شوال المکرم اور غزوہ اُحد

شوال المکرم اسلامی مہینوں کا دسواں مہینہ ہے۔ اس مہینے میں متعدد اہم اور تاریخی واقعات رونما ہوئے جو مسلمانوں کے لیے ہمیشہ یاد گار اور قابل ذکر ہیں۔ شوال المکرم سے قبل رمضان المبارک اختتام پذیر ہوتا ہے۔یکم شوال روزوں کے اختتام کا انعام قرار پایا یعنی اس دن کو عیدا لفطر قرار دیا گیا یعنی خوشی کا دن، یہی وہ مہینہ ہے کہ جس میں دو غزوات لڑی گئیں ۔ ان غزوات میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے مسلمانوں کے لشکر کی از خود کمان کی وہ ان میں سپہ سالار تھے۔ غزوہ احد 3 ہجری بروز جمہ 15 شوال کو وقوع پذیر ہوئی تھی، فتح مکہ کے بعد شوال المکرم ہی میں غزوہ ٔحنین واقع ہوئی۔ یہاں ہم غزوہ اُحد کی یاد تازہ کریں گے۔

عہد نبوی ﷺ میں 27غزوات و سرایا ہوئے ۔ ان میں سے اولین غزوہ بدر تھی۔غزوہ بدر پہلی جنگ تھی جو مدینہ کے مسلمانوں اور مکہ کے قریش قبیلے جو کافر تھے کے درمیان 17مارچ 624عیسوی مطابق 17رمضان المبارک 2ہجری کوہوئی ۔اس دن کو ’یوم الفرقان‘ کہا گیا کیونکہ یہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان پہلی جنگ تھی اور مسلمانوں کو فتح و غلبہ دے کر واضح کر دیاگیا کہ اسلام حق ہے اورکفر و شرک باطل ہے۔ غزوہ بدر کی فتح نے مسلمانوں کے حوصلوں کو بلند اور کفار کے سامنے سینہ سپر ہونے کا جذبہ بڑھا دیا تھا۔ یہی وجہ رہی کہ جب اسلامی مہینے شوال المکرم میں غزوہ اُحد کا میدان سجنے کا وقت آیا تھا تو نبی ﷺ کی رائے یہ تھی کہ یہ جنگ مدینہ منورہ کے اندر رہتے ہوئے لڑی جائے یعنی مسلمان مدینے میں رہتے ہوئے اپنا دفع کریں۔ اس کے برعکس نوجوان اور پرجوش صاحبۂ اکرم ؓ کی رائے یہ تھی کہ ہم کفار کا مقابلہ کھلے میدان میں اسی طرح کریں جس طرح بدر کے میدان میں مسلمانوں نے کفار کے مقابلے میں کیا تھا اور فتح سے ہمکنار ہوئے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنے نوجوان و پرجوش صحابہ کی رائے کو اہمیت دی اور کفار سے مقابلے کے لیے احد پہاڑ کے دامن میں کفار کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ غزوہ اُحد جبلِ اُحد کے دامن میں3 ہجری بروز جمہ 15 شوال کو وقوع پذیر ہوئی تھی۔ مسلمانوں کا لشکر اُحد کے دامن میں کرانہ وادی میں درہ (شعب) کے نذدیک جمع ہوا۔ جس میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے کفار کے ساتھ جنگ میں از خود حصہ لیا اور اس جنگ میں 70 صحابہ اکرمؓ نے شہادت نوش کیا

