حکومت محکمہ ریلوے کی تباہی کا نوٹس لے

پاکستان ریلوے میں فنڈ کی کمی ! 102ریلوے انجن ناکارہ اور302 اپنی عمر پوری کرچکے ہیں
نااہل وزیر ریلوے کی وجہ سے آج پاکستان کا محکمہ ریلوے تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے

پاکستان میں پہلی مسافر ٹرین کراچی پورٹ سے کوٹری تک چلانے کا منصوبہ 1847 میں اُس وقت کے کمشنر آف سندھ سرہنری بیڈوارڈ فریریSir Henry Bdward Frere نے پیش کیا تھا جس پر سروے کا کام 1858کو شروع کیا گیا اور بالآخر ایک انتہائی مختصر عرصہ میں یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا اور یوں پاکستان میں31مئی1861 میں کراچی پورٹ سے کوٹری تک پہلی آزمائشی طور پر مسافر ٹرین سروس کا افتتاح کردیا گیا جس کا کُل فاصلہ 105میل اور 169 کلومیٹر تک کا تھا اور پھر رفتہ رفتہ اِس کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور ایک اندازے کے مطابق 1947میں جب پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو اُس وقت ریلوے لائن کا جال پورے پاکستان میں پھیل چکا تھا یعنی ریلوے کے پاس اُس وقت 1,947روٹس مائلز جو 3,133کلومیٹر بنتا تھا اتنے بڑے حصے میں ٹرینوں کی آمدورفت جاری تھی۔ اور آج یہ محکمہ پاکستان ریلوے جو قیام پاکستان سے قبل قائم ہوا تھا اَب یہ ادارہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے یکدم صفر ہوکر رہ گیا ہے۔

