مسلم لیگ ن کی سخت آزمائش شروع ہو چکی ہے۔
اس کے سامنے لا تعداد چیلنجز ہیں۔ سب سے بڑا کام اداروں کا قیام، ان کو
معتبربنانا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پہلے سے موجود اہم اداروں میں اصلاحات اور ان
کو موثر بنانا ضروری ہے۔ اس وقت لگ بھگ تمام ادارے تباہی کے شکار ہیں۔ یہ
تباہی راتوں رات نہیں آئی۔ بلکہ ہر کسی نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔
سب سے پہلے میرٹ کی بالا دستی کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلے پارٹی
مفاد یا تنگ نظری کا تقاضا نہیں کرتے۔ بلکہ اس سے پاک ہوں، انتہائی اہل
افراد کی تلاش کی جا سکتی ہے۔ آزاد کشمیر کی بیوروکریسی تطہیر چاہتی ہے۔ اس
کے لئے مقابلے کا کو ئی طریقہ کار نہیں ہے۔ سارا بوجھ پبلک سروس کمیشن پر
ڈال دیا گیا ہے۔ یہ انتہائی اہم اور حساس ادارہ ہے۔ اس کی رکنیت کے لئے
کوئی ضابطہ اخلاق نہیں۔ من پسند اور وابستگی کی بنیاد پر فیصلے کئے جاتے
ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ معاشروں میں پارٹی بازی، برادری ازم، علاقہ پرستی
کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے وہ ترقی کی منازل طے کرتے ہیں۔ میرٹ
انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم نے اختیارات
مظفر آباد منتقل کر دیئے تو ان سے بلا شبہ خطے کے عوام مستفید ہوں گے۔مگر
کڑی نگرانی سے گریز نہ کرنا زیادہ بہتر خیال کیا جاتا ہے۔
کسی ملک یا ریاست کو چلانے میں بیوروکریسی کا کردار سب سے زیادہ ہے۔ وہی
سیاسی نمائیندہ کو درست راستہ اختیار کرنے یا بھٹکانے پر آمادہ کر سکتی
ہے۔پاکستان میں بیوروکریسی میں داخلہ کے لئے فیڈرل پبلک سروسز کمیشن (FPSC)کو
کردار دیا گیا ہے۔ یہ ملک کا انتہائی معتبر اور حساس ادارہ ہے ۔ اسے مزید
با اختیار بنایا جا نا چاہیئے۔آج نوید اکرم چیمہ اس کے چیئرمین ہیں۔کل کوئی
دوسرا آئے گا۔لیکن یاد اسے رکھا جائے گا جو مخلص اور اہلیت کے معیار پر
اترتا ہو۔ اس ادارے کی سربراہی اور ممبر شپ کے لئے انتہائی موزون لوگ ہی
ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتے ہیں۔ اگر اس میں سیاسی وابستگی یا
پسند نا پسند کی بنیاد پر لوگ لگائے گئے تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں
گے۔ سیاسی ایڈجسٹ منٹ میرٹ کا ستیاناس کر دیتی ہے۔ اسی طرح آزاد کشمیر اور
ملک کے صوبوں میں پی ایس سی پر سارا انحصار کیا جاتا ہے۔ پی ایس سی میں
سیاسی بنیادوں پر لوگ لگائے جاتے ہیں۔ حکومت وقت اپنے لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے
میں ہی زیادہ دلچسپی لیتی ہے۔ جب کہ ایسا عمل اس ادارے کی ساکھ کو خراب کر
دیتا ہے۔ پی ایس سی میں اچھی شہرت کے حامل مختلف شعبہ جات کے ماہرین اور
سکالرز ممبران بنائے جائیں۔ ایسے لوگ جو ملک یا خطے کی کریم کا انتخاب کرتے
ہیں۔ خود ان کا بھی کوئی مرتبہ ہونا چاہیئے۔ ان کا ریکارڈ بھی اچھا ہو۔ ان
کی شخصیت علمی ہو۔
آزاد کشمیر اور صوبوں میں پی ایس سی سارا کام نہیں کر سکتی۔ اس کے لئے پی
ایس سی کے ساتھ ہی ایڈمنسٹریٹو سروسز، سروس سلیکشن بورڈ ، سروس ریکروٹمنٹ
بورڈز بھی قائم کئے جائیں۔ جو تما م سرکاری نوکریوں کے لئے اہل ترین
امیدوار تلاش کریں۔ ان کے تحریری امتحانات، ٹیسٹ انٹرویوز لیں۔ ان کی اچھی
طرح پرکھ کریں۔ تا کہ انتطامیہ، پولیس، عدلیہ، سرکاری بینکوں کو انتہائی
ذہین و فطین لوگ میسر آ سکیں۔ ورنہ مختلف ادارے ڈرامے کرتے ہیں۔ سلیکشن