اُحد پہاڑ وہ ہے جس سے ہمارے پیارے نبی ﷺ کو بھی خاص انسیت و محبت تھی۔ ارشاد نبوی ہے کہ ’’کوہِ اُحد سے ہم محبت کرتے ہیں اور یہ بھی ہماری محبت کا دم بھر تا ہے‘‘۔ ایک اور حدیث نبوی ہے جس کے راوی حضرت انس ؓہیں آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپ ﷺ کی نظرِ شفقت جبلِ اُحد پر پڑی تو آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے بے ساختہ ’اﷲ اکبر‘ کہا اور فرمایا کہ ’ یہ پہاڑ ہمیں محبوب رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں اور یہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر ہے‘۔ جبل ِ اُحد کے بارے میں ایک اور حدیث جو کتابوں میں ملتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’کوہِ اُحد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے پر ہوگا جب تم اس کے پاس سے گزروتو اس کے درختوں کا میوہ کھا لیا کرواگر کچھ بھی نہ ملے تو وہاں صحرا کی گھاس ہی چبا لیا کرو ‘‘

راقم کو جبل اُحد کودیکھنے ، اس کے دامن میں قائم شہدائے احد پر حاضری دینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ بات ہے اتوار12 جنوری2014ء کی، میں جبلِ اُحد کے دامن میں تھا۔ دائیں جانب اُحد اپنی وجاحت لیے فخریہ انداز سے یہاں آنے والوں کا استقبال کررہا تھا تو بائیں جانب ایک بڑی چاردیواری جس پر جنگلہ لگا ہوا تھا موجود تھی۔ سامنے اونچا وسیع و عریض پہاڑ جبل ِاُحد ہے اور یہ چاردیواری جنگ احد میں شہادت حاصل کرنے والے شہدا کی قبروں پر مشتمل ہے۔ شہدا کی یادگار کے بعد ایک اورکم اونچا پہاڑ بھی نظر آرہا تھا جس پر لوگ کافی تعداد میں موجود نظر آرہے تھے ،یہ چھوٹا سا پہاڑ جسے اب ٹیلہ کہا جاسکتا ہے’’ جبلِ روما‘‘ ہے ۔ اس چھوٹے سے پہاڑ پر اور اس کے ارد گرد جنگ ِاُحد کا معرکہ عمل میں آیا،70 جلیل القدرصحابہ اکرم ؓنے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ان کی قبریں جبلِ احد اور جبلِ روما کے درمیان چار دیواری میں موجود ہیں۔ان شہدا میں سید المرسلین حضرت محمد ﷺ کے چچا سید الشہدا سیدنا حمزہ ؓ بن عبدالمطلب کی قبرمبارک بھی ہے۔میں اپنی قسمت پر نازاں تھا، سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ حقیقت ہے یا کوئی خواب ۔ ہم نے کتابوں میں پڑھا تھا، علماء اکرم سے جنگ اُحد کے معرکے کی تفصیل سنی تھی اﷲ نے یہ سعادت عطا کی کہ جبل اُ حد کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا، جبلِ احد کی جانب رخ کیا اس پر غور سے،نگاہ جما کر، جی بھر کر دیکھا اور سلام ِ عقیدت پیش کیا۔ پہاڑ تو بے جان ہے پھر اسے سلام عقیدت پیش کرنا؟جی ہاں میں نے اس عظیم المرتبت ، مقدس پہاڑ کو سلامِ عقیدت پیش کیا اس لیے کہ جمادات میں دوستی و دشمنی نیک بختی و سعادت مندی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔فرمان خدا وندی ہے (ترجمہ ) ’’اور ہر ایک چیز اﷲ کی حمد بیان کرتی ہے‘‘۔ (سورۃ بنی اسرائیل)۔ جبلِ اُحد کی عظمت کا اندازہ اس روایت سے بھی لگا یا جاسکتا ہے ۔ سیدنا انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ’’ جب اﷲ تعالیٰ نے کوہِ طور پر نور کی تجلی ڈالی تو وہ عظمتِ خدا وندی سے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر گیا۔ جس میں سے تین ٹکڑے مکہ مکرمہ میں اور تین ٹکڑے مدینہ منورہ میں جاپڑے۔ مکہ مکرمہ میں جبلِ حرا ، جبلِ ثبیر اور جبلِ ثور معرض وجود میں آئے اور مدینہ منورہ میں جبلِ اُحد، جبلِ ورقان اور جبلِ رضوی ظہور پذیر ہوئے‘‘۔

