خادمِ اعظم عبدالستارایدھی کی خدمات سب کیلئے
(Abdul Waheed Rabbani, Lahore)
دنیا دے وچ رکھ توبندیاں انج دا بھن کھالون
توہوے تے ہسن سارے، ٹُرجاوے تے رہن
عبدالستارایدھی 1928 میں بھارتی ریاست گجرات کے شہربانٹوامیں پیداہوئے آپ
کے والدکانام حاجی عبدالشکورتھا اوروہ کپڑے کے تاجرتھے۔برصغیرکی تقسیم کے
وقت آپ کا خاندان ہجرت کرکے پاکستان چلاآیا۔اور کراچی میں رہائش
اختیارکرلی۔عبدالستارایدھی صاحب بچپن سے ہی محنتی اور جدوجہدکرنے والے تھے
آپ نے اپنے والدسے چندپیسے لیے اوران سے تولیے، پنسلیں اورماچس لیکربیچنے
نکل پڑے۔ جب آپ اسکول جاتے تھے توآپ کی اپنی والدہ سے دوپیسے ملتے تھے آپ
کی والدہ کہتی تھی بیٹاایک آپکا اور ایک اس لڑکے کودے دیناجس کوگھرسے پیسے
آج نہیں ملے-
آپ گیارہ سال کے تھے جب آپ کی والدہ ماجدہ بیمارہوگئے اوراسی بیماری میں
وفات پاگئی۔ والدہ کی وفات کے بعدعبدالستار ایدھی کے دل میں انسانیت کی
خدمت کاجذبہ پیداہوا۔آپ کی پہلی شادی ناکام ہوگئی اوربعدمیں1965 میں دوسری
شادی بلقیس ایدھی سے کی جس کاساتھ تاحیات رہا۔آپ نے انسانیت کیلئے اپنی
خدمات کا آغاز 1948 میں میٹھادر میں میمن برادری نے ایک مخیر تنظیم سے کیا۔
ایدھی نے کچھ ہی عرصہ اس تنظیم کی ڈسپینسری میں کام کرنے کے بعد یہ مطالبہ
کیا کہ اسے میمن برادری تک محدود نہیں کرنا درست نہیں ہے مگر یہ مطالبہ
نہیں مانا گیا اور انھیں تنطیم چھوڑنا پڑی۔
ایدھی نے سماجی خدمات کا آغاز 1950 میں ایک ضعیف شخص کو پاکستان سے انڈیا
ان کے خاندان تک پہنچا کر کیا۔
1951 میں میٹھادر کے علاقے میں دو سے تین سو روپے عوض پگڑی پر دوکان حاصل
کی اور وہاں ایک ڈسپنسری قائم کی۔ ابتدا میں اس کا نام ’میمن والسیر کور‘
رکھا گیا۔سیمنٹ کا بینچ ایدھی کا بستر تھا کیونکہ وہ ڈسپینسری کو کبھی بند
نہیں کرتے تھے۔
بعد میں ایدھی صاحب نے ڈسپنسری کا نام بدل دیا اور وہاں ایک ڈسپنسری کے
علاوہ ایک ’میٹرنٹی ہوم‘ کھولا اور نرسنگ کورس بھی شروع کروایا۔ڈسپنسری کے
باہر آویزاں بینر پر یہ درج تھا ’ انسانیت کے نام پر جو دے اس کا بھی بھلا
جو نہ دے اس کا بھی بھلا
ایدھی کہتے تھے ’جب میں ریڈکراس میں جایا کرتا تھا تو دل جلتا تھا کہ میرے
پاس ایمبولینس کیوں نہیں
1957 میں میٹھا درسے باہر ان کی تنظیم نے سماجی خدمات کا آغاز کیا جو کہ
ملیر میں ’ہانگ کانگ فلو‘ کے متاثرین کی مدد کے لیے تھا۔
ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو 20 ہزار روپے دیے جس سے انھوں نے ایک پرانی
وین خریدی اور اسے ’غریب آدمی وین‘ کا نام دیا۔یہ وہ وقت تھا جب کراچی کے
سرکاری ہسپتال کے پاس صرف پانچ ایمبولینس تھیں۔آنے والے عرصے میں لوگوں نے
کھالیں، کپڑے اور خواراک بھی ڈسپینری بھجوانی شروع کی۔جب ایدھی نے، خواتین
کے لیے میٹرنٹی ہوم بنایا، پھر اپاہج اور معمر افراد کو چھت فراہم کرنے کی
کوشش کی اور تعفن زدہ لاشوں کی تدفین کا آغاز کیا تو ان کے خلاف مخالفین نے
پروپیگنڈا مزید بڑھا دیا۔ ان کو ملنے والے عطیات پر بھی سوال اٹھے۔ایسے میں
ایدھی نے دو کام کیے ایک تو ڈسپینری کا نام ’ایدھی ڈسپنری‘ رکھا اور دوسرے
باہر بورڈ پر یہ عبارت لکھی ’عطیات دینے والا کوئی بھی شخص شک و شبہے کی
صورت میں اپنی رقم واپس لے سکتا ہے۔‘
ایدھی فاؤنڈ.یشن کی بنیاد 1978 میں رکھی گئی۔ 1988 میں فاو ¿نڈیشن نے
پاکستان کی سب سے بڑی تدفین سروس شروع کی۔
وہ لاوراث لاشوں کو کفن دیتے تھے، یہ نہیں دیکھتے تھے کہ حادثے کیسے پیش
آیا، لاش کتنی تعفن زدہ ہے مرنے والا کس مذہب یا رنگ و نسل سے تعلق رکھتا
ہے۔وہ کہتے تھے ’مسخ شدہ لاشیں دیکھ کر میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ میتیں میری
