بھارت میں دلتوں کا بھی نعرہ آزادی
(Raja Majid Javed Ali Bhatti, )
بھارت میں شدید نفرت اور ظلم و ستم کے
شکار دلتوں نے اٹھارہ جولائی کو زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں بھارت سے
علیحدگی اور آزادی کا بھی نعرہ بلند کردیا۔ ہوا یہ کہ ایک دلت لڑکی کے ساتھ
اجتماعی زیادتی کا مقدمہ چل رہا تھا مقدمہ واپس نہ لینے پر اُسی دلت لڑکی
کو انتقاماً دوبارہ اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ جس پر دلتوں کا
پیمانہ صبر لبریز ہو گیا انہوں نے نہ صرف زبردست احتجاج کیا بلکہ بھارت سے
علیحدگی کے لئے نعرہ آزادی بھی بلند کردیا۔ تاہم یہ کوئی حیران کن بات نہیں
انسانی تکریم سے محروم دلت یا شودر کے لئے ہندوستان یا بھارت شروع سے ہی
ایک غم خانہ ہے۔ کیونکہ ہندوازم مساوات انسانی کے تصور سے خالی ہے بلکہ اس
کے برعکس ذات پات پر یقین ہندومت کا بنیادی عنصر ہے۔ ’’ورنا‘‘ ہندو دھرم کی
بنیاد ہے۔ ’’ورنا‘‘ سنسکرت کا لفظ ہے جس کا تعلق رنگ سے ہے اس لئے ابتدائی
طور پر ذات پات کی بنیاد کالا یا گورا رنگ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ذات پات
سماج کا حصہ بن گئی۔ ذات پات کی تقسیم نے انسانوں کو کئی طبقوں اور قوموں
میں بانٹ دیا ہے۔ ہر طبقے کو مختلف فرائض و وظائف سونپے جاتے ہیں اور غیر
مساوی سلوک کو اسی بنیاد پر روا رکھا جاتا ہے۔ ہندو مت پر یقین رکھنے والے
روشن خیال اور جدید تعلیم یافتہ اشخاص بھی ذات پات کے قائل ہیں البتہ وہ اس
کا جواز ’’کرومو سوم‘‘ کی جدید تحقیق میں تلاش کرتے ہیں۔ رادھا کرشنن لکھتے
ہیں۔ ’’ہمارے جسم کا ہر سیل کروموسوم کا حامل ہے جو ہمارے وجود، ہمارے قد
کاٹھ، ہمارے وزن، ہماری شکل و شباہت، ہمارے رنگ، ہمارے اعصابی نظام، ہمارے
مزاج، ہماری ذہانت اور قوت غریزہ کا تعین کرتا ہے۔ ہر سیل میں آدھے
کروموسوم باپ کی طرف سے اور ان کی آدھی تعداد ماں کی جانب سے منتقل ہوتی ہے
اور اس طرح ہمیں اپنے آباؤ اجداد کی عادات اور صلاحیتیں منتقل ہوتی رہتی
ہیں۔ کوئی حماقت یا پاگل پن جو ہمارے والدین، دادا، دادی، پرداداد، پردادی
سے سرزد ہوئی تھیں وہ ہمارے بچوں اور پھر ان کے بچوں میں منتقل ہوتی رہیں
گی۔ ہندو مفکرین نے اپنے وجدان یا مشاہدے کے عمومی اصول سے ’’توارث‘‘ کے اس
اصول کو جان لیا اور ان لوگوں میں شادیاں کرنے کی حوصلہ افزائی کی جو
صلاحیت اور ذات میں ہم پلہ ہوں۔ اگر ایک اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک
نیچ ذات والے فرد سے شادی کریگا تو اس طرح اعلیٰ درجہ کا ورثہ نیچ ذات والے
سے مل کر نیچ ہو جائیگا‘‘۔
ترجمان حقیقت، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے بھی شودر کے ساتھ
انسانی وقار کے منافی امتیازی سلوک کا دکھ اور کرب بڑی شدت سے محسوس کیا
اور یہ کہے بغیر نہ رہ سکے ۔
آہ شودر کیلئے ہندوستان اک غم خانہ ہے
دردِانسانی سے اس بستی کا دل بے گانہ ہے
ذات پات پر مبنی ہندو دھرم میں سب سے نچلی ذات کہلانے والے شودر کو کبھی
شودر رہتے ہوئے ہندو دھرم میں انسانی وقار اور مرتبہ نصیب نہیں ہوسکتا اس
انسانی المیے کو رنج و الم سے محسوس کرتے ہوئے مولانا ظفر علی خان نے بھی
تمنا کی تھی ۔
نہ امتیاز رہے ذات پات کا کچھ بھی
ہر ایک لڑکی شودر کی برہمنی ہو جائے
آریا ہندو سماج کی منافقانہ جارحیت پسندی کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے
کہ وہ بیک زبان ہوکر اپنے مفاد کی تشریح تو کسی بھی مقامی یا بیرونی عقل و
دانش کے باعث جنم لینے والی تحریک سے نکال لیتی ہے کہ کسی کو گمان تک نہیں
ہوتا کہ اس تحریک یا تہذیب کو ماضی میں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے ہندومت
نے کتنے سخت گیر طریقے استعمال کئے تھے۔ اس کی مثال اس طرح ہی ہے جیسے قدیم
ہندو تاریخ میں اشوک بادشاہ کی دہشت گردی پر مبنی قتل و غارت گری، تباہی و
بربادی اور اس ماردھاڑ کے بل بوتے پر ہندوستان میں ایک وسیع و عریض ہندو
ریاست کا منظر عام پر آنا تو منظور اور اس حوالے سے اشوک بادشاہ کی بہادری
و شجاعت پر مبنی علامت تو منظور لیکن اشوک کا بدھ مت قبول کرکے مرتے دم تک
دنیا بھر میں امن و انصاف کی علامت بننا بیرونی ممالک میں گوتم بدھ کی
سفارتیں بھجوانا، بدھ کے مجسمے اور بدھ کی تعلیمات سلطنت کے دور دراز
علاقوں میں کندہ کرانا نامنظور کیونکہ ہندو اس بدھ ریاست کو ہندو ازم کا
ورثہ تسلیم نہیں کرتے یعنی اشوک کی ہندو بربریت اور دہشت گردی کی علامت تو
منظور لیکن اسی اشوک کی عدل و انصاف اور امن و امان کی وسیع و عریض بدھ
ریاست نامنظور۔ |
|