ہمارے ملک کی سیاست میکیاولی کے نقش قدم پہ

میکیاولی ایک سیاسی مفکر گذرا ہے، 1449میں اٹلی میں پیداہوا، اس نے سیاسیات میں ایک شہرہ آفاق کتاب لکھی جو کہ 26ابواب پہ مشتمل ہے،اس کتاب کا نام دی پرنس یعنی ’’شہزادہ‘‘ ہے۔اس کتاب میں اس نے سیاست اور حکومت کرنے کے اصول اور طریقے بیان کئے ہیں اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ تاریخ میں پہلی دفعہ حکمرانوں کو یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ ’’وہ جھوٹ ، دھوکہ دہی، اور ظلم کو اپنے اقتدار کے حصول اور اسے قائم رکھنے کے لئے اختیار کر سکتے ہیں‘‘،حکمران اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کو طول دینے اور اس کی حفاظت کے لئے ہر طرح کی اخلاقی قدروں کو پس پشت ڈال سکتے ہیں اورمذہب و اخلاق کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر سکتے ہیں‘‘‘ یہ کتاب بہت مشہور ہوئی ۔خاص طور پہ نام نہاد جمہوریت میں اس کتاب کے اصولوں کو خوب مشعل راہ بنایاگیا،اگر ہم میکیاولی کی اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں بیان کئے گئے اصولوں اور فلاسفی پہ چلنے والی اگر کوئی بہترین ریاست نظر آتی ہے تو وہ ہمارا وطن ہے ،اس تناظر میں ہم پاکستان کی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں تو میکیاولی حکمرانوں کے اندر جو خصوصیات دیکھنا چاہتا تھا وہ سو فیصد ہمارے حکمرانوں میں نظر آتی ہیں۔

مثلا سب سے پہلی جو خصوصیت وہ بیان کرتا ہے وہ ’’ خوب جھوٹ بولنا اور دھوکہ دہی یعنی دکھانا اور ہے اور کرنا کچھ اور ہے‘‘ اگر نصف صدی کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھیں تو یقیناً وطن عزیز کی تمام پارٹیوں کے لیڈران کے جھوٹ اور دھوکہ دہی کی پوری داستانیں موجود ہیں۔کس طرح انہوں نے عوام کو گمراہ کیا ، کس طرح ہر دفعہ جھوٹے خواب دکھائے، کس طرح جھوٹے وعدے کئے اور پھر طوطا چشمی اختیار کر کے مختلف حیلے بہانوں سے ان سے مکر گئے۔ ان تمام لیڈروں کے اعمال نامے ہمارے سامنے موجود ہیں، لیکن ہم انہیں دیکھنا ،پڑھنا، اور سمجھنا ہی نہیں چاہتے، پھر سے ہر دفعہ ان کے جھوٹ کو سچ سمجھنے لگتے ہیں، ان کے دھوکے کو پھر سے حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔لیکن کمال مہارت سے جھوٹ بولنے والے یہ سیاستداں میکیاولی کے اصولوں کا چلتا پھرتا نمونہ ہیں۔
دوسرا اصول میکیاولی یہ پیش کرتا ہے کہ اپنے ذاتی مفادات اور ذاتی اقتدار کی خاطر مذہب، حب الوطنی اور ہر اس شئے کو استعمال کرنا جائز ہے جو آپ کی پہنچ میں ہے۔‘‘اس کے مظاہر بھی آئے دن ہم دیکھ سکتے ہیں اور انہیں سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح حکمران طبقہ اپنی سیاست اور اقتدار کے لئے لسانیت ،گروہیت، علاقائیت، صوبائیت، مذہبیت، کو اپنے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں، اگر نصف صدی کا تجزیہ کیا جائے تو یہ سیاستدان جن مسائل کو لے کر سیاست کرتے رہے اور کر رہے ہیں، ان ایشوز پہ آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہر دفعہ مختلف نعروں اور وعدوں کے ساتھ ان ایشوز کو لے کر جھوٹی سیاست کی جاتی اور پھر اقتدار کے مزے لے کر قوم کو مزید مسائل سے دو چار کر دیا جاتا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ کہ جب ان میں سے ایک ٹولہ اقتدار میں ہوتا ہے تو دوسرا اس پہ خوب لعن طعن کرتا ہے، اور پورا عرصہ جب تک اپوزیشن میں ہوتا ہے تو اپنی کرسی کے لئے اس کی ٹانگیں کھینچتا ہے، اور پوری توجہ اسی کھینچا تانی پہ مرکوز رکھتا ہے اس کی بلا سے کوئی عوامی کام ہوتا ہے یا نہیں، قومی منصوبے چلتے ہیں یا نہیں قوم کا کیا حال ہے؟ اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی بس اپنی نورا کشتی میں مصروف رہتے ہیں اور اس طرح ایک اقتدار میں رہتا ہے تو دوسرا اپوزیشن میں، اور زیادہ تر یہ اپوزیشن عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے ہوتی ہے، بظاہر ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے حقیقت میں اندر سے ان کے مفادات ایک ہوتے ہیں،اور مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے کی پارٹیاں بھی بدلتے ہیں،جہاں ان کو اپنے مفادات زیادہ نظر آتے ہیں اسی میں شامل ہوتے ہیں چاہے ماضی میں کتنا ہی اس پارٹی کے خلاف بولا ہو،لیکن بڑی ڈھٹائی سے عوام کو بیوقوف بنا لیتا ہے، اس طرح یہ میکیاولی کے چلتے پھرتے پیرو کار ملک کی تباہی و بربادی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