کمیٹی کے نام پر میرٹ بری طرح پامال کر دیا جاتا ہے۔ اپنی من پسند لوگوں کو
رجیح دی جاتی ہے۔ اسی طرح سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے ملازمین کی
پرموشن بھی معتبر سلیکشن بورڈ کے منڈیٹ میں شامل کی جا سکتی ہے۔ یہاں ہمارا
نظام انتہائی ناقص ہے۔ افسران پرسنل ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ صبح و شام ان کے
آگے نہ جھکتے ہوں، ان کی چاپلوسی نہ کریں، ان کی ہاں میں ہاں نہ ملائیں، ان
سے اصولی اختلاف کریں تو یہ آپ سے کھل کر انتقام لیتے ہیں۔یہ ایسے قواعد و
ضوابط بناتے ہیں کہ کوئی عدالت بھی متاثرہ فرد کو انصاف نہیں دلا سکتی ہے۔
انھوں نے پرموشن کے لئے جو ضابطہ کار بنایا ہے۔ وہ اپنے زاتی مفادات کو
سامنے رکھ کر ہی بنایا ہے۔
مسلم لیگ ن کو موقع ملا ہے۔ ملک میں اس کی حکمرانی ہے۔ گلگت بلتستان کے بعد
آزاد کشمیر میں بھی اس نے کلین سویپ کیا ہے۔ تعمیر و ترقی، موٹر ویز، پل ،
ٹنلز کی اپنی ہی اہمیت ہے۔ مگر گڈ گورننس اور میرٹ کی بھی اس وقت سب سے
زیادہ ضرورت ہے۔ عوام کو اپنے اداروں پر اعتماد اور اعتبار بحال کرنا
انتہائی ضرورہ ہے۔ یہ تب ہو گا جب چیف جسٹس اور چیئر مین سے لے کر چپراسی
تک کی بھرتی میرٹ اور اعلیٰ معیار پر ہو گی۔
وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم کا یہی سب سے بڑا امتحان ہے۔
مخالفین اور اپوزیشن کا اپنا ایجنڈا ہے۔ مگر حکومت کو اپوزیشن اور اپنے
حامیوں کی ہر اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے جس کا فائدہ ملک اور
قوم کو ہوتا ہو۔ قابل عمل اور معتبر ، یا قابل اصلاح تنقید کو بہترین تجویز
کی صورت میں صدق دل سے قبول کیا جا نا چاہیئے۔ مسلم لیگ ن کے لئے آزاد
کشمیر میں اس وقت حکومت سازی کا ایک مرحلہ ہے۔ اس سے پہلے میرٹ اور قابلیت
کو اہمیت دینے کا ایک اہم مرحلہ بھی سامنے آ کھڑا ہو گیا ہے۔ یہ آزاد
کشمیرمیں خواتین کی پانچ اور سمندر پار کشمیری، علماء و مشائخ کی تین
اسمبلی نشستیں ہیں۔ یہ مختص نشستیں انتہائی اہم شخصیات کا ھق ہیں۔ خواتین
کے لئے سماجی اور ملی خدمات انجام دینے والی خواتین ہی پہلی ترجیح ہو سکتی
ہیں۔ اسی طرح سمندر پار کشمیر کی سیٹ بھی سوچ سمجھ کر دینے کی امید ہے۔
علماؤ مشائخ میں بھی کاسہ لیسوں اور چاپلوسوں کو نوازنے کے بجائے کسی معتبر
عالم دین کو ترجیح دی جائی ۔ جو مذہبی سکالر بھی ہو۔
مسلم لیگ ن کے آزاد کشمیر میں دیرینہ کارکن کون ہیں۔ قربانیاں پیش کرنے
والے اس وقت خاموش ہوں گے۔ موقع پرست میدان میں کود پڑے ہیں۔ مسلم لیگ ن
ریکارڈ کا مشاہدہ کرے ۔ جب اس پر مشرف دور میں سختیاں ہو رہی تھیں۔ وہ جلا
وطن ہو رہے تھے۔ اس موقع پر ان کا ساتھ دینے والے کون تھے۔ اس سخت دور میں
ن لیگ کی ممبر شپ کس نے اختیار کی۔ وابستگی اور تعلق کا بھی معیار اور میرٹ
ہو سکتا ہے۔ تا ہم اپنوں کو نوازتے ہوئے بھی کسی حق دار اور اہل کو اس کے
حق سے محروم رکھنا بھی میرٹ کی پامالی ہو گی۔
سیاسی وابستگی یا پارٹیٰ وفاداری کی بنیاد پر اہم ریاستی ادارے تحفے میں
دینے کی روایت کا خاتمہ کرنے کا وقت بھی آگیا ہے۔ اگر آپ گڈ گورننس چاہتے
ہیں تو اداروں کا سربراہ انتہائی اہل اور موزون ترین تعلیم یافتہ شخصیات کو
تعینات کیا جائے۔ مسلم لیگ ن پر عوام نے جو اعتماد کیا ہے ، اس کا تقاضا ہے
کہ سب سے پہلے اداروں کی طرف خاص توجہ دی جائے۔ تا کہ ان کا قبلہ درست ہو
سکے۔ سیاسی بھرتیاں یا ایسے فیصلے نہ کئے جائیں جن سے مستقبل میں اداروں
میں سیاسی مداخلت کی راہ کھلتی ہو۔
|