آہ! اَب اِسے کیا کہا جائے کہ21ویں صدی کے جدید سائنسی اور ٹیکنالوجی کے دور میں دنیا کے ایک ایٹمی ملک پاکستان آج جس کی کُل آبادی لگ بھگ ساڑھے سولہ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور اِس ملک کی ایک حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا کے اِس ایٹمی ملک میں اِس کے عوام کو جہاں بہت سی اور ضروری سہولتیں میسر نہیں ہیں تو وہیں دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اِس ملک کے عوام تیز رفتار سفری سہولت سے بھی محروم ہیں اور اِس ملک کا محکمہ ریلوے جو1847 میں قائم ہوا تھا یہ ادارہ اپنے مسافروں کو آج تک بہتر سفری سہولت دینے کے قابل نہیں بن سکا ہے اور آج یہ ادارہ اپنے مسافروں کو رہی سہی سفری سہولت مہیا کرنے سے بھی عاری ہوگیا ہے جس کا جواز اِس ادارے نے پیش کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ محکمہ ریلوے کے فنڈ میں کمی ہونے کی وجہ سے یہ اپنے مسافروں کو بہتر سفری سہولت مہیا نہیں کر پا رہا ہے جس کے باعث سالانہ اِس کے مسافروں کی تعداد میں کمی کا گراف بڑھتا جا رہا ہے اور اِس ادارے کو اربوں کا خسارہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے یہ ادارہ تباہی اور بربادی کے اندھے اور سیاہ ترین کنوئیں میں گرنے کو ہے اور ایک خبر کے مطابق دنیا کے اِس ایٹمی ملک پاکستان کے محکمہ ریلوے کی بیورو کریسی کی نااہلی اور اِس کی سوفیصد ناقص منصوبہ بندی کے باعث لوکو شیڈز اور ورکشاپس انجنوں کے قبرستان میں تبدیل ہوچکے ہیں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان ریلوے کے قبرستان نما ورکشاپوں میں 102ریلوے انجن صرف اسپئیر پارٹس نہ ہونے کی وجہ سے ایک سال یا اِس سے بھی زیادہ عرصے سے ریلوے کے مختلف شیڈز میں ناکارہ کھڑے کھڑے ختم ہو رہے ہیں اور 302انجن اپنی عمر پوری کے اَب قبروں میں پاؤں لٹکا چکے ہیں مگر وزارتِ ریلوے اور پاکستان کا محکمہ ریلوے نئے انجن لانے کے موڈ میں قطعاً نہیں ہے جبکہ دوسری جانب ریلوے ہیڈکوارٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق انجنوں کی قلت کی وجہ سے80 مال گاڑیاں ملک کے مختلف چھوٹے بڑے اسٹیشنوں پر ایک ماہ سے کھڑی ہیں اور اِس کے ساتھ ہی اِس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ریلوے نظام میں اِس وقت مجموعی طور پر صرف520انجن موجود ہیں اِن میں سے صرف 256انجن زیر استعمال ہیں۔ اور قابلِ استعمال انجنوں میں سے صرف 150انجن مسافر ٹرینوں کے ساتھ، 50انجن فریٹ (مال) گاڑیوں اور بقایا 56انجن بیلٹ (پتھر)، ریلوے میٹریل کی نقل وحمل اور شٹنگ کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں۔ اور اِس کے ساتھ ہی اِس رپورٹ کے مطابق اِس وقت ریلوے شیڈ کراچی میں 28انجن ایسے ہیں جو پاور اسمبلی، ٹربو کمپریسر، الیکٹریکل پینل، ٹریکشن سوئرز اور دیگر چھوٹے موٹے اسپئیر پارٹس نہ ملنے کی وجہ سے موجود ہیں، لاہور شیڈ میں 21انجن، کنڈیاں شیڈ میں18 انجن، کوئٹہ شیڈ میں 13انجن، راولپنڈی شیڈ میں12انجن، اور اِسی طرح روہڑی شیڈ میں سب سے کم صرف 10انجن انتہائی ناکارہ حالت میں کھڑے ہیں جبکہ اِس سارے منظر اور پس منظر کے حوالے سے جب ریلوے حکام سے رابطہ کیا گیا تو بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ ریلوے حکام نے بڑی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِس سارے مسائل کی وجہ صاف صاف یہ بتائی کہ اسپئیر پارٹس کی خریداری کے لئے فنڈز موجود نہیں ہے یہ کہہ کر ریلوے حکام نے اپنی جان چھڑانی چاہی مگر کیسے....؟ عوام اِن کی جان چھوڑسکتی ہے....؟جب کہ پاکستان ریلوے تو وہ ادارہ ہے جس کو اگر صحیح چیک اینڈ بیلنس کے ساتھ چلایا جاتا تو کبھی اِس ادارے میں خسارہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ شائد اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ محکمہ ریلوے جب سے وفاقی وزرا کے انڈر کنٹرول ہوا ہے تب سے لیکر موجودہ وزیر ریلولے تک سب کے سب نااہل لوٹ مار کرنے والے وزرا اِسے ملے تب ہی تو یہ سونے کا انڈہ دینے والی مرغی جیسا ادارہ بھی خود کو اپنی تباہی کے دہانے تک پہنچانے سے نہ بچاسکا۔ اور اگر اَب بھی حکومت نے اِس ادارے کی تباہی اور بربادی کا سنجیدگی سے کوئی نوٹس نہ لیا اور موجودہ نااہل وفاقی وزیر ریلوے کو فی الفور طور پر تبدیل نہ کیا تو عین ممکن ہے کہ اِس حکومت کے رہنے تک محکمہ ریلوے پورا کا پورا تباہ نہ ہوجائے اور پاکستان میں کوئی اِس محکمے کا نام بھی لینا، سُننا اور پڑھنا بھی گوارہ نہ کرے۔ کیونکہ ایک اندازے کے مطابق اتنے بڑی تعداد میں انجنوں کی خرابی کے باعث فریٹ آپریشن متاثر ہونے کے ذمہ دار بھی وفاقی وزیر ریلوے ہیں جن کی عدم دلچسپی کی وجہ سے فریٹ آپریشن متاثر ہونے سے اِس مد میں2009-2010 کے دوران ریلوے کو آمدن کا ہدف بھی حاصل نہ ہوسکا ہے جبکہ مذکورہ مالی سال میں فریٹ کے شعبہ میں آمدنی کا ہدف 10ارب 50کروڑ مقرر کیا گیا تھا اور اِس صُورتِ حال میں اَب عوامی سطح پر خیال کیا جارہا ہے کہ ریلوے اپنی اِس ناقص کارکردگی کے باوجود بھی اپنے کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ کر کے بھی اپنا یہ ہدف پورا نہیں کرسکا ہے۔ اِس ساری صورت حال میں ایسا لگتا ہے کہ محکمہ ریلوے کو دانستہ طور پر ایک ناکام ادارہ بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ تاکہ محکمہ ریلوے اپنے خسارے کے باعث بند ہوجائے اور اِس کی جگہ مال برداری اور مسافروں کی آمدورفت کے لئے ملک بھر میں چلنی والی پرائیوٹ بس سروس کے شعبے کو فروغ دیا جائے تاکہ اِس شعبے سے وابستہ افراد اور اداروں کی ملک بھر میں اجارہ داری قائم ہوسکے۔

بہرحال!ریلوے حکام نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی تحریر کیا کہ فریٹ کے شعبے میں 2009-2010کے دوران ریلوے کو آمدن کا ہدف صرف  6ارب98کروڑ روپے رہی ہے جس کی وجہ سے ریلوے کا فنڈز کم ہوگیا ہے اور یوں اِس کو اربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

