سعودی عرب میں دہشت گردی۔قابل مذمت

دہشت گردی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ کوئی ملک بھی دہشت گرد کاروئیوں سے محفوظ نہیں۔ دہشت گردی کا باقاعدہ آغاز 9/11کے بعد سے ہوا۔ جب سے دہشت گردی نے ایک ناسور کی مانند بے شمار ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ خاص طور پر اسلامی ممالک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان سرِ فہرست نظر آتا ہے۔ دنیا کا بڑا اور اہم ملک سعودی عرب دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ پیر 4جولائی 2016ء میں سعودی عرب اورمسلمانانِ اسلام کے مقدس شہر مدینہ منورنہ میں مسجد بنوی ﷺ کے قریب خود کش دھماکہ کیا گیا۔ مدینہ کے علاوہ جدہ اور قطیف میں چار خودکش دھماکے ہوئے ۔ ان میں سے ایک مدینہ منورہ میں ، دہشت گرد نے مسجد نبوی ﷺمیں داخل ہوکر کاوائی کی لیکن بروقت سیکیوریٹی افراد کی کاروائی کے باعث اس نے اپنے آپ کو مسجد نبوی اور جنت البقیع کے درمیان سیکیورٹی چیک پو سٹ کے قریب کارپارکنگ میں خود کو بم سے اڑالیا جس کے نتیجے میں افطار کرتے ہوئے پانچ سیکیوریٹی اہل کار شہید ہوگئے۔ عین دھماکے کے وقت مسجد نبوی میں اقامت کہی جارہی تھی۔ یہ دھماکے اس وقت ہوئے جب مدینہ منورہ میں سحری و افطار کی علامت کے طور پر کینن فائر کا وقت تھا ، یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے یہ خیال کیا کہ یہ کینن کے فائر ہونے کی آواز ہے ۔ اس وجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔خود کش دہشت گرد 28 سالہ مسلم حماد البخیدی بتا یا گیا ہے، یہ شخص سعودع عرب کو کئی دہشت گردی کی کاروئیوں میں مطلوب تھا۔دو دھماکے سعودی عرب کے مشرقی شہر قطیف میں مسجد فراج العمران کے قریب خود کش دھماکے ہوئے ، دھاماکے میں خود کش بمبار ہلاک ہو گیا۔ خود کش بمبار 23سالہ عبدالرحمٰن العمر، 20 سالہ ابرہیم العمر،20سالہ عبدالکریم الحسنی بتائے گئے ہیں، تیسرا خود کش دھماکہ جدہ میں بحرالا حمر میں سلیمان فقیہ اسپتال کے نذدیک واقع امریکی قونصل خانے کے قریب ہوا ایک خود کش بمبار جسے اب تک کی اطلاعات کے مطابق پاکستانی ظاہر کیا جارہا ہے نے خود کو دھماکے سے اڑالیا جس کے نتیجے میں دو سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوگئے۔یہ خود کش دہشت گرد پاکستانی نژاد تھا جس کانام عبد الﷲ گلزار خان بتا یا گیا ہے۔

واضح طور پر تو ان خود کش حملوں کی ذمہ داری کسی دہشت گرد تنظیم نے قبول نہیں کی ہے لیکن عرب نیوز کی اطلاع کے مطابق جدہ اور قطیف میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی داعش نے سیریا میں کی اور خود کش حملہ آوروں کو خود کش جیکٹیں فراہم کیں۔ مکہ اور مدینہ میں کوئی ایسی مسلمان دہشت گردی تو دور کی بات لڑائی جھگڑاکرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پاکستانی ہی کیا دنیا کا ہر مسلمان حرمین شریفین کے لیے اپنی جان بھی دینے سے گریز نہیں کرے گا۔جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے اس وقت دنیا کا ہر ملک اور اسلامی دنیا کے تمام ہی سلطنتیں دہشت گردی کا شکار ہیں، سعودی عرب میں اس قسم کے واقعات پہلے مرتبہ نہیں ہوئے بلکہ دہشت گردی ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے۔ 1979ء کی بات ہے کہ دہشت گرد خانہ کعبہ میں قبضے کے لیے داخل ہوگئے تھے۔ اس دہشت گردی کو سعودی عرب کے علاوہ پاکستان کے بہادر کمانڈوز نے نا کام بنا یا تھا۔ سعودی عرب کے تنازعہ بعض اسلامی ممالک سے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ دیگر ممالک بھی باہم دشت و گریباں نظر آتے ہیں، دہشت گردوں کے منصوبے تو اپنی جگہ اسلامی ممالک باہم ایک دوسرے پر الزام تراشی اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔ سعودی عرب کی یمن میں کاروئیاں ، حوثی باغیوں کی لشکر کشی اور دیگر کاروائیوں کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے۔ یمن میں باغیوں کی مدد کون کون نہیں کررہا ، یہ بات بھی سب پر عیا ں ہے، شام کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی ہے، لیبیا، تیونس میں بھی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے،سعودی عرب اور ایران بھی ایک دوسرے سے خوش نہیں، سعودی عرب نے 35 ممالک کی افواج پر مشتمل اتحاد تشکیل دیا ، دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے اسلامی ممالک میں دہشت گردی پھیلانے کو اپنا مقصد بنا رکھا ہے ۔ اس میں پاکستان کے علاوہ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک بھی شامل ہے۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزتا ہوگا کہ کوئی دہشت گرد واقعہ رونما نہ ہوتا ہو۔

لمحۂ فکر یہ ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں، ان کابنیا دی مقصد دنیا میں اسلامی شرعی نظام کا قیام بھی ہے۔ دیگر ممالک میں دہشت گردی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن کیا کوئی مسلمان اﷲکے گھر خانہ کعبہ اور ہمارے نبی ﷺ کے روضہ مبارک اور مدینہ منورہ میں کشت و خون کا بازار گرم کرنے، بے گناہ مسلمانوں کو شہید کرنے کا عمل کرنا تو دور کی بات مسلمان تو ایسا سوچ کر ہی لرز جاتا ہے۔ یہ کیسے جنت کے حصول کی خواہش رکھنے والے لوگ ہیں ، کہ جس نے جنت عطا کرنی ہے، جس کے سامنے ہم گڑ گڑا کر ، عاجزی کے ساتھ، دن میں پانچ مرتبہ سجدہ ریز ہوتے ہیں، اپنے ہاتھ اٹھا اٹھا کر اپنے لیے خیر مانگتے ہیں، گناہوں کی توبہ کرتے ہیں، اپنے لیے اور اپنے والدین کے لیے جنت کی دعا کرتے ہیں۔ عجیب اور سمجھ سے بالا ہے کہ مدینہ منورہ میں جنت البقیع اور روضہ رسولﷺ کے عین درمیان خود کش حملہ کرنے والا یا حملہ کرنے والے، انہیں اس عمل پر تیار کرنے والے ، کس منہ سے سجدہ ریز ہوتے ہیں، کس منہ سے توبہ اور جنت کی دعا کرتے ہیں۔ یہ بات واضح ہوچکی کہ یہ خود کش دھماکے کرنے والے غیر مسلم نہیں تھے ، یہ سعودی، پاکستانی تھے، گیا مسلمان ہی تھے۔ ان کی مسلمانیت پر کیا کہا جاسکتا ہے؟ ان کو اس عمل پر اکسانے والے، ان کا برین واش کرنے والے، انہیں جنت کا سبز باغ دکھا کر خود کش حملہ کرنے والوں کو پروردگار ہدیت دے، پروردگار اگر ان کی قسمت میں ہدایت نہیں تو انہیں اس دنیا سے اسی طرح اٹھا لے جیسے ان کے تیار کردہ خوش کش بمباروں کو دنیا سے نیست و نابود کردیا ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ مسجد نبوی کی دیوار اور جنت البقیع کی دیوار کے درمیان بہت ہی کم فاصلہ ہے ، اس جگہ سے روضہ رسول ﷺ چند قدم کے فاصلے پر ہے، اس خود کش حملہ آور ، بد بخت ، وحشی، جنگلی، درندہ کہاں جاکر یہ دھماکہ کرنا چاہتا تھا؟ یقینا اگر اسے موقع مل جاتا یا پھر اﷲ نے اسے اسی حد تک محدود رکھا کہ وہ ہمارے آقا و مولا نبی آخر الزما ں حضرت محمد ﷺ کے روضہ مبارک تک نہ پہنچ سکا، اس نے یہ جرت کیسے کی؟ اگر وہ مسلمان تھا تو اسے خوف خدا نہ آیا، اسے رسول ﷺ سے چاہت اور ان کا مقام کا خیال نہ آیا، مدینہ منورہ تو شہر امن ہے، شہر سکون ہے، شہر چین ہے، شہر اطمینان ہے، شہر آرام ہے، شہر صلح، شہر آشتی ہے، شہر پناہ ہے، شہر حفاظت ہے پھر دہشت گرد نے کیسے اور کیوں کر یہ قدم اٹھایا؟ کلمہ پڑھنے والا تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا، ا یسا عمل کرنا تو دور کی بات ہے، اس منصوبے کا ماسٹر مائنڈ کیا کوئی مسلمان ہوسکتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔ جو مسلمان اپنے پیارے نبی ﷺ کے روضے کی ایک جہلک دیکھنے کی خواہش لیے رہتا ہو، اس کی خواہش اور تمنا ہی یہ ہو کہ اسے زندگی میں ایک مرتبہ خانہ کعبہ میں حاضری ہوجائے ، وہ ایک مرتبہ اپنے آقا و مولا کے روضہ کا دیدار کر لے ، وہا ں سلام عقیدت پیش کردے، وہ تو اپنے نبیﷺ کے نام پر اپنی جان و مال ، عزت و آبر و قربان کرنے کر ہر لمحۂ تیار رہتا ہو، وہ بھلا اس طرح کی کاروائی کرنا تو دور کی بات سوچ میں بھی یہ عمل نہیں لاسکتا ، یقینا یہ عمل کرنے والا مسلمان ہر گز ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہودیوں سے نفرت، امریکہ سے نفرت، برطانوی پالیسی سے اختلاف اور دشمنی اپنی جگہ، کوئی اس بات سے متفق نہیں کہ امریکہ دنیا میں اپنا لوہا منوانے کے لیے جو اقدامات کررہا ہے ان سے شدید اختلاف ہوسکتا ہے، امریکہ کی پالیسیاں کسی بھی مسلمان ملک کے فائدے میں نہیں، وہ تو غیر مسلموں کے ساتھ بھی مخلص نہیں، وہ مفاد پرست ملک ہے، اسے صرف اور صرف اپنا مفاد ، اپنا فائدہ عزیز ہے ، اس مقصد کے حصول کے لیے وہ طرح طرح کے منصوبے بنا تا ہے، طرح طرح سے مختلف ملکوں کو لالچ دے کر، امداد اور قرض دے کر اپنے قابو میں رکھتا ہے۔ سعودی عرب کا جھکاؤبھی اسی جانب نظر آتاہے، دہشت گردوں کے لیے یہی عمل سعودی عرب سے دشمنی کا باعث ہوسکتا ہے، دیگر اختلافات بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ خانہ کعبہ ، مکہ و مدینہ کو نشانہ بنائیں۔اس قسم کی دشت گردی سے مسلمانوں کے ان مقدس و محترم مقامات کی حرمت مجروح ہوئی ہے، مسلمانوں کی دل دکھی ہوئے ہیں، وہ اندر سے ٹوٹ کر رہ گئے ہیں، دہشت گردوں کو سوچنا ہوگا کہ ان کا یہ عمل کس قدر تکلیف کا باعث ہوا ہے۔ اﷲ تعالیٰ انہیں نیک ہدایت دے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437808 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More