وطن عزیز کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو چاہئے کہ اپنے وطن سے میکیاولی کی فکر پہ استوار اس سیاست اور سیاسی نظام کو شعوری اعتبار سے سمجھیں، اس کا تدارک کریں، اس وقت اسلام کے فطری اصولوں پہ سیاسی نظام اور سیاست کی ضرورت ہے کیونکہ اسلام تو ہر حال میں سچ اور سچائی کی تعلیم دیتا ہے، اور دھوکہ دہی کو ناجائزقرار دیتا ہے۔ اور ذاتی و گروہی مفادات کی بجائے اجتماعی مفادات کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے۔ اور زندگی کے ہر شعبے میں اعلیٰ اخلاقی قدروں کو قائم کرنے کی تعلیم دیتا ہے، چاہے اس کے لئے اپنے مفادات کی جتنی بھی بڑی قربانی دینی پڑے۔

نوجوانوں کو چاہئے کہ ان جھوٹی اور دھوکے باز اور نام نہاد جمہوری پارٹیوں کی فہرست بنائیں اور پھر ایک تحقیقی جائزہ لیں کہ ان پارٹیوں کے لیڈران چاہے ان کا تعلق کسی بھی فکر، نظریہ، مسلک سے ہو، انہوں نے کب اور کس جگہ جھوٹے وعدے کئے، جھوٹے بیان دئیے، لوگوں سے بار بار دھوکہ کیا،،ہمیں گذری ہوئی باتوں کو بھولنے کی عادت ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں اس جھوٹ اور دھوکہ دہی پہ مبنی سیاست کو اپنے معاشرے سے ختم کرنا ہے، اس وقت اگر پاکستان معاشی طور پہ دیوالیہ ہوتا ہے تو اس کا ذمہ دار کوئی ایک سیاسی لیڈر نہیں، کوئی ایک پارٹی نہیں بلکہ اقتدار کے مزے لوٹنے والی تمام پارٹیاں، اور ان کے حامی اور ان کے شراکت دار سب کے سب اس قومی جرم میں برابر کے شریک ہیں، یہ نورا کشتی کر کے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں، اور باری باری اس ملک کو لوٹ رہے ہیں، لوگ بے وقوف بنتے ہیں یا وہ خود ان لٹیروں اور جھوٹے لیڈروں کو لاتے ہیں ،لہذا اس کا خمیازہ خود بھگت رہے ہیں، اگر جھوٹے لیڈروں اور مفاد پرست پارٹیوں اور فتنہ گر گروہوں کو نہیں پہچانیں گے تو کبھی بھی تبدیلی نہیں آ سکتی، جھوٹے اور بد اخلاق لیڈروں کو منتخب کرنا یا کرانا بھی ایک قومی و اخلاقی جرم ہے جس کا خمیازہ نصف صدی سے ہم بھگت رہے ہیں، اس جرم کی پاداش میں قوم بجلی، پانی، روز گار، رہائش، صحت، تعلیم اور عزت نفس سے محروم ہو رہی ہے۔، جب ہم لوگ خود یہ جرم کرتے ہیں تو پھر احتجاج کس بات کا؟ کہ پٹرول نہیں، گیس نہیں بجلی نہیں مال و جان کی حفاظت نہیں؟ کیوں روتے ہیں، کیوں چلاتے ہیں؟ کیوں شور مچاتے ہیں؟ جب فیصلے کا وقت ہوتا ہے تو ہمیں ذاتی مفادات اور برادری، رشتہ داری اور اپنے فرقے یاد رہتے ہیں اور جب سب کچھ ہو جاتا ہے تو پھر ہم روتے اور چلاتے ہیں۔قومیں جب اجتماعی فیصلے غلط کرتی ہیں تو اجتماعی طور پہ انہیں زوال سے کوئی نہیں بچا سکتا۔لہذا درست اجتماعی فیصلے اور جدوجہد ہی تبدیلی کا فیصلہ کرتے ہیں۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 135707 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More