وادی جنت نظیر ارض کشمیر میں فوج کے ذریعہ
نہتے مظاہرین پر بندوق کے دہانے کھولنے کا آج چودہواں دن ہے۔ابھی بھی صورت
حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آ ئی ہے اور وادی میں مظاہرین پر عرصہ حیات
تنگ کردینے کیلئے فوج کی اضافی ٹکڑیا ں تعینات کردی گئی ہیں۔دریں اثنا
گزشتہ 19 جولا ئی کو پار لیمنٹ کے مانسون اجلاس میں بھی حزب اختلا ف خصوصاً
کانگریس پارٹی اوربایاں محاذ نے اپنے ہی شہریوں پر اس قسم کی درندگی کا
مظاہرہ کئے جانے کیخلاف احتجاج درج کرا یااور ریاست میں قیام امن کیلئے
فوری طور پرآرمی کو اپنی بندوقوں پر قابو رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے اس واقعہ
کی آئینی جانچ کرانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔اس تنازع پر وزیر داخلہ راج ناتھ
سنگھ نے جو صفائی پیش کی ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگتا ہے کہ بی جے پی اورپی ڈی
پی کی منصوبہ بندی کے نتیجے میں عام لوگوں کے ساتھ یہ بہیمانہ رویہ روا
رکھا جارہا ہے۔راجناتھ سنگھ کا بیان بتارہا ہے کہ وہ صرف فوجی مظالم کی
پردہ پوشی کررہے ہیں۔ورنہ عام لوگوں کی عذاب بن چکی زندگی سے انہیں کوئی
سرو کار نہیں ہے۔اطلاعات کے مطابق منگل کے روزمظاہرین پر سیکورٹی فورسز کی
جانب سے کی گئی فائرنگ میں تین افراد ہلاک ہو گئے ۔اس کے ساتھ ہی وادی میں
مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 42 سے متجاوز ہوگئی ہے۔قابل ذکر ہے کہ
تقریبا12روز حزب المجاہدین کے مبینہ کمانڈر برہان وانی کی سکیورٹی اہلکاروں
کے ساتھ تصادم میں ہلاکت کے بعد وادی میں احتجاج شروع ہو گئے تھے۔حالاں کہ
اس عوامی احتجاج کو غیر عسکری طریقے سے بھی حل کیا جاسکتا تھا۔اگر فوج چاہے
تو طاقت کا استعما ل کئے بغیر بھی حالات پر قابو پاسکتی ہے۔اس کا ثبوت چند
ماہ پہلے ہریانہ میں جاٹوں کی تحریک کے دوران طاقت کا استعمال کئے بغیر
حالات کو قابو میں کر کے پیش کیا جاچکا ہے۔بی بی سی ہندی کی رپورٹ کے مطابق
فوج نے اننت ناگ ضلع کے قاضی گنڈ میں پیر کو ہوئی فائرنگ کی تحقیقات کا حکم
دے دیا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جانچ سے کچھ حاصل ہوگا ؟جن کے
عزیز و اقرب فو ج کی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں ان کی قیمتی زندگی واپس مل
جائے گی اس کا جواب ہماری آرمی اورمرکزی وریاستی حکومت ہی دے سکتی ہے۔فوج
کے ترجمان کے بیانات سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس معاملے میں غیر
جانبداری سے کام نہیں لیاجارہا ہے،ان کا کہنا ہیکہ لوگوں کی موت کا افسوس
ہے لیکن سیکورٹی فورسز مجبور ہو گئے تھے،مگرغیر بھاجپائی میڈیا کی جو
اطلاعات ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل حقائق کو چھپانے کی ہر ممکن کوشش کی