شہدائے اُحد کی عظمت اور مقام تاریخ اسلام میں سنہرے حروف سے درج ہے۔ اُحد کے دامن میں ایک چار دیواری جسے خستہ حال ہی کہا جائے گا موجود ہے نیچے کوئی چار فٹ پکی دیوار ہے اس کے اوپر لوہے کی جالیاں لگی ہوئی ہیں۔ یہ چاردیواری ایک مستطیل ہے اندر جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے پتھر نظر آرہے ہیں جن کو دیکھ کر یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ قبریں ہیں اس مستطیل کے درمیان میں ایک قبر ہے جس کے اوپر صرف ایک پتھر ہی لگا ہوا ہے اس کے چاروں طرف کوئی دو فٹ اونچی بوسیدہ دیوار بھی ہے ۔ یہ قبر شہدا ء اُحد کے سردار سید الشہدا سیدنا حمزہ ؓ کی قبرمبارک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس چاردیواری میں صرف اُحد کے شہدا ہی دفن نہیں بلکہ ان کے بعد مختلف ادوار میں لوگوں کی تدفین اس میں ہوتی رہی ہے۔ ’’تاریخ مدینہ منورہ‘‘ کے مصنف محمد عبد المعبود نے مو طا امام مالک کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’شہدائے اُحد کے ۴۶ سال بعد ایک مرتبہ سیلاب کی وجہ سے سید نا عمرو بن الجموع اور سید نا عبداﷲ بن عمر ؓ کی قبریں کھل گئی تھیں۔ یہ دونوں انصار غزوہ اُحد میں شہید ہوئے تھے۔ ان کے وجود اس طرح تروتازہ پائے گئے گویا کہ کل ہی دفن ہوئے تھے۔ دونوں میں سے ایک نے ہاتھ زخم پررکھا ہوا تھا۔ اور اسی حالت میں دفن کردیا گیا ۔ پس جب ان کا ہاتھ اس زخم سے ہٹایا گیا تو چھوڑتے ہی وہ فوراً زخم پر حسب سابق آگیا‘‘۔ آپ نے لکھا ہے کہ آپ ﷺ شہداء احد کی زیارت کو ہر سال تشریف لے جاتے تھے اور ان الفاظ میں سلام پیش کیا کرتے تھے۔’’سلام علیکم بما صبر تم فنعم عقبی العدار‘‘ ۔ہم نے بھی شہدائے احد اور دیگر اہل قبور کے لیے مغفرت کی دعا کی ۔

غزوہ اُحد کا معرکہ جبلِ اُحد کے دامن میں ہوا۔وادیٔ کرانہ میں ایک چھوـٹا سا پہاڑ بھی موجود ہے جسے ’جبلِ روما‘ کہا جاتا ہے۔یہ ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے جس کی اونچائی ۲۰ سے۲۵ فٹ ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس پرسب ہی لوگ بہ آسانی چڑھ جاتے ہیں ۔ اس کی چوٹی پر پہنچ کر شہدائے اُحد کی یاد گار واضح طور پر نظر آتی ہے اس میں موجود تمام قبروں کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ نیز اسی جانب جبل اُحد تا حد نظر انتہائی اونچا صاف طور پر جلوا نماہے۔جنگِ بدر میں شکت کھا کراس وقت کے قریشِ مکہ کی حالت اس مچھلی کی طرح تھی جسے پانی سے نکال کر خشکی میں چھوڑ دیا جائے۔ وہ اپنی شکت کا بدلہ لینے کے لیے ایک ایک دن مشکل سے گزار رہے تھے اور بھر پور انداز سے جنگی تیاروں میں مصروف تھے۔ ہجرت کا تیسرا ہی سال تھا۔ مشرکین مکہ نے تین ہزار کا لشکر ابو سفیان کی سر کردگی میں تیار کیا ۔ عورتوں کی سرپرستی ابو سفیان کی بیوی ’’ہندہ بنتِ عتبہ‘‘ کر رہی تھی ۔ یہ وہی ہندہ ہے جس نے حضرت حمزہؓ بن عبد المطلب کی شہادت کے بعد ان کاجگر نکال کر چبا یا جب نگلا نہ جاسکا تو تھوک دیا تھا۔ مسلمانوں کو جب مشرکین کی اس سورش کا علم ہوا تو نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ نے مشرکین کامقابلہ کرنے کے اقدامات کیے ، صرف ایک ہزار کا لشکر تیار ہوسکا ۔ ا ن میں سے ۳۰۰ افرادکی کمان عبد اﷲ بن اُبی کے ہاتھ میں تھی ۔عبد اﷲ بن اُبی نے عین وقت پر غداری کی اوراپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس مدینہ چلا گیا اب ۱۰۰۰مشرکین کے مقابلے میں صرف ۷۰۰ مسلمان رہ گئے۔اس موقع پر سورۃ نساء کی آیت نازل ہوئی (ترجمہ۔ پس کیا ہے واسطے تمہارے بیچ منافقوں کے دو فرقے ہورہے ہو۔ اور اﷲ نے الٹا کیااب ان کو بسبب اس چیز کے کہ کما یا انہوں نے ۔ کیا ارادہ کرتے ہو تم یہ کہ راہ پر لاؤ جس کو گمراہ کیا! اﷲ نے ؟ اور جس کو گمراہ کرے اﷲ پس ہر گز نہ پائے گا تو واسطے اس کے راہ‘‘) ایک طرف کفار تعداد میں بہت زیادہ اور جنگی ساز و سامان سے آراستہ تھے تو دوسری جانب مسلمانوں میں جذبہ اور ایمان کی قوت تھی۔ معرکہ جبلِ اُحد کے دامن میں ہوا۔ مسلمانوں کی سرپرستی اور رہنمائی نبی اکرم حضرت محمد ﷺ نے کی جب کہ کفار کا لشکر ابو سفیان کی کمان میں تھا۔ اس جنگ میں مشرکین کا پلڑا بھاری رہا ، بظاہر انہوں نے محسوس کیا کہ وہ کامیاب ہوئے اور انہوں نے جنگ ِبدر کا بدلہ لے لیا ۔دوسری جا نب اﷲ کے نبی ﷺ اور ان کے ساتھی تھے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور غزوہ احد کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس غزوہ میں مسلمانوں کا جوش و جذبہ بلند تھا اور وہ مشرکین کو بہادری کے ساتھ پے در پے وار کرکے ختم کر رہے تھے ۔ مشرکین پسپہ ہورہے تھے محسوس ہوا کہ مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگئی ۔ ۵۰ تیر انداز جنہیں آؓنحضرت محمد ﷺ نے مسلمانوں کی پشت پر موجود کوہ عینین میں ایک شگاف یا درہ پر معمور کردیا تھا جہاں سے مشرکین کے حملے کا خطرہ تھا۔ ان تیر اندازوں کی کمان حضرت عبد اﷲ بن جبیرؓ کر رہے تھے ۔ آپ ﷺ نے انہیں تاکید فرمائی تھی کہ کچھ بھی ہو جائے اس درہ کو کسی صورت نہیں چھوڑ نا ۔ پیراویسی تبسم نے اپنے مضمون’ غزوہ امت اور تعلیم امت ‘ میں’ صحیح بخاری کتاب الجہاد‘کے حوالے سے حضور ﷺ کی اس ہدایت کواس طرح نقل کیا ہے ’’اگر تم دیکھو کہ کہ پرندے ہم کو اچک لیے جارہے ہیں تو اپنی جگہ کو نہ چھوڑنا یہاں تک کہ میں تمہارے پاس کسی کو بھیجوں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے دشمن کو شکست دے دی ہے اور مار کر پامال کردیا ہے تب بھی ایسا نہ کرنا‘‘۔ جب ان تیر اندازوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے۔کفارِ مکہ شکست کھاتے اور بھاگتے نظر آئے تو انہوں نے سمجھا کہ فتح ہوگئی ہے چنانچہ ان تیر اندازوں کی اکثریت نے درہ کو چھوڑ دیا اور میدان جنگ میں چلے آئے اور مالِ غنیمت جمع کرنے لگے ۔ در ہ پر صرف ۱۰ تیر انداز رہ گئے تھے۔ مشرکین کی فوج میں شامل خالد بن ولید جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اور عکرمہ بن ابی جہل درہ کی جانب سے آنکلے اور عبداﷲ بن جبیرؓ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرکے مسلمانوں کے لشکر پرچڑھ دوڑے ۔ ان کے اس حملے نے جنگ کا نقشہ ہی پلٹ کر رکھ دیا ۔ مشرکین کی فتح کے آثار نمایاں نظر آنے لگے۔ مسلمانوں کو فتح کے بعد شکت کا سامنا کرنا پڑا۔ حضور ﷺ کی اس ہدایت سے صاف ظاہر ہے کہ آپ ﷺ کسی صورت بھی اس درہ کو خالی نہیں چھوڑ نا چاہتے تھے۔ درہ پر معمور مسلمانوں نے حضور ﷺ کی اس ہدایت پر عمل نہ کیا جس کے نتیجے میں فتح شکست میں بدل گئی۔

غزوہ احد کے حوالے سے دوسرا اہم واقعہ حضرت حمزہؓ کی شہادت کا ہے۔ حضرحمزہؓ کو شہادت کا رتبہ تو ملا لیکن مشرکین نے آپ کے مردہ جسم کی بے حرمتی کی، آپ کے کان ، ناک اور دیگر اعضاء کاٹ دیے۔ ابو سفیان کی بیوی ’’ہندہ ‘‘ نے حضرت حمزہؓ کے شہید ہونے کے بعد ان کے جسم مبارک کو چیرکر ان کا جگر نکالا، اسے چبایا جب نگل نہ سکی تو اسے تھوک دیا۔ ہندہ نے حضرت حمزہ کو شہید کرنے پر اپنے کڑے، بالیاں اور گلے کا ہار انعام میں وحشی کو دیا۔ حضرت حمزہؓ ایک بہادر اور دلیر صحابی تھے آپ نے جنگ بدر میں بے شمار مشرکین کو موت کے گھاٹ اتارا تھا یہ بات مشرکین کے علم میں تھی چنانچہ وہ دیگر کے علاوہ حضرت حمزہ ؓ کے خون کے پیاسے تھے ۔ مشرک جبیر بن مطعم نے ’وحشی‘ نامی ایک غلام کو آزاد کردینے کا لالچ دیگر حضرت حمزہؓ کو شہید کرنے کا ٹاسک دیا تھا۔ اس نے ایسا ہی کیا موقع دیکھ کر حضرت حمزہؓ پر ایسا وار کیا کہ وہ شہید ہوگئے۔ آنحضرتﷺ نے جب حضرت حمزہ ؓ کی شہادت شدہ لاش دیکھی تو بہت غم گین ہوئے ، فرمایا ایسا درد ناک منظر میری نظر سے کبھی نہیں گزرا‘۔ آپﷺ نے شہدا ئے اُحد کے لیے فرمایا کہ ’’میں قیامت کے دن ان کاشفیع ہوں‘‘۔ وحشی بعد میں ایمان لے آیاتھا لیکن حضور ﷺ نے اسے
اپنے سامنے آنے سے منع فرما دیا تھا۔

