اَلوَداعٰ بڑے سائیں ۔ تبدیلی ضروری تھی
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
سابق صدر آصف علی زرداری نے آخر کار سید
قائم علی شاہ کو رخصت کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ اس تبدیلی کی ضرورت بہت
پہلے سے محسوس کی جارہی تھی اور اسے بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ چلیے دیر
آید درست آید۔ سندھ کے بڑے سائیں سید قائم علی شاہ صاحب بہت ہی محترم ، نیک
اور سادہ لوگ انسان ہیں۔ دیانتدار اور معاملہ فہمی کا ادراک رکھتے ہیں۔ وہ
پاکستان پیپلز پارٹی کا اثاثہ ہیں،بانی اراکین میں سے ہیں، دستور پاکستان
کے مسودہ پر دستخط کرنے والوں میں سے ہیں۔ بھٹو خاندان کے وفا دار بھی۔ ان
کی شرافت ، دیانت اور سادگی پر کوئی حرف نہیں ۔ میں انہیں ذوالفقار علی
بھٹو کے دور سے دیکھ رہاہوں۔ پارٹی پر کڑے وقت بھی آئے لیکن شاہ صاحب بھٹو
خاندان پر قربان ا ور وفادار ہی رہے۔ 1970کے عام انتخابات میں انہوں نے
پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر خیر پور سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا ،اس
سے قبل وہ ایوب خان کے دور اقتدار میں خیر پور ڈسٹرکٹ کونسل کے چیرٔمین رہ
چکے تھے۔ تعلق سندھ کے ضلع خیر پور سے ہے۔ انہوں نے جسٹس(ر) سید غوث علی
شاہ صاحب کو جو مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے شکست دی تھی۔ سید
غوث علی شاہ نے عدلیہ سے ریٹائرہوکرسیاست کا رخ کیا تھا اب نون لیگ کے
ناراض سیاست دانوں میں شمار کیے جارہے ہیں۔ سید قائم علی شاہ نے پارلیمانی
سیاست کا آغاز پیپلز پارٹی کے رکن کی حیثیت سے کیا انہیں پارٹی ٹکٹ دیتی
رہی ، وہ الیکشن لڑتے رہے اور کبھی قومی اسمبلی اور کبھی سندھ اسمبلی میں
اپنی سیاست کے جوہر دکھا تے رہے ۔وہ وفاقی وزیر بھی رہے، سینیٹر بھی۔ اس
دوران ایسا وقت بھی آیا کہ سید غوث علی شاہ کا پلڑا بھاری پڑگیا اور1997کے
عام انتخابات میں بڑے سائیں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔سید غوث علی شاہ بھی
خیر پور سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
سائیں سید قائم علی شاہ کی سیاسی زندگی کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ
صاف ستھری سیاست کرتے رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ شاہ صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ
نہیں جامعہ کراچی بی اے کیا، ایس ایم لاء کالج سے ایل ایل بی۔شرافت، دیانت
اور اچھا انسان ہونے کے لیے تعلیم ضروری نہیں، تربیت ، ماحول اور خاندانی
روایات انسان کو معاشرے کا بہترین فرد بناتے ہیں۔ قائم علی شاہ ان میں سے
ایک ہیں۔وہ سندھ کی سیاست سے وابستہ رہے نیز ایک ہی سیاسی جماعت کے ہورہے
اور اسی پر اکتفا کیا ، یہاں تک کہ جب ضیاء الحق کے دور اقتدار میں پاکستان
پیپلز پارٹی پر مشکل وقت آیا، بھٹو صاحب کے ساتھ شاہ صاحب بھی گرفتار ہوئے۔