تمھاری یا کسی کی بھی ہو سکتی ہیں، تو کراہیت کیسی؟
1990 تک ایدھی کی ایمرجنسی ہیلپ لائن 115 منظور ہو چکی تھی۔کراچی میں جب
قتل و غارت کا آغاز ہوا تو ایدھی نے تمام ایمبولینس کے عملے کو ہدایت کی کہ
وہ آنکھیں اور کان بند کر کے اپنا کا جاری رکھیں کیونکہ انھیں متاثرہ افراد
کو جلد ازجلد ہسپتال پہنچانا ہے۔
وہ کہتے تھے کہ ’میں صرف پاکستانیوں سے لیتا ہوں میں انھیں خیرات دینے والی
قوم بنانا چاہتا ہوں۔ پاکستانی قوم میں خیرات دینے کے جذبے کودیکھ کرآپ نے
کہا کہ میں سوکے قریب ممالک میں گیا ہومگرپاکستانی قوم جیسی قوم میں نے
کہیں نہیں دیکھی۔ آپ کا کہناتھا کہ صدقہ وخیرات دینے کے لحاظ سے پاکستانی
قوم کا نعم البدل نہیں ہے ایدھی فاو ¿نڈیشن کے قیام کے پیچھے مسلسل چھ
دہائیوں پر مشتمل ان کی جدوجہد ہے۔
1998 تک ملک بھر میں پھیلا ایدھی فاو ¿نڈیشن کے نیٹ ورک کو ایک کنٹرول ٹاور
سے منسلک کر دیا گیا۔ملک بھر میں آج 335 ایدھی سینٹرز ہیں اور ملک کے بڑے
شہروں میں 17 ایدھی ہومز ہیں۔ ایدھی فاو ¿نڈیشن 2000 ملازمین کام کرتے
ہیں۔چار ہوائی جہاز، 1800 ایمبولینسز، کینسر ہسپتال، ہوم فار ہوم لیس،
ایدھی شیلٹرز اور ایدھی ویلج ، ایدھی چائلڈ ہوم ، بلقیس ایدھی میٹرنٹی ہوم،
ایدھی فری لیبارٹری، ایدھی فری لنگر اور ایدھی ویٹنری ہسپتال کام کر رہے
ہیں۔سیلاب اور سمندری حادثات کے موقع پر رسیکیو کے کشتیاں بھی موجود ہیں۔ہر
ایدھی سینٹر کے باہر ایک جھولا ہے جس کے بارے میں ایدھی کہتے تھے کہ ’اپنے
بچے کو کبھی کوڑے میں مت پھینکو، قتل مت کرو، ا ±سے جھولے میں ڈال دو۔‘
115 ہیلپ لائن یا ملک بھر میں کام کرنے والے 117 ایدھی سینٹرز بے رحمی اور
اذیت کا شکار افراد کے مداوا کر رہے ہیں۔
بلقیس ایدھی ٹرسٹ کے ہیڈ کواٹر میں میٹرنٹی ہوم چلاتی ہیں، سالانہ تقریباً
ڈھائی سو بچوں کو بے اولاد جوڑوں کے سپرد کیا جاتا ہے۔ ایدھی ہومز مز اور
ویلفیئر سینٹرز میں کل 8500 بچے اور مرد خواتین کو سائبان فراہم کیا جاتا
ہے جو لاوارث، ہیں یا کسی وجہ سے ان کے خاندان والے انھیں خود ایدھی سینٹر
چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔اپنی دن بھر کی مصروفیات کے باوجود ایدھی ہوم میں
پرورش پانے والے یتیم بچوں کے لیے عبدالستار ایدھی کچھ وقت ضرور نکالتے
تھے۔ایدھی فاو ¿نڈیشن کے ٹرسٹیز میں ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی اورپانچ بچے
شامل ہیں۔جب آپ بیمارتھے توآپ کوپیشکش کی گئی کہ آپ کاعلاج بیرون ممالک
کروایا جائے توآپ نے بیرون ملک کسی اسپتال جانے سے انکارکردیااور کہا کہ
میراعلاج پاکستان کے سرکاری اسپتال میں ہی ہوگا۔
ایک مرتبہ خادم اعظم بلوچستان گئے تو راستے میں ڈاکو آگئے۔انھوں نے آپ
کولوٹنے کی کوشش کی مگر جب ان کوپتا چلا کہ گاڑی میں توفرشتہ دل انسان ہے
توانھوں نے فوراً ناصرف معافی مانگ لی، بلکہ امدادی رقم کے بھی ڈھیر
لگادیئے اور خود انہیں بحفاظت کوئٹہ پریس کلب پہنچایا۔اوروہ شخصیت
عبدلستارایدھی کی تھی۔
فاؤنڈیشن کے ہیڈکوراٹر سے منسلک ان کی چھوٹی سی رہائش گاہ جہاں دنیا کی
کوئی پرتعیش چیز دکھائی نہیں دیتی اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا کے امیر ترین
غریب شخص اپنے پیچھے صرف انسانیت کا درس اور فلاح کا ایسا نظام چھوڑ کر گئے
ہے۔
جو یہی پیغام دیتا ہے کہ کامیابی کے لیے سرمایہ نہیں بلکہ سچی لگن اور
مسلسل کوشش درکار ہے۔ انسانیت سے محبت کرنے والے فرشتہ دل انسان صدیوں میں
پیداہوتے ہیں عبدالستارایدھی ان میں سے ایک تھے۔بے سہاروں کے سہارا،
لاوارثوں کے وارث اور بے گھروں کوگھردینے والے اب ہم میں نہیں رہے۔ انا
اللہ والیہ راجعون |
|