چور اور چوہے!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
پارلیمنٹ لاجز میں ہمارے منتخب نمائندے
قیام پذیر ہیں، وہ ملک کے کونے کونے سے منتخب ہو کر یہاں پہنچے ہیں، قانون
ساز ادارے کے ممبر ہونے کے ناطے انہیں بہت سے استحقاق بھی حاصل ہیں، ان کی
اہمیت بھی ہے اور پروٹوکول وغیرہ بھی۔ لاجز سے تازہ خبر آئی ہے کہ وہاں
مقیم پی پی کی مرکزی رہنما سینیٹر سسّی پلیجو اپنے آبائی علاقے سے واپس
اپنے فلیٹ میں آئیں تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے بیڈ روم کی کھڑکی گری پڑی
تھی ، بیڈ پر فائلیں (ایک اطلاع کے مطابق کتابیں بھی) بکھری پڑی تھیں،
انہوں نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی، اور بتایا کہ انہیں کسی بھی نقصان
کا اندیشہ اس لئے نہیں ہے کہ وہ قیمتی اشیا یا نقدی وغیرہ فلیٹ میں نہیں
رکھتیں۔ دوسری طرف قومی اسمبلی کے قائم مقام سپیکر جاوید عباسی نے ان کے
فلیٹ کا دورہ کیا اور لاجز کی کھڑکیوں پر آہنی گِرل لگانے اور کیمروں کو
فعال کرنے کے لئے ہدایات جاری کیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ سب کچھ تیز آندھی
کی وجہ سے ہوا، جس میں کھڑکی بار بار کھلنے اور بند ہونے سے اس کے شیشے ٹوٹ
گئے اور ہوا کی وجہ سے ہی فائلیں وغیرہ بکھر گئیں۔ ممکن ہے یہ خیال پولیس
نے ظاہر کیا ہو، تاکہ مدعا ہی غائب کردیا جائے اور الزام کسی پر بھی نہ
آسکے۔ ابھی پندرہ روز قبل ہی لاجز میں چوری کی ایک واردات ہو چکی ہے، جس
میں مسلم لیگ ن کے ’’ٹی وی ‘‘رہنما طلال چوہدری کے فلیٹ میں چوری ہوئی تھی،
کہا جاتا ہے کہ چور تین ہزار ڈالر نقدی اور کچھ جیولری بھی لے اڑے تھے۔
پولیس کو اطلاع کرنے پر بھاری نفری آگئی تھی، مگر ملزم گرفتار نہیں ہوسکے ،
جس وجہ سے فطری طور پر نہ ڈالر واپس ہوئے اور نہ ہی جیولری۔
چوروں نے پارلیمنٹ لاجز کو ہی کیوں ٹارگٹ بنا لیا ہے، اگر یہ چور صاحبان
کسی مخبری پر لاجز آتے اور اپنا کام کرتے ہیں تو ان کی کارکردگی زیادہ پیشہ
ورانہ نہیں، کیونکہ کسی پیشے میں پچاس فیصد رزلٹ زیادہ قابلِ تعریف نہیں
ہوتا، اگر ایک واردات میں ڈالر اور جیولری ہاتھ لگی تو دوسری میں کچھ بھی
نہ ملا۔ تاہم یہ ممکن ہے کہ دونوں وارداتوں میں وارداتیے مختلف ہوں، پہلی
واردات میں تجربہ کار لوگ ہوں اور دوسری میں ایسے لوگ ہوں جو اس میدان میں
نووارد ہوں۔ خیر کوئی بات نہیں، تجربہ سے ترقی کر جائیں گے، ہو سکے تو وہ
پہلی پارٹی کو استاد مان لیں۔ مگر کیا کیجئے کہ استاد ماننے کے لئے بھی بڑی
کھوج لگانی پڑے گی، انہیں کہاں تلاش کیا جائے گا، ہاں اگر وہ پولیس کے ہتھے
چڑھ جائیں تب ان کا اتا پتا مل سکتا ہے۔ ورنہ پہلا گروپ ہی دوسرے کو تلاش
کرکے برا بھلا کہے کہ انہوں نے چوروں کی لاج نہیں رکھی، واردات بھی کی، مگر
ناکام۔ تیسری طرف حکومت بھی میدان میں آگئی ہے، اور قائم مقام سپیکر کا
فلیٹ کا دورہ کرنا حکومتی سنجیدگی کی علامت ہے، یہ الگ بات ہے کہ سینیٹر سے
سپیکر قومی اسمبلی کا کوئی تعلق تو نہیں بنتا، مگر بااختیار لوگوں کا کچھ
نہیں کہا جاسکتا ، وہ جہاں مناسب سمجھیں آ موجود ہوتے ہیں، اور اپنے
اختیارات استعمال کرسکتے ہیں۔
لاجز کی کہانی بھی عجیب ہے کبھی وہاں چوہوں کا راج ہوتا ہے تو کبھی چوروں
کا، کبھی وہاں شراب اور نشے وغیرہ کے مشاغل کے الزامات لگ جاتے ہیں تو کبھی
کوئی اور مسائل سر اٹھا لیتے ہیں۔ چوہوں کی موجودگی بھی پریشان کن ہی ہے،
اگرچہ سکیورٹی اور کیمرے چوہوں کی راہیں نہیں روک سکتے، مگر صفائی اور
حفظانِ صحت کے معاملات کا خیال رکھنے والے دیگر ادارے کہاں ہیں؟ یہ بھی
ممکن ہے کہ یہ ادارے جان بوجھ کر معزز ممبران اسمبلی کو خراب اور بدنام
کرنے کے درپے ہوں، اور چوہوں کے سد باب کے لئے اپنی کوششوں کو حقیقی رنگ نہ
دیتے ہوں، بس کاروائیوں پر ہی زور ہو اور فائلوں کے پیٹ بھرتے جارہے ہوں۔
ان ارکان کو اسمبلی میں ایسی کوئی تحریک لانی چاہیے ، تاکہ حکومت بذات خود
دلچسپی لے کر ممبران کی ان بلاؤں سے جان چھڑوائے۔ رہ گئے چور، تو اب ان کے
لئے کھڑکیوں کے باہر آہنی گِرلیں لگ جائیں گی اور کیمروں کا بندوبست ہو
جائے گا۔ ان کے بعد بھی اگر کوئی چور گھس آیا تو یہ کسی سازش کا حصہ ہی
ہوگا۔ لاجز میں چوریوں کی وارداتوں کے بعد عوام کو اطمینان رکھنا چاہیے، کہ
جہاں ان کے نمائندے محفوظ نہیں تو عوام کس باغ کی مولی ہیں۔ |
|