جارہی ہے۔ ہجوم نے پتھراؤ شروع کر دیا اور مظاہرین نے سکیورٹی فورسز کے
ہتھیار چھیننے کی کوشش کی۔حالاں کہ ابتک ایسی کوئی فوٹیج دنیا کے سامنے
نہیں آ سکی ہے جس سے معلوم ہوتا ہو کہ واقعی کشمیری مظاہرین فوجی اہلکاروں
تک پہنچ گئے تھے اوران کے اسلحے چھیننے کی کوشش کررہے تھے۔اگر فوج کے
ترجمان کے دعویٰ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سمجھ سے بالا تر ہوجاتی ہے کہ
جدید اسلحوں سے لیس آرمی کی فائرنگ کے دوران مظاہرین اپنی جان بچانے کیلئے
پیچھے بھاگے ہوں گے ،یااپنی جان جوکھم میں ڈال کر گولیوں کی بوچھاروں کے
درمیان آگے بڑھنے کی جرأت کی ہوگی۔ مظا ہر ین اور فوج کے درمیان یقینی طور
پر فاصلہ رہا ہوگا۔ ایسے میں اسلحے چھیننے کا دعویٰ ہضم ہونے کے لائق نہیں
لگتا۔بی بی سی کی اسی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ مسلسل تشدد اورمظاہروں کے سبب
وادی میں کرفیو لگا ہوا ہے اور موبائل اور انٹرنیٹ خدمات پر پابندی لگادی
گئی ہے،جبکہ مقامی اخبارات اورنیوز چینلوں پر بھی مکمل پابندی عائد ہے۔اس
کا واضح مطلب یہی نکلتا ہے یہ فوجی کارروائی منظم ہے اوردنیا کی آنکھوں سے
فوجی جارحیت کو اوجھل رکھنے کیلئے میڈیا کی آزادی پرایمرجنسی نافذ کردی گئی
ہے۔
منگل کو کشمیر میں جاری تشدد کو لے کر پارلیمنٹ میں بھی بحث ہوئی، جس میں
امن قائم کرنے پر زور دیا گیا۔مگر حکومت ہند کی کارکردگی اس جانب اشارہ
کررہی ہے کہ کشمیر کے تعلق سے اس کی نیتوں میں کھوٹ ہے۔حد تو یہ ہے کہ اب
سکورٹی اہلکاروں کی جانب سے پیلیٹ گن سے فائرنگ کی جا رہی ہے،جس کے چھرروں
سے درجنوں شہری زخمی ہوئے ہیں۔ اب تک 100 سے زیادہ لوگوں کی آنکھیں روشنی
کھوچکی ہیں یا بری طرح زخمی ہوئی ہیں۔اس سے دوروز قبل ہی این ٹی وی نے
انڈین آرمی کی جانب سے گذشتہ روز نہتے کشمیریوں پر کی جانے والی بربریت اور
درندگی کا پول کھول دیاتھا۔میڈیا میں آنے والی تفصیلات کے مطابق جس جگہ
سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے کشمیری نوجوان کوہلاک کیا گیا ہے، وہاں ایک بھی
پتھر موجود نہیں ہے ،المیہ یہ ہے کہ ملک کے تمام طبقات کا نمائندہ کہنے
والی مرکزی حکومت نے فوجی مظالم پر پردہ ڈالنے کیلئے دعویٰ کیا ہے کہ فوج
کواس وقت گولی چلانی پڑی تھی جب مشتعل ہجوم نے فوجی جوانوں پرسنگ باری شروع
کردی تھی۔وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے فوجی بربریت پردہ ڈالنے کیلئے میڈیا
کے سامنے یہ بھی کہا ہے کہ مظاہرین کا ہجوم آرمی کیمپ کی جانب بڑھ
رہاتھا۔حالاں کہ جائے واقعہ کی جغرافیائی صورت حال خود ہی چیخ چیخ کر وزیر
داخلہ کے دعوے کی تردید کرتی ہے۔یہاں جس مقام آرمی کا کیمپ واقع ہے وہ
انتہائی اونچی پہاڑ ی پر ہے جہاں تک سنگ باری ممکن ہی نہیں ہے۔اب سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ جب آرمی کا کیمپ انتہائی بلندی پر ہے تونیچے کھڑے ہو کر
