"مشتاق احمد کی نہ سمجھنے والی داستان – داڑھی، جماعت اور غزہ کے درمیان الجھی ہوئی سیاست"
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
سیاست میں کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے صرف علم نہیں بلکہ صبر، مزاح اور کبھی کبھی ٹھنڈا پانی بھی چاہیے۔ جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد کی کہانی بھی انہی میں سے ایک ہے — جہاں مذہب، سیاست، شہرت، اور سوشل میڈیا نے مل کر ایک ایسا ڈرامہ تخلیق کیا جس کا اختتام اب تک سمجھ میں نہیں آیا۔مشتاق احمد نے جماعت اسلامی سے کچھ عرصہ قبل استعفیٰ دیا تھا، لیکن جماعت نے اسے ایسے چھپایا جیسے اسکول میں فیل ہونے والا طالب علم اپنی رپورٹ کارڈ چھپاتا ہے۔ وجہ شاید یہ تھی کہ اگر یہ اعلان ہو جاتا تو کارکنوں میں ہلچل مچ جاتی۔ جماعت سمجھتی رہی کہ مشتاق صاحب “عارضی ناراضی” میں ہیں، مگر مشتاق صاحب واقعی کسی “عالمی مشن” پر نکل چکے تھے۔
پھر مشتاق احمد نے غزہ کا رخ کیا، اور وہاں سے سوشل میڈیا پر مسلسل ویڈیوز پوسٹ کرنا شروع کر دیں۔ انداز ایسا کہ لگتا تھا جیسے ڈاکیومنٹری سے زیادہ وی لاگ بن رہا ہے۔ ہر ویڈیو میں ایک نیا زاویہ، نئی اپیل، اور نیا پس منظر۔ کارکن خوش، عوام متاثر، مگر ناقدین کہنے لگے — “یہ مشن ہے یا مارکیٹنگ پلان؟”پھر جماعت کے کارکنوں نے مشتاق صاحب کی “AI Generated” تصویریں شیئر کر دیں، جن میں وہ زخمی دکھائے گئے۔ چہرے پر زخم، آنکھوں میں درد، پس منظر میں دھواں — بس موسیقی کی کمی رہ گئی تھی۔
پھر کہانی نے نیا موڑ لیا۔ مشتاق احمد کی گرفتاری کے بعد ان کی اہلیہ پی ٹی آئی کے اجلاس میں نظر آئیں۔ وہی پی ٹی آئی، جس کے خلاف مشتاق صاحب نے کبھی لفظی توپیں چلائی تھیں۔اب عوام حیران: یہ سیاسی مصالحت ہے یا نئی صف بندی؟ سیاست میں دشمنی وقتی اور دوستی موسمی ہوتی ہے۔ جس دن دھوپ تیز ہو، سایہ بدل جاتاہے۔ اردن سے ان کی تصویریں آئیں تو مشتاق احمد سفید داڑھی کے ساتھ نیک و متین نظر آئے۔ مگرپاکستان آنے کے بعد نئی تصویر آئی — بغیر داڑھی کے۔ پھر بیانیہ آیا کہ “یہ اسرائیلیوں نے کاٹی ہے!”سوال یہ اٹھا کہ کیا اسرائیل کے پاس داڑھیوں کی خصوصی فہرست تھی؟ کیا باقی داڑھی والے محفوظ رہے؟ اگر یہ سب سچ ہے تو واقعی یہ “آپریشن داڑھی” کی عالمی سازش تھی۔
مشتاق صاحب نے رہائی کے بعد پیغام جاری کیاوہ اڈیالہ سے تک غزہ کے حوالے سے پیغام جاری کرگئے۔ کچھ سمجھ نہیں آیا کہ یہ مذہبی عزم کا اظہار تھا یا “سوشل میڈیا فالو اپ”۔غزہ کا دکھ اپنی جگہ درست، مگر لوگوں کو لگنے لگا کہ سیاست، مذہب، اور PR کے درمیان لکیر مٹ چکی ہے۔ پھر نیا تنازع کھڑا ہوا۔ سوشل میڈیا پر کارکنوں نے کہا “یہ ہماری پارٹی ہے، ہم نے نہیں چھوڑی”، مگر جماعت کے ترجمان نے واضح کر دیا کہ “جی، مشتاق احمد اب رکن نہیں رہے۔’ خود مشتاق صاحب نے ایک پروگرام میں کہا کہ جماعت میں “فریڈم آف ایکسپریشن” نہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جو شخص غزہ سے اڈیالہ تک مسلسل اظہارِ رائے کرتا رہا، اسے اپنی جماعت میں بولنے کا حق نہیں ملا۔ شاید جماعتِ اسلامی میں آزادیِ اظہار بھی مشاورت سے مشروط ہے۔
جب مشتاق احمد نے کہا کہ “جس رات استعفیٰ دیا، ویسا ہی رویا جیسے ماں کے انتقال پر رویا تھا”، تو بہت سے کارکنوں نے کہا “سر، ہم نے بھی رویا، مگر AI ویڈیو دیکھ کر۔” سیاست میں جذبات بھی PR حکمتِ عملی بن جاتے ہیں۔ مگر یہ ماننا پڑے گا کہ مشتاق احمد کے پاس اداکاری کا “قدرتی ٹیلنٹ” ہے۔یہ پوری داستان سمجھ سے بالاتر ہے۔ کب استعفیٰ دیا، کب غزہ گئے، کب زخمی ہوئے، کب داڑھی گئی، کب واپس آئے — سب کچھ ایسا لگتا ہے جیسے کسی سیاسی ویب سیریز کی اقساط ہوں جن کی اسکرپٹ خود مشتاق صاحب لکھتے ہیں۔کچھ لوگ انہیں “ضمیر کا قیدی” کہتے ہیں، کچھ “سوشل میڈیا کے مجاہد”۔ لیکن سوال باقی ہے: کیا یہ سب شہرت کے لیے تھا یا سچ مچ ایک مشن؟سیاست میں سچ کا تعین مشکل ہے، خاص طور پر جب ہر کردار کی اپنی “لائیو ویڈیو فیڈ” ہو۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مشتاق احمد کی اگلی قسط کہاں سے نشر ہوگی — غزہ، اڈیالہ، یا شاید “فریڈم آف ایکسپریشن” کے کسی نئے پلیٹ فارم سے۔
#MushtaqAhmad #JamaatIslami #PoliticalDrama #GazaMission #PakistanPolitics #BeardControversy #SatireColumn #FreedomOfExpression #Kikxnow
|