی ہے اور اسی لیے شہادتوں کی تعداد بڑھ
رہی ہے۔ گولیاں بھی کچھ اس انداز اور اس قسم کی چلائی جا رہی ہیں کہ اب تک
ہزاروں افراد زخمی ہوئے ہیں اور رپورٹس کے مطابق 190 افراد کی آنکھیں متاثر
اور ضائع ہو چکیں ہیں ۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے بھی طاقت کے اس بے دریغ
استعمال پر اعتراض کیا ہے۔ پاکستان میں تو ظاہر ہے کہ اس ساری صورت حال پر
تشویش اور غصہ پایا جا رہاہے، اسی بے چینی کا اظہار اعلیٰ قیادت نے بھی کیا
اور اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمشنر کو بلا کر احتجاجی مراسلہ دیا گیا۔
وزیراعظم نے کا بینہ کا خصوصی اجلاس بلاکر مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر
تشویش کا اظہار کیا ، آرمی چیف نے کور کمارنڈر ز کانفرنس میں کشمیر کی صورت
حال پر تشویش کا اظہار بھی کیا اور اس کے حل پر زور بھی دیا۔ اقوام متحدہ
میں مستقل پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی نے بھی پاکستان کا موقف پر زور انداز
میں پیش کیا۔ سرکاری سطح پر یہ تمام اقدامات کیے گئے لیکن کیا یہ سب کافی
ہے اور کیا یہ کشمیر کا مسئلہ حل کر دے گا کیا بھارت کو گلا پھاڑ پھاڑ کر
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دینے والے ہمارے اپنے اور دنیا کے سیاستدان
ذرا دل کی آنکھیں کھول کر کشمیر ی بچوں، نوجوانوں اور بوڑھوں کے چھروں سے
چھلنی جسم اور اندھی آنکھیں دیکھ سکیں گے جو بھارت کی ریاستی دہشت گردی کی
نظر ہو گئیں ہیں۔ اُس معصوم بچے کا چھروں سے بھرا ہوا ایکسرے جو ہمارے ایک
چینل نے دکھایا کاش عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ سکے جو کشمیریوں کا خون اور اُن
کی اندھی آنکھوں کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں ۔ یہاں ہمارے اپنے
چینل اُٹھ اُٹھ کر بھارت کی عظمت کے گن گاتے ہیں فلم سلطان کی کامیابیوں کے
جھنڈے گڑھتے ہوئے دکھائے جاتے ہیں۔ خدا را کم از کم اس وقت تو خوشی کے
جذبات سے معمور آواز میں اِن کامیابیوں اور ریکارڈوں کا تذکرہ نہ کیا جائے۔
ہم اقوام متحدہ کو تو اس کی قرار دادیں یاد دلا رہے ہیں، اُس کے دفتروں میں
یاداشتیں پیش کر رہے ہیں، ریلیاں نکال نکال کر دنیا کو جگانے کی کوشش کر
رہے ہیں لیکن خود ہم زبانی کلامی باتوں سے آگے نہیں بڑھ رہے کم از کم ہم
اتنا تو کر سکتے ہیں کہ بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں اُس کے اداکاروں
اور اداکارؤں سے سجے ہوئے بل بورڈز ہٹا دیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ انہیں بل
بورڈوں کے سائے تلے ہم ریلیاں نکال کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے کشمیریوں سے
یکجہتی کا اظہار کر لیا ہے حالانکہ ہم ان کے قاتلوں کی تصویروں تک کو گزند
نہیں پہنچنے دیتے ۔ہمارے گھروں میں ان کے ڈرامے اور اشتہارات یوں چلتے ہیں
کہ شاید اُن کے دوست ممالک میں بھی یوں نہ چلتے ہوں۔طویل المدت اقدامات تو
بعد کی بات ہے ابھی تو ہم ان فوری اقدامات سے ہی کشمیریوں کو یہ یقین
دلائیں کہ اگر ان کے ہاتھوں میں ہمارے پرچم ہیں تو ان کی پشت پر ہماری
اخلاقی مدد موجود ہے ۔ان چھوٹے چھوٹے اقدامات سے ہی سہی اس وقت تو پاکستان
اپنی شہ رگ پر ہاتھ رکھے ہوئے بھارت کا اصل مکروہ چہرہ دنیا کو دکھا ئے۔ اس
وقت کشمیر جل رہا ہے اور ہمیں دنیا کو ان شعلوں کو دکھا نا ہے جن میں
کشمیری جل رہے ہیں ۔پاکستان میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ریلیاں بھی
نکالی گئی لیکن ہمیں اس سے آگے بڑھنا ہوگا اور پورے پاکستان کو کشمیر کا
حمایتی بننا ہوگا اور کھلم کھلا یہ حمایت کرنا ہوگی اُس کشمیر اور اُن
کشمیریوں کی حمایت جو پاکستان کے پر چم ہاتھوں میں پکڑے گولیاں کھاتے ہیں
اور اس کی محبت میں جان دے دیتے ہیں۔ اُن سے اپنی جوابی محبت کے ثبوت کے
طور پر ہمیں بھارت کے ساتھ دو ٹوک رویہ اپنانا ہوگا اور دنیا میں ہر فورم
پر اس مسئلے کو اُجا گر کرنا ہوگا اور پرزور انداز میں کرنا ہوگا۔ ہمیں
اقوام متحدہ کو یاد بھی کرانا ہوگا کہ اُس نے اپنی ہی قرار دادوں پر عمل
کرا کے کشمیر میں ریفرنڈم بھی کرانا ہے ویسے کشمیری ہر روز سڑکوں پر آکر یہ
ریفرنڈم کرتے ہیں اور پاکستان کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تا ہم یہ رسمی
ریفرنڈم اب ہو جانا چا ہیے تاکہ کشمیری بھی آزادی کا سانس لے سکیں اور ظالم
اور غاصب بھارت کے قبضے سے باہر آسکیں کیونکہ آزادی اُن کا بھی دنیا کے ہر
فرد کی طرح بنیادی حق ہے۔ |