آرمی کے کیمپوں پر سنگ باری کیسے ہو سکتی ہے؟اس کا سچا اورغیر جانبدارانہ
جواب انصاف پر مبنی غیر جانبدار تحقیقی ٹیم کی جانچ سے ہی بر آ مد ہوسکتا
ہے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق آرمی نے گذشتہ روز بلاجواز فائرنگ کرتے
ہوئے جموں و کشمیر کے کپواڑہ ضلع میں گیارہویں جماعت کے ایک کشمیری طالب
علم عارف احمد کو ہلاک کر دیا تھا ، فوج کی اس درندگی کیخلاف کشمیریوں نے
بھر پور احتجاج کیا، جس پر کپواڑہ میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ فوج کی جانب
سے کہا گیا تھا کہ سکیورٹی فورسز کو اس وقت فائرنگ کیلئے مجبور ہونا پڑاتھا
جب ایک مشتعل ہجوم نے کیمپ میں گھسنے کی کوشش اور کیمپوں پر پتھروں سے حملہ
کر دیا تھا۔ این ڈی ٹی وی کے مطابق کپواڑہ کا دورہ کرنے والی پولیس اور
انتظامی افسران کو یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ آخر اتنی اونچائی پر
واقع بیرکوں میں پتھر کیسے پہنچ سکتے ہیں؟جبکہ یہاں سنگ باری کی کوئی
علامات بھی موجود نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی چٹان یہاں نظر آ رہی ہے جس کی
اوٹ میں ہو کر بھارتی فوج کے کیمپوں پر پتھر پھینکے گئے ہوں۔ ٹی وی کے
مطابق فوج کی فائرنگ میں ہلاک ہونے والے طالب علم عارف احمد کے والد غلام
محی الدین ڈارکا کہنا تھا کہ فوج نے بلاجواز فائرنگ کی ،لوگ سڑک پر پر امن
انداز میں مظاہرہ کر رہے تھے ، اگر ہم آرمی کے کیمپ پر پتھر مار رہے تھے تو
پھر وہ پتھر یا اینٹیں کہاں ہیں؟ ہمیں بتایا جائے کہ کیا پتھر لگنے سے کوئی
فوجی زخمی بھی ہوا؟ ٹی وی رپورٹ کے مطابق کپواڑہ میں احتجاج کا سلسلہ اس
وقت شروع ہوا تھا جب انڈین آرمی کے ایک جوان نے مبینہ طور پر ایک طالبہ سے
چھیڑ چھاڑ کی تھی ،کشمیریوں کے احتجاج کے بعد فوج نے مسلمان کشمیری لڑکی کا
ایک ویڈیوپیغام جاری کیا جس میں لڑکی کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا کہ اس کے
ساتھ ایک نامعلوم لڑکے نے بدسلوکی کی، نہ کہ کسی فوجی جوان نے۔لیکن چند دن
بعد ہی اس لڑکی کی والدہ نے’’ این ڈی ٹی وی‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ
بیان دینے کیلئے فوج کی جانب سے لڑکی پر دباؤ ڈالا گیا تھا۔یہیں یہ شک گہرا
ہوجاتا ہے کہ ہماری فوج کی شفافیت پر عصبیت کی دبیز تہیں جمی ہوئی ہیں۔ایسے
میں یہ توقع بھی نہیں کی جا سکتی کہ عوام کے درمیان انڈین آرمی کیخلاف پائی
جانے والی بدگمانی دور ہوسکے گی۔یہ بات کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ
تشدد کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے اور طاقت کے استعمال کی بجائے محبت کی
تلوارسے ہی عوام کے دلوں کو مسخر کیا جاسکتا ہے۔مگریہ بات اسی وقت سمجھ میں
آئے گی،جب نیتیں درست اورملک سے مخلصانہ محبت ہو۔
|