سیاسی عمل سماجی خدمت کے تصور کے بغیر اور سماجی خدمت سیاسی شعور کے بغیر ادھورے ہیں

آج ہمارے معاشرے میں جس طرح کا سیاسی کلچر موجود ہے اس میں سماجی خدمت تو دور کی بات ہے، یہ تمام سیاسی اجتماعتیں اسی معاشرتی جسم کو بے رحمی سے نوچنے کے لئے وجود میں آتی ہیں۔معاشی کرپشن تو ان کی روح رواں ہے ہی ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کا دیگر پہلوؤں سے بھی شیرازہ بکھیرا جا رہا ہے، مثلاً جھوٹ کا کلچر، دھوکہ دہی کا کلچر، فرقہ وارانہ اور گروہیت کا کلچر، عدم برداشت کا کلچر، ذاتی مفادات کے لئے اجتماعی مفادات کو داؤ پہ لگانے کا کلچر،اپنی کرسی اقتدار کے حصول لئے انارکی اور تشدد کا کلچر،اور اگر ان سماجی اور سیاسی گروہوں میں فقدان ہے تو سماجی خدمت کا ، انسانیت کے احترام کا،اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کا، تحمل و برداشت کا، وسعت نظری اور محبت کا، سچائی اور اخلاص کا۔افسوسناک پہلے یہ ہے کہ اکثر اوقات معاشرے میں سماجی خدمت کرنے شخصیات اور اداروں کو ان سیاسی جماعتوں کی مخالفت اور عداوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں سماجی خدمت کو رواج دیا جائے، سیاسی جماعتوں کو خدمت انسانیت کے جذبے کی بنیاد پہ تشکیل دیا جائے، سیاسی قائد اس کو بنایا جائے جس نے معاشرے کی خدمت میں کوئی حصہ ڈالا ہو، ورکرز کو انسانی خدمت کے حوالے سے نظریاتی اور عملی تربیت فراہم کرنے کا کلچر عام کیا جائے۔تاکہ سیاسی کام کو سماجی خدمت کے کام سے جوڑ کر معاشرے کے اندر حقیقی مثبت تبدیلی کی داغ بیل ڈالی جائے۔
ایک مفکر کے بقول:’’اگر سیاسی نظام غیر تخلیقی ہو تو وہ تعلیمی ،معاشی اور سماجی توانائیوں کو چٹ کر جاتا ہے‘‘لہذا یہ حقیقت ہے کہ ایک تخلیقی سیاسی نظام مثبت اور ہمہ گیر سیاسی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔اور مختلف جہات میں معاشرتی زندگی کی نشوونما میں کردار ادا کرتا ہے۔انسانی حقوق کی بحالی،آزادی اظہار رائے،تعاون باہمی،اخوت ویکجہتی ،تہذیب وتمدن کا ارتقاء،تخلیق کا عمل معاشرے میں ہمہ گیر سیاسی شعوری عمل کا متقاضی ہے دراصل یہ سیاسی عمل سماجی زندگی کی ترتیب وتشکیل کا عمل ہے معاشرتی زندگی میں تبدیلیوں ،گردو پیش پروان چڑھنے والے اداروں اور ان کے نتائج پر غوروفکر کرنے کا عمل ہے ۔قومی زندگی کی تشکیل میں حائل رکاوٹوں اور ان کے سد باب کے لئے شعوری جدو جہد کا نام ہے۔