بھٹو کے ساتھی پی پی کے متعدد سینئر سیاست داں مشکل وقت میں خاموش ہورہے،
ادھر اُدھر ہوگئے، پارٹیاں بدل لیں لیکن بڑے سائیں ثابت قدم رہے۔بے نظیر کی
سیاست کا آغاز ہوا تو سائیں کو سندھ پیپلز پارٹی کا صدر بنادیا گیا اور وہ
اس عہدہ پر طویل عرصہ رہے۔ شاہ صاحب نے ایک الیکشن کے علاوہ تمام انتخابات
میں کامیابی حاصل کی۔ 2008کے عام انتخابت میں سندھ اسمبلی کے رکن منتخب
ہوئے اور ساتھ ہی سندھ کے وزیر اعلیٰ بھی مقرر ہوگئے ان کے بڑے وزیر کا
دورانیہ 2013کے عام انتخات کے بعد بھی جاری رہا ۔ وہ سندھ کے 28 ویں وزیر
اعلیٰ تھے۔ قومی اسمبلی کے علاوہ انہیں سات مرتبہ سندھ اسمبلی کا رکن منتخب
ہونے کا اعزاز حاصل ہے وہ 1990,،1997،2002، 2008اور 2013میں سندھ اسمبلی کے
رکن منتخب ہوئے ۔ اسی طرح وہ 1973میں پہلی مرتبہ سندھ پیپلز پارٹی کے صدر
بنے 1977تک صدر رہے، اس کے بعد 1987سے1997اور پھر 2004سے اپنی وزارت اعلیٰ
کے اختتام تک سندھ پیپلز پارٹی کے صدرہیں۔ انہیں نہ تو پارٹی کی صدارت سے
نہ ہی اسمبلی کے رکنیت ، وزارت یا وزارت اعلیٰ سے الزام لگا کر ہٹایا نہیں
گیا۔ لوگ انہیں سیدھا وزیر اعلیٰ کہہ کر خاموش ہوجایا کرتے تھے۔ ان کی
سادگی کی وجہ سے ان پر ایک الزام ضرور لگا یا جاتا رہا کہ وہ پارٹی کے
سربراہ آصف علی زرداری کے کہنے کے مطابق معاملات کو چلاتے رہے ، یہ ایک
لازمی حصہ تھا وہ اپنی پارٹی کے سربراہ کی بات نہ مانتے تو پھر کس کی بات
مانتے، ان پر یہ بھی الزام لگا یا جاتا رہا کہ وہ پارٹی کے کسی بھی طاقت ور
وزیر کے کہنے پر فیصلے لے لیا کرتے تھے، ان پر یہ بھی الزام لگا کہ انہیں
کسی کرپٹ وزیر کے خلاف کاروائی کا اختیار نہیں تھا۔ پارٹی کو جو بات
کہلوانا ہوتی شاہ صاحب کے ذریعے آسانی سے کہلوادیا کرتے تھے۔ پارٹی پر اور
نہ ہی حکومتی اداروں پر ان کی گرفت رہی تھی ، ہر سیاسی طاقت ور ، ہر ادارہ
بے سونڈ ہاتھی ہو کر رہ گیا تھا۔ ان کی مثال تو ایسی تھی کہ وہ سندھ حکومت
کے آگے آگے چل رہے تھے، اصل کام دکھانے والے ان کے پیچھے پیچھے تھے اور کام
دکھا رہے تھے۔وہ شاہ صاحب سے دائیں مڑنے کو کہتے شاہ صاحب ایسا ہی کرتے،
بائیں مڑنے کو کہتے شاہ صاحب بائیں مڑ جاتے، رک جانے کو کہتے رک جاتے، چلنے
کو کہتے چلنے لگتے۔صوبے کی حکومت کبھی اس طرح بھی چلا چلتی ہے، آخر کب تک
گاڑی چلتی۔ وفاق سے بھی شاہ صاحب کے معاملات کمزور تھے۔ انہیں بزرگ جان کر
عزت تو کی جاتی لیکن ان کی باتوں پر کان دھرنے کی توفیق نہ رہی تھی۔ اس میں
شاہ صاحب کا قصور نہ تھا ، شاہ صاحب عمر کے جس حصے میں پہنچ چکے ہیں ، یہ
عمر اس طرح کی سرگرمیوں کی نہیں،وہ تو پروگراموں ، تقریبات کی صدارت کے لیے
موضوع شخصیت ہیں اور اب وزارت اعلیٰ سے فراغت کے بعد وہ اسی قسم کی
سرگرمیوں میں دیکھے جائیں گے۔یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وہ اپنی فیملی کے
ساتھ امریکہ کی شہریت حاصل کر کے وہیں کے ہورہیں گے۔ پر شاہ صاحب کا دل