غزوہ اُحد میں آنحضرت ﷺ کی شہادت کی خبر کا عام ہوجانا اور آپ ﷺ کے دندانِ مبارک کے شہید ہوجانے کا واقع بھی ہے۔ حضرت مُصعب بن عمیرؓ کی شکل و صورت نبی اکرم محمد ﷺ سے ملتی جلتی تھی۔ جس وقت مشرکین مسلمانوں پر حملہ آور ہوکر انہیں شہید کررہے تھے تو حضرت مُصعب ؓ آنحضرت ﷺ کو محفوظ رکھنے اور انہیں بچانے کی کوشش میں شہید ہوگئے۔ مشرکین نے یہ افواہ پھیلا دی کہ (معاذ اﷲ) محمد ﷺ شہید ہوگئے۔ یہ خبر صحابہ اکرم پر بجلی بن کر گری ، ایک سراسیمی پھیل گئی، افراہ تفری کا پھیل جانا ایک قدرتی عمل تھا۔ مسلمانوں میں جو تھوڑا بہت دم خم تھا وہ بھی اس خبر کے پھیل جانے سے جاتا رہا۔ مشرکین کی عورتوں نے اس خبر پر خوشی کے ترانے گائے۔ لیکن یہ خبر سچ نہیں تھی۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت ابو دجانہؓ اور دیگر صحابہ اکرم نے آپ ﷺ کو گھیرا ہوا تھا دشمنوں نے تیروں کی بارش کی، پتھر پھینکے، صحابہ نے آپ ﷺ کو محفوظ رکھا اس کے باوجود آپ ﷺ کی پیشانی اور بازو زخمی ہوگئے اور آپ ﷺ کے دو دانت مبارک بھی شہید ہوگئے۔ اس وقت بھی اﷲ کے نبی ؑ نے مشرکین کو بد دعا نہیں دی۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’اے اﷲ! میری قوم کو ہدایت فرما کیونکہ وہ مجھے نہیں جانتی‘۔ اس جنگ میں ۷۰ مسلمان شہید ہوئے۔ اس روز تکلیف اور زخموں کے باعث نبی اکرم ﷺ نے ظہر کی نماز بیٹھ کر ادا کی اور آپ ﷺ کے ساتھ مقدیوں نے بھی بیٹھ کر ہی نماز ادا کی۔

غزوہ اُحد میں نبی ﷺ کے دندان مبارک کے شہید ہونے کی بات ہو تو یمن کے محلے قرن کے باسی حضرت خواجہ اویس قرنی کا خیال آنا لازمی ہے۔ حضرت اویس قرنی احسان و مہر بانی اور نبیؑ سے محبت کے اعتبار سے محترم تابعین میں سے ہیں۔ آپ یمن کے شہر قرن کے رہنے والے تھے۔ آپ اتنے درویش منش اور ایسے فقیر تھے کہ لوگ آپ کو دیوانہ تصور کیا کرتے تھے۔ سید علی ہجویری نے اپنی تصنیف ’کشف المحجوب‘ میں اویس قرنی کو اہل تصوف کا عظیم مشائخ قرار دیا ہے۔ قر نی سچے عاشقِ رسول ؑ تھے عالم جسمانی میں حضرت محمد ﷺ کو دیکھنے کا شرف حاصل نہیں ہوسکا لیکن روحانی طور پر آپ اپنے نبی ؑ کے خیال میں گم رہا کرتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اویس قرنی اپنی والدہ محترمہ کے واحد کفیل تھے اور اپنی والدہ کی خدمت کے علاوہ تنگ دستی نیزانہیں تنہا نہ چھوڑ نے کے باعث قرن سے باہر نہیں جاسکتے تھے یہی وجہ رہی کہ آپ نبی اکرم ﷺ کی ظاہری زندگی میں زیارت نہ کرسکے۔ ان کا ذریعہ معاش شتر بانی یعنی اونٹ چرانہ اور زمین پر گری ہوئی کھجور کی گٹھلیاں اکٹھی کرکے انہیں بازار میں بیج کر اپنا گزر بسر کرنا تھا۔اویس قرنی کو جب غزوہ اُحد کے حالات خصوصاً حضرت محمد ﷺ کے دانت کی شہادت کا علم ہوا تو حضور ؑ کو پہنچنے والی اذیت و تکلیف کے خیال سے آپ تڑپ اٹھے اور زارو قطارروتے تھے آنسوں تھے کہ تھم نے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ جب آپ کو احساس ہوا کہ دانت ٹوٹنے سے حضورﷺ کو اس قدر شدید تکلیف ہوئی ہوگی تو آپ نے ایک پتھر اپنے دانت پر مار کر اپنا دانت توڑ ڈالا ، پھر آپ کو خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ دانت نہیں بلکہ اس کے برابر والا دانت حضور ؑ کا ٹوٹا ہوتو آپ نے دوسرا دانت توڑ ڈالا، پھر سوچا کہ ہوسکتا ہے کہ حضورؑ کا نیچے والا دانت ٹوٹا ہو تو آپ نے اپنا نیچے والا دانت توڑ ڈالا ۔ اس طرح آپ نے یکے بعد دیگر تمام دانت توڑ ڈالے کہ کسی طرح اپنے نبی حضرت محمد ﷺ کا کامل اتباع حاصل ہوسکے۔اﷲ اﷲ اپنے نبیؑ سے محبت کی لازوال مثال ہے ۔اُحد کے مقام سے مَیں نے حضرت اویس قرنی کو سلام عقیدت پیش کیا ۔