عصری تقاضہ ہے کہ معاشرے میں جمہوری قدریں پروان چڑھیں ،بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہو ،تحقیق ،تخلیق اور تعمیر کے عمل سے معاشرہ ترقی کی منازل طے کرے قومی زندگی وسعت نظری اور اجتماعیت کا نظارہ پیش کرے ۔افراد معاشرہ اپنے جملہ حقوق وفرائض سے آگاہ ہو کر معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کا بھر پور حصہ ہوں اپنے گرد وپیش پنپنے والے اداروں اور شعبہ جات کی تشکیل،تعمیر اور ترتیب میں حقیقی کردار ادا کریں۔مذکورہ تقاضوں کی تکمیل ایک ہمہ گیر معاشرتی عمل کے ذریعے ہی سے ہو سکتی ہے جو افراد معاشرہ کی سیاسی عمل میں حقیقی شمولیت کے بغیر نہیں ہو سکتا سیاسی عمل سے بے رغبتی ،بے شعوری کی روش معاشرے کے اندر رفتہ رفتہ اجتماعی بے حسی،قومی مسائل سے بے اعتنائی اور انفرادیت کو جنم دیتی ہے ۔ذاتی اغراض پرستی کے جراثیم معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیتے ہیں نتیجتاً معاشرے پر آمریت اور استبدادیت کے سائے منڈلانا شروع ہو جاتے ہیں اہم قومی ادارے مخصوص مفاد پرست طبقہ کے تسلط میں چلے جاتے ہیں جو اپنی ذاتی اغراض اور مفاد پرستی کی تکمیل کے لئے مزید سیاسی بد عملی،بے شعوری اور تقسیم کے عمل کو فروغ دیتے ہیں۔اس طرح افراد معاشرہ سیاسی فہم اور شعور سے محرومی کی سزا بھگتے ہیں شخصیت پرستی ایک وبا کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔مفاد پرست شخصیات اور گروہ عوام الناس کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے آلہ کار بنا دیتے ہیں ۔افراد سیاسی بے شعوری کیوجہ سے خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں ۔حالات وواقعات کا حقیقی ادراک نہ ہونے کی وجہ سے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر قومی وحدت کو داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔لسانیت ،علاقائیت ،فرقہ واریت ،تنگ نظری،قومی زندگی کو دیمک کی طرح چاٹنے لگتی ہے یہ سچ ہے کہ ’’بے شعور دماغوں کو منتشر کر نا دنیا کا آسان ترین کام ہے‘‘حالات سے ناواقفیت ،زندگی کی بنیادی انسانی قدروں سے عدم آگاہی ،سماجی زندگی کے ارتقاء کے بنیادی اصولوں سے درماندگی ،آمرانہ ذہنیتوں ،جابرانہ رویوں کو معاشرہ اوڑنا بچھونا بنا لیتا ہے۔جو معاشرہ اپنے حقوق سے آگاہ نہیں ہوتا اور اپنے انفرادی اور اجتماعی فرائض سے غافل ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو تباہی وانتشار سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔

حقیقی سیاسی عمل اور شعوری تربیت گلی،محلوں سے شروع ہوتا ہے جہاں ان گنت مسائل جنم لیتے ہیں یہ معاشرے کی تشکیل کے اساسی یونٹ ہیں اگر فرد اپنے گلی محلے اور وارڈ کے مسائل کا فہم نہیں رکھتا اور اس سطح کے اجتماعی عمل میں شریک نہیں ہوتا وہ قومی مسائل کے ادراک اور سد باب کا کیسے سوچ سکتا ہے؟یہ سیاسی عمل بغیر اجتماعیت کے تکمیل پذیر نہیں ہو سکتا ۔گلی محلے کا مسئلہ ہو یا قومی وبین الاقوامی بغیر اجتماعی جدو جہد کے حل نہیں ہو سکتا۔قدم قدم پر ایسے ادارے ،فورم،یا تنظیم کی ضرورت پیش آتی ہے جہاں مل جل کر اپنے ،ایک دوسرے کے مسائل ،خدمت،رواداری اور تعاون باہمی کے جذبہ سے حل کئے جائیں۔

سیاسی عمل بغیر سماجی خدمت کے تصور کے بے روح ہے اور صرف سماجی خدمت بغیر سیاسی عمل وشعور کے بے ثمر۔کیونکہ سیاسی عمل تنظیم اور انجمنیں پیدا کرتا ہے معاشرے کو منظم کرتا ہے اور اگر اس اجتماعیت میں سماجی خدمت کا پہلو نہ ہو تو یہ انجمنیں آگے چل کر ذاتی اغراض اور مفاد پرستی میں مبتلا ہو کر سیاسی عمل کی بد نامی کا باعث بنتی ہیں اور معاشرے میں مزید انتشار وافتراق پیدا کرتی ہیں ۔

