ہیپاٹائٹس سے آگاہی کا عالمی دن
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
عالمی سطح پر ہیپاٹائٹس سے آگا ہی کا
دن منانے کا مقصد تمام افراد کو اس مہلک مرض کے خطرات سے آگا ہ کرنا اور
لوگوں میں اس خطرناک مرض سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا
شعور بیدار کرنا ہے ۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے
زیراہتمام ہیپاٹائٹس سے آگاہی کا عالمی دن سن 2008 ء سے ہر سال 28 جولائی
کے دن منایا جاتا ہے۔ طبی ماہرین اس دن کی مناسبت سے ، روز بروز بڑھتے اس
مرض سے بچاؤکی تدابیر اورعلاج معالجے کے حوالے سے آگاہی کے لئے مختلف
سیمینار اور واک کا اہتمام کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہیپاٹائٹس اے، بی، سی
اور ڈی کے وائرس کی اقسام ہولناک صورت اختیار کرتی جارہی ہیں، ان کا بروقت
علاج نہ ہونے کی وجہ سے یہ بیماریاں خطرناک نوعیت اختیار کرتے ہوئے جگر کے
سرطان اور لیور سیروسزکی شکل اختیارکرجاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے
صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں پاکستان دوسرے
نمبر پر ہے، جہاں صرف ہیپاٹائٹس کی دو اقسام، بی اور سی کے ہی تقریباً ڈیڑھ
کروڑ مریض موجود ہیں۔ پاکستان میں ہر بارہواں شخص ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے۔
ہیپا ٹائٹس جگر کی سوزش کی بیماری ہے، جو ایک وائرل انفیکشن یا سم آلود
عفونت سے جنم لیتی ہے۔ اس کی پانچ اقسام ہیں ہیپا ٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور
ای۔ عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ہیپا ٹائٹس اے اور ای عموماً
آلودہ پانی اور ناقص خوراک کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ ہیپا ٹائٹس بی، سی اور
ڈی انسانی جسم میں پائے جانے والے عفونت زدہ سیّال مادے، خاص طور سے خون کی
ایک سے دوسرے جسم تک منتقلی سے پیدا ہوتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ مرض
پیدائش کے دوران ماں سے بچوں میں منتقل ہوسکتا ہے۔ یہ وائرس متاثرہ مریض کے
ٹوتھ برش استعمال کرنے اور متاثرہ مریض کے نیل کٹر استعمال کرنے سے بھی
لاحق ہوجاتا ہے، گھر کے کسی بھی فردکویہ مرض لاحق ہونے کی صورت میں اس کا
ٹوتھ برش، نیل کٹر، قینچی علیحدہ کردی جائے، مرد حجام کے پاس شیوکرانے سے
گریز کریں ، کیونکہ عموماً حجام کے استرے اور سامان اسٹرلائز نہیں ہوتے اور
استعمال کیے جانے والے استرے بھی آلودہ ہوتے ہیں جوکسی بھی خون کی خطرناک
بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ جبکہ خواتین میں ہیپاٹائٹس کی بڑی وجوہ میں بیوٹی
پارلر اور ناقص میک اپ کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔ استعمال شدہ سرنجز بھی
ہیپاٹائٹس پھیلانے کی اہم وجہ ہیں۔ ہیپا ٹائٹس بی جنسی اختلاط سے بھی پیدا
ہوتا ہے۔ لیکن ہیپاٹائٹس بی اور سی کوئی اچھوت کا مرض نہیں ، اس لیے یہ
ہاتھ ملانے ،کھانسی یا چھینکنے یا اکھٹے کھانے پینے سے نہیں پھیلتا ۔ماہرین
طب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس وائرس کی تباہ کاری سامنے آرہی ہے
، لہٰذا والدین بچے کو پیدائش کے بعد ہیپاٹائٹس بی سے بچاؤ کی حفاظتی
ویکسین لازمی لگوائیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہیپاٹائٹس کے مرض کے آخری اسٹیج یا اس بیماری
کے حد سے بڑھ جانے کی صورت میں جگر ٹرانسپلانٹ یا پیوند کاری کے سوا کوئی
چارہ نہیں رہتا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جگر کے اس مرض کے پھیلاؤمیں سب سے
بڑا خطرہ ایسے مریض ہیں جو اپنے مرض سے آگاہ نہیں ہوتے اور وہ اسے دیگر
افراد میں منتقل کر دیتے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کی ابتدائی علامات میں متلی، قے ،
دست لگ جانا ، پیشاب کی رنگت کا گہرا زرد ہوجانا،آنکھوں کی سفیدی پر پیلا
پن غالب آ جانا، جلد پر بھی پیلا پن نظر آنا، تھکن اور گراوٹ کا احساس،
بھوک میں کمی آ جاناشامل ہیں۔ اگر بروقت تشخیص کے بعد مریض کا متواتر علاج
ہوتا رہے تو چند ہفتوں میں اس مرض کا کامیاب علاج ممکن ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں بڑھتے ہوئے ہیپاٹائٹس کے مرض سے بچنے کے
لیے احتیاط ہی بہترین طریقہ ہے، جس سے آپ خود کو اس موذی مرض سے بچا سکتے
ہیں، اس مہلک مرض سے بچنے کے لیے چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بہت ضروری
ہے ،مثلاً خون لگوانے سے پہلے ہیپاٹائٹس کا ٹیسٹ ضرور کروالیں،انجکشن کے
لئے ہر بار نئی سرنج کے استعمال پر اسرار کریں،آپ خواہ تندرست کیوں نہ ہو
پھر بھی سال میں کم از کم دوبار اپنا خون ٹیسٹ اور مکمل میڈیکل چیک اپ ضرور
کرو ائیں، تاکہ تمام مہلک امراض پر ابتدائی مراحل میں ہی قابو پایا جاسکے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہیپاٹائٹس کی روک تھام
اور علاج کے لیے خصوصی پروگرام جاری ہیں، گھر گھر حفاظتی ٹیکے لگانے کے
علاوہ ہر بڑے اور چھوٹے ہسپتال میں اس بیماری سے بچاؤ کے لئے ویکسی نیشن
کروائی جا رہی ہے، سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو مفت علاج کی سہولت حاصل
ہے لیکن اس کے باوجود اس مرض پر قابو پانا کافی مشکل ہو چکا ہے، ہیپاٹائٹس
پر قابو پانے کے لئے حکومتی کوششیں ہی کافی نہیں، اس سلسلے میں عوام کو بھی
صحت ، صفائی اور غذا کے استعمال میں خیال رکھتے ہوئے اپنا کردارادا کرنا ہو
گا، تاکہ روز بروز بڑھتے اس مرض پر قابو پایا جاسکے۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.