بہرکیف! ہم اِسے اُمتِ مسلمہ کے پہلے اور دنیا کے آٹھویں غریب ترین ایٹمی ملک پاکستان کے حکمرانوں کا ایک قابلِ فخر کارنامہ ہی کہیں گے کہ اُنہوں نے گزشتہ63/62سالوں میں بھارت جیسے شاطر اور مکاّر ملک کے پڑوسی ہونے کے ناطے بتدریج اپنے ملک کے ساڑھے سولہ کروڑ عوام پر مہنگائی کا عذاب نازل کر کے اِسے ایک ایٹمی ملک تو بنا ڈالا ہے جو کہ بیشک ایک اچھا اور قابِل تعریف عمل ہے اور جس پر یہ اَب اِتراتے اور شیخیاں بگھارتے بھی پھرتے ہیں کہ اِن کا ملک پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے بلکہ اِس پر اگر میں یہ کہوں تو کوئی بُرا بھی نہ ہوگا کہ یہ خود کو ایک سُپرطاقت اور ایٹمی ملک کا حکمران بھی کہلانا بڑے فخر سے پسند کرتے ہیں مگر افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ دوسری طرف ہمارے اِن ہی حکمرانوں نے اپنے ملک کے عوام کو اِن کے بنیادی حقوق اور اِنہیں اُن کی تمام بنیادی سہولتیں سے بھی محروم رکھا جو دنیا کے دوسرے ایٹمی ممالک کی عوام کو سہولتیں حاصل ہیں۔ اُنہوں نے ایسا کیوں کیا....؟اور اِس کی کیا وجہ ہے....؟یہ سوال جو آج ہر پاکستانی کی زبان پر ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ہر دور میں وطنِ عزیز پاکستان کو دنیا کا ایک عظیم ایٹمی ملک بنانے کے لئے تو اپنی جدوجہد جاری رکھی مگر اپنی عوام کے لئے یہ حکمران کچھ نہ کرسکے ....؟تو اَس کا صاف اور انتہائی سیدھا سے جواب یہ ہے ....کیونکہ اِن سب کی توجہ بھارت کو خطے میں اِس کی بڑھتی ہوئی ہٹ دھرمی پر نکیل دینی تھی جو ہمارے حکمرانوں نے خود کو ایک ایٹمی ملک بناکر بھارت کی بدمعاشی خطے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردی تو اُدھر ہی پاکستان کو ایک ایٹمی ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہونے سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بھی برقرار ہوگیا ہے اور اَب اِس سے یہ تو ہوا کہ بھارت پاکستان کے خلاف اپنے کسی بھی قسم کے جارحانہ عزائم رکھنے سے قبل یہ ضرور سوچتا ہے کہ اِس کی ذرا سی غلطی اور غلط نشانہ بھارت کو بھی صفحہ ہستی سے مٹانے کا سبب بن سکتا ہے۔ یوں اَب طاقت کے نشے میں چُور بھارت پاکستان ہر سیاسی اور غیر سیاسی معاملے کا حل مذاکرات سے نکالنے کا خواہشمند ہے۔

مگر دوسری طرف ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے اِس جذبہ جنون کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ آج دنیا کے آٹھویں ایٹمی ملک پاکستان کے ساڑھے سولہ کروڑ عوام خوشحالی کو ترس رہے ہیں اور اِن کے ماتھے اور اِن کے چہروں پر مایوسی، پریشانی اور تنگدستی کے آثار نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں اور آج یقیناً اِن کی آنکھیں اُس راہ اور اُس دن کی شدت سے منتظر ہیں جب اِنہیں اپنی خوشحالی کی کوئی راہ کہیں سے سُجھائی دے گی اور اُن کے کان کوئی ایسی نوید مُسرت سُن پائیں گے کہ حکمرانوں کو عوامی دُکھ اور تکالیف کا بھی حقیقی معنوں میں احساس ہوگیا ہے اور اَب اِن کے ووٹوں کی بھیک پر مسندِ حکمرانی پر قدم رنجا فرمانے والے حکمران عوام کو ہر طرح کے ریلیف پہنچانے کے لئے اپنی سرتوڑ اور جان چھوڑ کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں تو اُس روز ہی عوام کو یہ ایٹم بم بھی بھلا لگے گا اور یہ حکمران بھی اِنہیں اور اچھے لگنے لگیں گے .....ورنہ تو یاد رکھو حکمرانوں!اُس وقت تک تمہارا یہ ایٹم بم اور ایٹمی میزائلز وغیرہ سب کے سب بیکار ہیں۔ جب تک تم عوام کو اِن کے بنیادی حقوق اور وہ تمام سہولتیں اِن کی دہلیزوں تک نہیں پہنچا دیتے جو دنیا کے دیگر ایٹمی ممالک کے عوام کو حاصل ہیں۔

اِس ساری صورتِ حال میں صرف ایک یہی بات سامنے آئی ہے کہ ہمارے ہر دور میں آنے والے حکمرانوں نے پاکستان ریلوے کو اپنی کمائی اور لوٹ مار کا ہمیشہ ایک اچھا ذریعہ بنائے رکھا اور شائد یہی وجہ رہی کہ اُنہوں نے خود یہ نہیں چاہا کہ محکمہ ریلوے کی حالتِ زار درست ہو جائے اور اِسے ایک منافع بخش ادارہ بنا دیا جائے اِسی لئے یہ کوئی ایسی پالیسی اور منصوبہ بندی بھی نہیں کرسکے کہ محکمہ ریلوے اپنی آمدن خود بڑھائے اور اِس سے اپنے اخراجات بھی پورے کرے۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر اُنہوں نے ایسا کر لیا ہوتا تو پھر محکمہ ریلوے کی حالت نہیں سُدھر جاتی ....اور جب پاکستان ریلوے کی حالت سُدھر جاتی تو پھر اِن کی ملک بھر میں چلنے والی بسوں میں کون سفر کرتا.....؟
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972038 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.