غزوہ اُحد کے شہداء کو غسل دیے بغیر نیز ایک قبر میں کئی کئی شہدا کو دفن کیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھی گئی۔ انہیں باقاعدہ کفن بھی نہیں پہنا یا گیا اس کی وجہ اس وقت کفن کے کپڑوں کا میسر نہ ہونا تھا۔ یہی نہیں بلکہ کفن کے لیے جو چادریں میسر تھیں اور لمبائی میں کم یا چھوٹی تھیں جس کے باعث حضور ﷺ نے ہدایت کی کہ منہ ڈھانپ دیا جائے اور پیروں کوحرمل ، گھاس یا پتوں سے ڈھانپ دیاجائے۔البتہ سید الشہدا حضرت حمزہؓ کو ایک ہی چادر میں دفن کیا گیا۔صحابی حضر ت حنظلہ بن ابی عامر انصاری کو غسل الملائکہ کہا گیایعنی جنہیں فرشتوں نے غسل دیا ۔ اس واقع کا ذکر پیر اویسی تبسم نے اپنے مضمون ’غزوہ اُحد اورتعلیم امت‘ میں ’سیرت ابن ہشام‘ کے حوالے سے اس طرح کیا ہے کہ ’ حضر ت حنظلہ بن ابی عامر انصاری نے مشرکین کے سپہ سالار ابو سفیان پر حملہ کیا اور قریب تھا کہ ابوسفیان کو قتل کردیتے ۔ مگر شداد بن الا سود نے ان کے وار کو روک لیا اور اپنی تلوار سے حضر ت حنظلہ بن ابی عامر انصاری کو شہید کردیا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ فرشتے حنظلہ کو غسل دے رہے ہیں۔ ان کی بیوی سے ان کا حال دریافت کرو۔ بیوی نے کہا کہ شبِ اُحد ان کی شادی ہوئی تھی۔صبح کو اٹھے غسل کی حاجت تھی ۔ غسل کیلے آدھا سر دھویا تھا کہ دعوت جنگ کی آواز کان میں پڑی ۔ فوراًاسی حالت میں وہ شریک جنگ ہوگئے۔ یہ سن کر حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اسی سبب سے اسے فرشتے غسل دے رہے ہیں۔چنانچہ حضرت حنظلہ غسیل الملائکہ کہلاتے ہیں‘‘۔روایت ہے کہ اس واقع کے کئی برس بعد آنحضرت محمد ﷺ شہدائے احد کی قبروں پر آئے اور شہداء پر نماز جنازہ پڑھی۔ اُ حد کے میدان میں مسلمان خواتین بھی شریک جنگ تھیں۔ ان میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ، ام سلیمہ ؓ، ام سیطؓ، ام ایمنؓ، حمنہ بنت حجشؓ، ام عمارہؓ، نسیبہ بنت کعب انصاریؓ، حضرت صفیہؓ (حضرت حمزہؓ کی بہن) اور دیگر شامل تھیں۔ یہ خواتین مشکیں بھر بھر کر لاتیں اور مسلمانوں کوپانی پلاتی تھیں۔بعض خواتین زخمیوں کے زخموں کو دھوتیں، انہیں صاف کرتی اور ان کی مرہم پٹی کیا کرتیں۔ سلام ان تمام مومن خواتین پر جنہوں نے اُحد کی جنگ میں مردوں کے شانا بشانہ حصہ لیا۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437832 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More