پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ زبان
زدعام ہے ہر سو 46بلین ڈالر کے چرچے ہیں ۔در حقیقت یہ ایسا منصوبہ ہے جس
میں سرمایہ کاری کا تعین نہیں کیا جا سکتا بلا شعبہ یہ جنوبی ایشا کی تاریخ
کا بڑا منصوبہ ہے ۔جسمیں کاشغر سے گوادر تک ایک بین الاقوامی میعار کی
شاہرہ تعمیر ہو گی جس کے ساتھ ایک ریلوے ٹریک بھی ہوگا ۔کاشغر سے اسلام
آباد تک آپٹک فائبر لائن بچھائی جائے گی اور اس شاہرہ پر جابجا اعلیٰ میعار
کے تجارتی مراکزاور فایؤسٹار ہوٹل تعمیر ہوں گے،پاکستان کے تمام بڑے اور
درمیانے شہروں کو اس سے لنک کیا جائیگا اور اس کے ایک سرے ’’گوادر‘‘پرگہرے
سمندر والی دنیا کی سب سے بڑی بندر گاہ جو چین کے تعاون سے پایہ تکمیل کو
پہنچی اور اس کا انتظام بھی چین ہی کے پاس ہے اس بندر گاہ پر جدید
انٹرنیشنل ائر پورٹ تعمیر ہوگا اور اس طرح اس تاریخی منصوبے کے محض پہلے
فیز میں 46بلین ڈالرز کی انویسٹمنت ہوگی جو آگے چل کر ٹریلنزڈالرز کی حد
عبورکرے گی ۔ہزاروں پاکستانی روزگار سے مستفید ہوں گے اور لاکھوں خود
کاکاروبار کر سکیں گے میعار زندگی بلند ہوگا اور خوشحالی آئیگی یوں بھی
چینی معیشت بڑی برق رفتار ی سے آگے بڑھ رہی ہے دنیا بھر کے گلی کوچے
اورمارکیٹس چینی پروڈکٹ سے اٹی پڑھی ہیں اور معاشی ترقی کی رفتارکے حساب سے
ہی چین کو ایندھن بھی درآمد کرنا پڑھتا ہے جو کہ اس وقت چین دنیا کا سب سے
بڑا تیل بردرآمد کرنے والا ملک ہے اس کا تمام تیل مشرقی وسطیٰ وافریکہ سے
سست رفتار ٹینکر طویل ترین بحری وخطرناک راستوں سے ہوتے مہینوں کے بعد چین
کے مشرقی ساحل پر پہنچتے ہیں جس سے اس کی پروڈکشن پرہی اثر نہیں پڑھتا بلکہ
باربرداری کے اخراجات میں بے پناہ اضافے کے ساتھ ساتھ سپلائی بھی متاثر
ہوتی ہے اور ان کا پروڈکٹ بھی دوسرے ممالک تک پہنچنے میں اتنا ہی وقت لیتا
ہے اور مشکلات کا شکار رہتا ہے اس طرح اس نئے اقتصادی کورہڈورکی تعمیر سے
چین کا یہ اہم ترین تجارتی سفر بارہ ہزار کلو میٹر کی طوالت سے بچ جائیگا
جس سے ایک اندازے کے مطابق ایک برس میں درآمدی بل میں ہونیوالی بچت مجوزہ
اقتصادی کوریڈور کے مجموعی اخراجات سے کہیں زیادہ ہوگا ۔
افغانستان میں امن قائم ہونے سے افغانستان سمیت وسط ایشین ممالک بھی ان
سرگرمیوں میں شریک ہوسکتے ہیں اور ایک موٹر وے طورخم سے جلال آباد تک تعمیر
ہوتی نظرآرہی ہے ،تیسری جانب بھارت ہے جو اس میں براستہ اٖفغانستان یا
واہگہ سیکٹر کے راستے شریک ہو سکتا ہے اور بھارت کا اس راہداری سے لاتعلق
رہنا’’ خارج از امکان‘‘ ہے اوریوں بھارت پاکستان چین افغانستان وسطی ایشائی
ریاستیں گلف یورپ بشمول امریکہ مجموعی طور پر اربوں لوگ اس منصوبے سے
مستفید ہوں گے جب کہ پاکستان اس کا محور بنیگا اور چین سب سے بڑا
انویسٹر۔یہی نہیں بلکہ پہلی بار ایشا ء عالمی تجارت میں مرکز ی حیثیت حاصل
کر لیگا ۔دنیا کے اس تاریخی سہانے خواب کا شرمندہ تعبیر ہونے کا دارومدار
محض اس سرزمین سے ہے جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایک متنازعہ ریاست کا حصہ
ہے جو عارضی طور پر اسلام آباد کے کنٹرول میں ہے جسے’’ گلگت بلتستان ‘‘کے
نام سے پکارہ جاتا ہے ۔پاکستان سرکاری طور پر اسے اپنانے کا علان نہیں کر