وہاں لگے گا نہیں۔ دوڑ دوڑ پاکستان آیا کریں گے
بڑے سائیں نے شادیاں تین کیں لیکن تینوں خاندانی روایت کے مطابق۔ اس حوالے
سے ان کا کوئی ایک اسکینڈل بھی سامنے نہیں آیا۔ ان کی پہلی اور دوسری شریک
حیات طبعی موت مریں۔ اس کے بعد شاہ صاحب تنہا ئی کا شکار ہوئے چنانچہ
خاندان کے لوگوں کی مرضی سے انہوں نے تیسری شادی کی۔ ماشاء اﷲ ان کے 4بیٹے
اور 8بیٹیاں ہیں۔ سب ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ،کچھ ڈاکٹر زہیں، سی ایس ایس
اعلیٰ عہدہ پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی ایک بیٹی نفیسہ شاہ میدان
سیاست میں اپنے جوہر دکھا رہی ہیں۔ رکن قومی اسمبلی ہیں، معاشی امور کی
اسٹینڈنگ کمیٹی کی چیرٔپرسن ہیں۔ سیاسی امور پر ان کی گہری نظر ہیں، اکثر
ٹی وی ٹاک شو زمیں اپنی پارٹی کا دفعہ کرتی اور سیاسی موضوعات پر تجزیہ پیش
کرتی نظر آتی ہیں۔ شاہ صاحب کی اولاد کے بارے میں بھی کوئی منفی بات سامنے
نہیں آئی۔ کبھی یہ ذکر نہیں ہوا کہ سید قائم علی شاہ کی پاکستان سے باہر
کوئی جائیداد ہے، کوئی فلیٹ ہے، کوئی کاروبار ہے یا ان کی بھی کوئی آفشور
کمپنی ہے۔ ان کی گفتگو میں شائستگی ہے،انہوں نے مخالفین کے بارے میں کبھی
گری ہوئی زبان استعمال نہیں کی، سیاسی انتقام کے وہ قائل ہی نہیں۔ البتہ
کبھی کبھی ان کی زبان پسل ضرور جایا کرتی تھی۔ اس کی وجہ عمر کا تقاضہ تھا۔
سائیں سید قائم علی شاہ 13ستمبر1928کو خیر پور سندھ میں پیدا ہوئے۔ اس وقت
وہ گویا 88برس کے ماشاء اﷲ ہوچکے ہیں۔ اس عمر میں انہوں نے سندھ جیسے مشکل
اور ٹیڑھے صوبے کی وزارت اعلیٰ کا بار اپنے کاندھوں پر لیا ہواتھا۔ ذمہ
داران کو اب نہیں معلوم کس وجہ سے اس بات کا خیال آگیا کہ اب بڑے سائیں پر
رحم کر دیا جائے ، انہیں رخصت کردیا جائے۔ بظاہر جو حالات اور واقعات لمحہ
موجود کا حصہ ہیں ان میں صوبے میں گڈ گورننس، رینجرز کو اختیارات دینے کا
معاملا ہے، کراچی آپریشن کا دائرہ کراچی سے بڑھا کر پورے سندھ تک کرنے کا
معاملا ہے جو سب سے اہم نظر آرہا ہے۔ اس لیے کہ سندھ کے اصل حکمراں یہ ہرگز
نہیں چاہتے کہ ایسا ہورینجرز کراچی سے باہر قدم رکھے ، کراچی میں پیپلز
پارٹی کے ایم کیوایم سے معاملات مسلسل کشیدہ چل رہے ہیں، کراچی کا سیاسی
اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آرہا۔ بظاہر اس کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں
نہیں آتی، اس لیے کہ رینجرز کو جب جب ، جہاں جہاں ضرورت ہوتی ہے کاروائی
کرکے اپنا شکار کر لیتی ہے۔ اختیار ات دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، سائیں ضرب
عضب کے حوالے سے سندھ کے کپتان بھی تھے، ان کی کپتانی ڈھیلی جارہی تھی،
سندھ میں خاص طور پر کراچی میں دہشت گردی پر کنٹرول تو کیا گیا لیکن پھر
بھی دہشت گرد کاروائی کرنے سے بعض نہیں آرہے، پیپلز پارٹی کے بعض وزراء جو