معاشرے میں سیاسی کام کرنے والے افراد سماجی خدمت کے عملی کام کی تربیت کے بغیر ایک اچھے قومی سیاستدان نہیں بن سکتے اور ایک سماجی کارکن بغیر سیاسی شعور وتربیت کے حقیقی معنوں میں عوامی مسائل کو حل نہیں کر سکتا۔لہذا ایک سیاستدان کو سماجی کارکن کا تجربہ اور سماجی کارکن کو سیاسی شعور ۔ایک ہمہ گیر تخلیقی سیاسی نظام کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ فی زمانہ کوئی بھی مسئلہ بغیر تنظیم اور اجتماعیت کے حل نہیں ہو سکتا ۔اگر مزدور ہیں تو وہ مزدور یونین ،ٹریڈ یونین کی تشکیل کے بغیر اپنے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے اور نہ اپنے وقت کیساتھ بدلتے ہوئے تقاضوں کو منوا سکتے ہیں ۔اگر ٹیچرز ہیں تو وہ اجتماعی جدو جہد اور یونین کے بغیر اپنے مسائل کی طرف توجہ نہیں دلا سکتے۔اس طرح زندگی کے ہر شعبے میں اس کی اہمیت مسلم ہے۔دراصل زندگی کے مختلف شعبوں میں تشکیل پانے والی یہ اجتماعتیں جہاں معاشرے میں جمود کو توڑنے کا باعث بنتی ہیں وہاں بدلتے ہوئے دور کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ مثبت تبدیلیوں کا بھی باعث بنتی ہیں ۔اچھے سے اچھا نظام مملکت اس وقت تک معاشرتی ذمہ داریوں سے سو فیصد عہدہ بر آ نہیں ہو سکتا جب تک وہ معاشرے کے تمام افراد کو اپنے خیالات وافکار اور اپنے حقوق کی آواز بلند کرنے کا فورم مہیا نہ کرے وگرنہ وہی اچھا نظام جبر واستبداد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