سکتالیکن درپردہ اپنے من پسند لوگوں کی وساطت سے’’ انپاورمنٹ پیکیج‘‘ کے
نام پر آواز حق کو خاموش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس علاقہ کو اپنے شمالی
علاقہ جات کہتا ہے ساتھ ہی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بات بھی کرتا ہے
لیکن کشمیر کے اس حصے میں کسی کشمیری تنظیم کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا
اور اپنے زیر قبضہ کشمیر میں رائج کالونیل سسٹم کے تحت ہونے والے الیکشن
میں ووٹر اور امیدوار سے الحاق پاکستان کی وفاداری کا حلف لیتا ہے ۔پاکستان
دنیا سے کہتا ہے کہ چین پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے جب اسے صدی کا سب سے بڑا
جھوٹ کہا جانا مناسب ہے اس لئے کہ چین اور پاکستان کے درمیاں ریاست جموں
کشمیر واقع ہے اور ان کی کہیں بھی سرحد نہیں ملتی ۔ہندوپاک تعلقات کی بڑی
وجہ بھی ریاست جموں کشمیرہی ہے پھر بھی پاکستان کے اس تاریخ ساز منصوبے پر
عملدرآمد کے باوجود بھارت کی خامشی بذات خود ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب
یہی ہے کہ اسلام آباد اور دہلی کے درمیاں اس منصوبہ پرضرور کوئی’’ ڈیل‘‘ ہو
چکی ہے جس کا ثبوت وزیر اعظم پاکستان کا ماضی قریب میں دیا گیا وہ بیان ہے
جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ موٹر وے کو واہگہ سے ملانے کا ارادہ رکھتے
ہیں تو یوں بھارت کی موجودہ خامشی کو میاں نواز شریف کے اس بیاں سے ملا کر
دیکھا جائے تو یقینا اسے پاک چائنا نہیں بلکہ’’ پاک انڈیا چائنا
کوریڈور‘‘کہا جانا ہی درست ہوگا کیوں کے مستقبل قریب میں یہ سب ہوتا صاف
دکھائی دے رہاہے ورنہ ریجن کا سب سے بڑا کھلاڑی بھارت جو کشمیر کو اٹوٹ انگ
کہتاہے اس پاک چین معائدے پراتنی آسانی سے عمل درآمد کبھی نہیں ہونے
دیتااور ان تمام سوالات سے زیادہ اہم بات یہ کہ اربوں لوگوں کو فیض یاب
کرنے والے اس تاریخی منصوبے کا پہلا اہم فریق ریاست جموں کشمیر ’’گلگت
بلتستان‘‘ ہے لیکن اس سارے منظر نامے میں اس کا نام ونشان تک موجود نہیں ہے
۔متنازعہ خطہ کے لوگوں کوان کا مناسب حق دینے کے بجائے اپنے حاشیہ برداروں
کے زریعے ’’ان پاورمنٹ پیکج ‘‘ کا ’’لالی پاپ‘‘ دیکران سے ان کی شناخت چھین
لینے کی کوشش کیجارہی ہے اور اس طرح جس گلگت بلتستان کو اس اقتصادی منصوبے
کا فریق اول سمجھا جانا چاہیے کو محض ’’رامٹیرئیل ‘‘ سمجھا جارہا ہے اور اس
طرح کے حساس وتاریخی اقدام کی بنیادوں میں اگر ایسی منافقت کی اینٹیں لگائی
جائیں تو انجام تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اس لئے ان تمام ’’بگ
پلیئرز‘‘ کو چاہیے کہ اپنے مفادات کو ضرور حاصل کریں لیکن جس دیس کی وحد ت
و آزادی کی خاطر چھ لاکھ لوگ شہید ہو چکے ہیں اور اپ کا یہ منصوبہ جس دیس
کا مرہون منت ہے اس کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے معروض کے عین مطابق
اس کے ساتھ معائدہ کریں اور اسے فریق اول تسلیم کریں تاکہ اس کی اقوام عالم
کے سامنے تسلیم شدہ متنازع حیثیت برقرار رہے و حق خودارادیت کو ٹھیس نہ
پہنچے ۔اور اس منصوبے کو پاک کشمیر چائنہ اقتصادی کوریڈور کا نام دے کر اس
کی ابتداء کی جائے تو اسے پایہ تکمیل تک پہنچنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکے
گی ۔
|