مختلف الزامات میں مطلوب ہیں ان کا بھی معاملا ہے، ڈاکٹر عاصم حسین کو شاہ
صاحب رہائی نہیں دلا سکے۔اس قسم کے معاملات کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کی
ٹاپ کی لیڈر شپ نے سندھ میں تبدیلی کو ناگزیر سمجھا ، سندھ پیپلز پارٹی میں
متعدد سینئر سیاست دانوں کو بائی پاس کرتے ہوئے ایک کم عمر ،کم تجربہ
کارسیاست دان کو سید قائم علی شاہ کی جگہ وزارت اعلیٰ کا ہار پہنایا جارہا
ہے۔یہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ سید عبد اﷲ شاہ کے بیٹے سید مراد علی شاہ
ہیں۔ مراد علی شاہ کی سیاسی عمر یقینا کم ہے، سید قائم علی شاہ کے مقابلے
میں مراد علی شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ضرور ہیں لیکن سیاسی تعلیم و تجربہ شاہ
صاحب کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔عبد اﷲ شاہ کی وزارتِ اعلیٰ کے زمانے میں
بھی کراچی میں آپریشن ہورہا تھا، عبد اﷲشاہ مرحوم اس حوالے سے اہل کراچی کے
لیے جانے پہچانے ہیں۔ اس وقت مراد علی شاہ زیادہ کم عمر اور جوشیلے پیپلز
پارٹی کے جیالے تھے۔ پھر یہ ملک سے باہر چلے گئے،کنیڈا کو اپنا مسکن
بنایا،نومبر 2014میں کنیڈا کی شہریت ترک کر کے پاکستان تشریف لائے، پیپلز
پارٹی ان پر مہربان ہوئی ، جامشورو سندھ سے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے
، سندھ کی اہم وزارت کے ساتھ ساتھ سندھ کے سینئر وزیر کے مرتبے پر فائز
ہوئے۔ قسمت کی دیوی مہربان ہوئی، قبلہ آصف علی زرداری کی نظر کرم سندھ کی
وزارت اعلیٰ کے لیے ان پر پڑی، ایک اعتبار سے یہ بہتر انتخاب ہے کہ مراد
علی شاہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ یہ سندھ کے تمام تر
حالات کا ادراک کرتے ہوئے صوبے میں بہتر ی لانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔یہ
ضرور ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار اور سمجھ بوجھ رکھنے والے ،
پارٹی کے وفادار بھی ایک درجن سے زیادہ سیاسی لیڈروں کو پسِ پشت ڈال کر
پارٹی کے ایک کم سیاسی کھلاڑی کو کپتان بنانے میں کیا حکمت ہے ، یہ پارٹی
کے سربراہان ہی جانتے ہوں گے یا پھر وقت یہ بتائے گا کہ ایسا کیوں کر کیا
گیا۔ کیا وہ تمام سینئر رہنما ء خاموشی سے اپنے سے جونیئر کی کپتانی میں
فعال سیاسی کھیل جاری رکھ سکیں گے؟ ایسا کر کے پیپلز پارٹی نے اپنے لیے نئی
مشکلات تو کھڑی نہیں کر لیں؟ یہ بھی ممکن ہے کہ نیا کپتان سندھ کے بگڑتے
حالات کی کشتی کو پار لگانے میں کامیاب ہوجائے۔ اگر اس نے اپنے سینئر ز کے
ساتھ عاجزی، انکساری، رواداری ، احترام سے کام لیا تو ممکن ہے کہ پیپلز
پارٹی کا ایک جونیئر کپتان اچھی کپتانی کرسکے اور پارٹی کو مشکل سے نکالنے
اور سندھ کے عوام کے لیے سکون اور راحت کا سامان بن سکے گا۔پر آثار کچھ
مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ اﷲ سندھ اور سندھ کے سب ہی لوگوں پر اپنا فضل
کرے۔
(28جولائی 2016) |
|