حقیقی سیاسی شعور کے لئے معاشرے میں اس تنظیمی عمل کو فروغ دینا ناگزیر ہے تاکہ افراد معاشرہ میں اپنے مسائل کو خود حل کرنے کے لئے کردار ادا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔�آج دنیا کی مہذب اقوام یا ترقی یافتہ اقوام کے معاشروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان معاشروں میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو کسی نہ کسی تنظیم ،ادارے ،فورم،تھنک ٹینک کا ممبر نہ ہو۔انسانی حقوق سے لیکر جانوروں کے حقوق تک کی انجمنیں معاشرے میں موجود ہیں۔افراد معاشرہ ان انجمنوں ،اداروں اور فورمز پر اپنے خیالات افکار،تجزیات،مطالبات کا اظہار اور تبادلہ کرتے ہیں اس طرح افراد معاشرہ کے مجموعی ارتقاء میں کردار ادا کرتے ہیں۔ان معاشروں میں قائم حکومتیں وقتاً فوقتاً اس اجتماعی عمل کے نتیجے میں اپنی اصلاح واحوال کرتی ہیں اگر شعوری نظر سے دیکھا جائے تو ان حکومتوں کا وجود بھی اسی سیاسی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے لہذا وہ معاشرتی مسائل سے نہ صرف آگاہ ہوتی ہیں بلکہ انہیں حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔معاشرے میں قائم ،فورمز ،اجتماعتیں ،حکومتی نظام کی پالیسیوں پر گہری نظر رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومتی ادارے اور شخصیات کسی کرپشن کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے گویا یہ اجتماعی سیاسی عمل جہاں معاشرے میں جمہوری عمل کے فروغ کا باعث ہے وہاں حکومت اور اداروں کے لئے احتسابی عمل کی روایت کو معاشرے میں زندہ رکھتا ہے۔جس سے عوامی رائے اداروں کی تشکیل میں حتمی کردار ادا کرتی ہے گویا یہ حقیقت سامنے آئی کہ جمہوری مزاج اور خدمت خلق کا جذبہ ایسے ماحول میں پروان چڑھتا ہے جہاں عوامی سطح پر ایسے اداروں کی روایت موجود ہو جو مل جل کر ایک دوسرے کے مسائل اور پریشانیوں کو ایسے اشتراک عمل سے حل کرنے کی کوشش کریں تاکہ ایک طرف سیاسی شعور کو فروغ ملے تو دوسری طرف سماجی خدمت کا عمل معاشرے کی اساس بنے ایسے ادارے معاشرتی روح کا کردار ادا کرتے ہیں۔مقامی کلچر ،زبان ،تشخص اور صحت مند روایات زندہ ہوتی ہیں ۔افراد معاشرہ کی ذہنی وقلبی دوری اور بعد کو قربت اور اخوت میں تبدیل کرنے میں یہ ادارے بنیادی کردار کے حامل ہوتے ہیں۔لیکن شرط یہ ہے کہ اداروں ،فورمز اور اجتماعیتوں کی تشکیل کسی خاص تنگ نظر ،مخصوص فرقہ پرست دائرے اور یوٹوپیائی تخیلات کی بجائے زمینی حقائق اور وسعت نظری وحدت انسانیت اور رواداری کے مزاج اور فکر پر استوار ہو۔ اس پلیٹ فارم پرہرذہن وسوچ کا علمبردار بیٹھ کر بر ملا اپنے خیالات کا اظہار کر سکے۔ تاکہ سماجی مسائل کے بنیادی محرکات کا شعور اور ان کے تدارک کے لئے مل جل کر جدو جہد کی روایت پیدا ہو ۔اور عملی طور پر مشترکہ احسا س کے ساتھ معاشرے میں اجتماعی ترقی کے لئے میدا ن عمل میں آ کر عصری تقاضوں کے مطابق سیاسی عمل کو بھی فروغ دیا جا سکے۔

آج ہمارے معاشرے میں جس طرح کا سیاسی کلچر موجود ہے اس میں سماجی خدمت تو دور کی بات ہے، یہ تمام سیاسی اجتماعتیں اسی معاشرتی جسم کو بے رحمی سے نوچنے کے لئے وجود میں آتی ہیں۔معاشی کرپشن تو ان کی روح رواں ہے ہی ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کا دیگر پہلوؤں سے بھی شیرازہ بکھیرا جا رہا ہے، مثلاً جھوٹ کا کلچر، دھوکہ دہی کا کلچر، فرقہ وارانہ اور گروہیت کا کلچر، عدم برداشت کا کلچر، ذاتی مفادات کے لئے اجتماعی مفادات کو داؤ پہ لگانے کا کلچر،اپنی کرسی اقتدار کے حصول لئے انارکی اور تشدد کا کلچر،اور اگر ان سماجی اور سیاسی گروہوں میں فقدان ہے تو سماجی خدمت کا ، انسانیت کے احترام کا،اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کا، تحمل و برداشت کا، وسعت نظری اور محبت کا، سچائی اور اخلاص کا۔افسوسناک پہلے یہ ہے کہ اکثر اوقات معاشرے میں سماجی خدمت کرنے شخصیات اور اداروں کو ان سیاسی جماعتوں کی مخالفت اور عداوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں سماجی خدمت کو رواج دیا جائے، سیاسی جماعتوں کو خدمت انسانیت کے جذبے کی بنیاد پہ تشکیل دیا جائے، سیاسی قائد اس کو بنایا جائے جس نے معاشرے کی خدمت میں کوئی حصہ ڈالا ہو، ورکرز کو انسانی خدمت کے حوالے سے نظریاتی اور عملی تربیت فراہم کرنے کا کلچر عام کیا جائے۔تاکہ سیاسی کام کو سماجی خدمت کے کام سے جوڑ کر معاشرے کے اندر حقیقی مثبت تبدیلی کی داغ بیل ڈالی جائے۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136072 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More